• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چلئے، بات 5 ہزار سے 51 ہزار تک تو پہنچی۔ انصاف اور تبدیلی کے دعوے دار، عرصہ تک میاں نوازشریف کے پانچ ہزار روپے ٹیکس کا پروپیگنڈہ کرتے رہے۔ مسلم لیگ (ن) اور خود میاں صاحب کی طرف سے حقیقت حال کی وضاحت کردی گئی، انہوں نے ریکارڈ کی درستی کے لئے ایک دو بار کی وضاحت کو کافی سمجھا لیکن ادھر گوئبلز کا فلسفہ تھا، جھوٹ بولو اور مسلسل بولو یہاں تک کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں۔ میاں صاحب کے ٹیکس کے حوالے سے کپتان کا تازہ ترین ارشاد ہے کہ انہوں نے 1990-91 میں 51 ہزار 318 روپے ٹیکس ادا کیا تھا۔ انہوں نے اسی سال میاں شہباز شریف کے ادا کردہ ٹیکس کی بات بھی کی جو 53 ہزار 482 روپے تھا۔ کپتان کے اس تازہ ترین ”انکشاف“ کا پس منظر میاں صاحب کی وہ گفتگو تھی جو انہوں نے اصغرخاں کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر حامدمیر کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں کی جس میں انہوں نے اپنی پہلی وزارت عظمیٰ کے دوران آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل درانی کے ساتھ اختلافات کے ذکر کے علاوہ یونس حبیب کا کچا چٹھا بھی بیان کیا۔ یونس حبیب سے 35 لاکھ روپے کی ”وصولی“ کے حوالے سے دیگر باتوں کے علاوہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جس سال یہ 35 لاکھ لینے کی بات کی جارہی ہے، اس سال ہماری صنعتوں نے ریونیو کی مختلف مدات میں 92 کروڑ روپے ٹیکس ادا کیا تھا۔ کپتان تب نیویارک میں تھا۔ تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات شفقت محمود سے ٹیلی فون پر گفتگو میں اس نے میاں صاحب کے 92 کروڑ والے بیان کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے 51 ہزار روپے ٹیکس کی بات کی۔ ہم کپتان پر عوام کو دھوکا دینے کا الزام نہیں لگاتے کہ یہ زبان تحریک انصاف کے ترجمانوں ہی کو زیب دیتی ہے البتہ حسن ظن سے کام لیتے ہوئے یہ ضرور عرض کریں گے کہ کپتان کو غلط فہمی ہوئی، میاں صاحب نے 92 کروڑ روپے والے ٹیکس کی بات اتفاق فیملی کی تمام صنعتوں کے حوالے سے کی تھی۔ کیا کپتان کو کمپنیوں کے ادا کردہ ٹیکس اور ان کے ڈائریکٹر حضرات کے ذاتی ٹیکس میں فرق کا واقعی علم نہیں؟ اگر ایسا ہے تو وہ جہانگیر ترین یا اسد عمر کے ساتھ آدھ پون گھنٹے کی ایک نشست میں کارپوریٹ سیکٹر کے یہ معاملات سمجھ لیں۔
کپتان تب کرکٹ کھیلتے تھے۔ سیاست کا لفظ سنتے ہی وہ اظہارِ بیزاری میں کانوں کو ہاتھ لگانے لگتے لیکن آخر وہ آکسفورڈ کے فارغ التحصیل ہیں انہیں اتنی سی بات تو یاد ہوگی کہ محترمہ بینظیر بھٹو کی دونوں حکومتوں نے شریف فیملی کی مشکیں کسنے کے لئے ان کے کاروباری معاملات کی تفتیش و تحقیق میں رتی بھر کسر نہیں چھوڑی تھی۔ انہوں نے اس کے لئے ان کے ایک ایک رجسٹر کا ایک ایک ورق چھان مارا۔ متعلقہ سرکاری محکموں کے سارے ریکارڈ چیک کئے۔ محترمہ کے دوسرے دور میں تو میاں نوازشریف کے کمسن نواسے کے سوا سبھی اہل خانہ کے خلاف مقدمات قائم کئے گئے ان میں میاں صاحب کی والدہ محترمہ اور والد مرحوم بھی تھے۔ ایمپرس روڈ والے دفتر سے ایف آئی اے کے ہاتھوں جن کی توہین آمیز گرفتاری سے بھی گریز نہ کیا گیا۔ شہبازشریف اور حمزہ اڈیالہ جیل میں ڈالے گئے لیکن شریف فیملی کے کاروباری معاملات میں کوئی بے قاعدگی اور بے ایمانی نہ پائی گئی۔
