25؍ جولائی کو منعقد ہونے والے انتخابات کی مہم اگرچہ سیاسی جماعتوں کی طرف سے کافی پہلے سے جاری ہے تاہم سابقہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کی آئینی میعاد کے خاتمے اور نگراں حکومتوں کی تشکیل کے بعد الیکشن کمیشن کے شیڈول کے مطابق انتخابات میں حصہ لینے کے لئے ضابطے کی کارروائیاں آگے بڑھتی نظر آرہی ہیں جبکہ پارٹی ٹکٹوں کے حصول کی جدوجہد سے شروع ہونے والی دیگر سرگرمیوں کے بھی مختلف انداز سامنے آرہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جس طرح کسی ملک میں ٹریفک کے اژدہام کے دوران وہاں کے نظم و ضبط، قانون پسندی اور لوگوں کے مزاج سمیت بہت سی باتوں کا آسانی سے پتہ چل جاتا ہے بالکل اسی طرح الیکشن کے موقع پر کسی سماج میں موجود جمہوری روایات کی گہرائی و گیرائی اور اداروں کی پختگی کا گراف بھی خود بخود نمایاں ہوجاتا ہے۔ اس موقع پر قوانین کی ہر سطح پر پاسداری اور آئینی ذمہ داری پر مستعدی کے حوالے سے جو اچھا یا برا معیار نظر آتا ہے وہ ایک حد تک اس بات کا آئینہ بھی ہوتا ہے کہ انتخابات شفافیت اور غیرجانبداری کی کس کیفیت کے حامل ہوسکتے ہیں۔ رائج الوقت نظام پر عام آدمی کا اعتماد و یقین مستحکم کرنے کے لئے انتخابی عمل کی ساکھ کا قائم رہنا ضروری ہے۔ انتخابات کے مواقع پر نگران حکومتوں کے قیام کا منشاء بھی یہی ہے کہ حکومتی عہدیداروں اور سرکاری مشینری کی طرف سے غیرجانبداری کے تقاضوں کو یقینی بنایا جائے۔ بدھ کے روز وزیراعظم جسٹس (ر) ناصر الملک کی زیرصدارت وزیراعظم ہائوس میں منعقدہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں مرکزی و صوبائی سطح پر اعلیٰ بیورو کریسی اور افسران کے تبادلوں کی جو منظوری دی گئی اس کا مقصد بھی یہی تھا۔ کابینہ نے چاروں صوبوں کے آئی جیز اور چیف سیکرٹریوں کو بدلنے سمیت وفاق اور صوبائی سطح پر اعلیٰ افسران کی پوسٹنگ تبدیل کرنے کا فیصلہ الیکشن کمیشن اور صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے کیا۔ توقع کی جانی چاہئے کہ مذکورہ رد و بدل کے نتیجے میں انتخابی عمل کو زیادہ شفاف اور سبک بنانے میں مدد ملے گی۔ انتخابی قواعد کے تحت جہاں امیدواروں پر اپنے اور اپنے اہل خانہ کے مالیاتی گوشوارے الیکشن کمیشن کے پاس جمع کرانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہاں نگراں حکومتوں کے تمام ہی ارکان سے توقع کی جاتی ہے کہ اس باب میں غفلت نہیں برتیں گے اور مقررہ مدت میں گوشوارے جمع کراکر دوسروں کے لئے نمونہ بنیں گے۔ حکومتی عہدیداروں اور اندرون و بیرون ملک تعینات افسران کی شہریت کے حوالے سے بھی اگر کسی قسم کے ابہام کا امکان ہے تو اسے متعلقہ حکام کے علم میں لانے میں تاخیر نہیں کی جانی چاہئے تاکہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے بموجب ڈیٹا تیار کرکے قانون سازی پر توجہ دی جاسکے۔ جہاں تک انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کا تعلق ہے وہ بیان حلفی کے ذریعے اپنے اور افراد خاندان کے اثاثوں کے علاوہ بینکوں سے لئے گئے قرضوں سمیت بہت سی تفصیلات دینے کے پابند ہیں۔