12 اکتوبر 1999ء کی فوجی کارروائی کے بعد مشرف کو اپنے حلقہ احباب میں یہ دعویٰ کرنے میں بھی کوئی عار نہ ہوئی کہ وہ نوازشریف اور اس کے خاندان کو سیاسی لحاظ سے مفلوج کرنے کے علاوہ کاروباری، نفسیاتی اور اعصابی لحاظ سے بھی تباہ کردے گا اور اس نے اس میں کوئی کسر اٹھا بھی نہ رکھی جس کا ہلکا سا ذکر خود میاں صاحب نے کیپٹل ٹاک میں بھی کیا، جلاوطنی کے دوران لاہور میں ان کے گھروں پر قبضے سے بھی گریز نہیں کیا گیا تھا۔ قومی سیاست کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے ہمیں میاں صاحب اور مسلم لیگ (ن) کی سیاست سے دلچسپی ہے، انکے کاروباری معاملات سے ہمارا کیا واسطہ لیکن اس حوالے سے جو تھوڑی بہت معلومات ہمیں حاصل ہیں، انکے مطابق نوازشریف دوسری بار وزیراعظم بنے تو انہوں نے اپنے تمام اثاثے بچوں کے نام منتقل کردیئے جو اب عاقل و بالغ ہو چکے تھے اور اپنے دادا کی تربیت اور نگرانی میں کاروبار کرنے کے اہل تھے۔ اب نوازشریف کا صرف ایک اثاثہ ہے، چوہدری شوگر ملز میں ان کے شیئرز، اور اس حیثیت میں وہ اس کے بورڈ آف ڈائریکر کے ممبر بھی ہیں۔ میاں محمد شریف کے انتقال کے بعد ان کی وراثت میں نوازشریف کا حصہ بھی ان کے بچوں کو براہ راست منتقل کردیا گیا۔ ان میں لندن کے فلیٹ بھی تھے جن میں سے ایک فلیٹ 1980ء کی دہائی کے اوائل میں خریدا گیا تھا۔ چوہدری شوگر ملز کے ڈائریکٹر کے طورپر میاں نوازشریف نے اس سال 2.5 ملین (25 لاکھ) اور گزشتہ سال 2 ملین (20 لاکھ) روپے ٹیکس ادا کیا۔ ظاہر ہے کہ مختلف مدات میں چودھری شوگر ملز کے ادا کردہ ٹیکس اور میاں صاحب کے بچوں کے ٹیکس الگ ہیں۔ شہبازشریف، عباس شریف اور ان کے بچوں نے کتنے ٹیکس ادا کیے، ان کی تفصیل الگ ہے اور ان کمپنیوں کے ادا کردہ مختلف ٹیکسوں کا معاملہ الگ جن کی تفصیلات ایک طویل مضمون کی متقاضی ہیں۔
کپتان امریکہ کے دورے سے لوٹ آیا ہے۔ ٹورانٹو ایئرپورٹ والا واقعہ اپنی جگہ افسوس ناک لیکن امریکن امیگریشن کے ہاتھوں ایئرپورٹس پر مسلمانوں اور خصوصاً پاکستانیوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا اس طرح کا خصوصی سلوک ایک معمول بن چکا ہے۔ 9/11 کے بعد کا امریکہ ایک مختلف امریکہ ہے۔ اب ہوم سکیورٹی کے نام پر خود امریکی شہری پرائیویسی کے بنیادی حق سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔ بش کے نان نیٹو اتحادی مشرف کے وفد کے ارکان بھی باڈی سرچ کے ذلت آمیز عمل سے مستثنیٰ نہ ہوتے۔ وفد کے بزرگ ترین رکن شریف الدین پیرزادہ کے جوتے اور جرابیں اتروانے کے علاوہ بازو اوپر کرکے ان کی بغلیں ٹٹولنے سے بھی گریز نہ کیا جاتا۔ کچھ عرصہ پہلے بالی ووڈ کے کنگ خاں کو بھی امریکن ایئرپورٹ پر گھنٹوں تفتیش کے اذیت دہ عمل سے گزرنا پڑا اور ابھی دو اڑھائی ماہ پہلے اپنے شیخ رشید کو بھی اسی کا سامنا تھا۔ کپتان کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ ٹورانٹو ایئرپورٹ پر یہ سلوک ڈرون حملوں پر ان کے مخالفانہ موٴقف کی وجہ سے کیا گیا لیکن کیا کپتان کو ویزہ جاری کرنے والا اسلام آباد میں امریکی سفارتخانہ ڈرون حملوں پر ان کے موٴقف سے لاعلم تھا؟ مسئلہ ڈرون کی مخالفت کا تھا تو ایک گھنٹے کی تفتیش کے بعد انہیں نیویارک جانے کی اجازت کیوں مل گئی۔ خود امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ٹورانٹو کے واقعہ کو رفت گزشت قرار دیتے ہوئے امریکہ میں ان کے خیرمقدم کا بیان جاری کررہا تھا۔ کپتان نے امریکہ میں شیڈول کے مطابق طے شدہ تمام پروگرام نمٹائے اور لاکھوں ڈالر انتخابی چندے کے ساتھ وطن لوٹ آئے۔ یو این او کے سامنے ڈرون حملوں کے خلاف مظاہرے کا پروگرام تو وہ امریکہ روانگی سے قبل ہی منسوخ کر چکے تھے۔
تازہ ترین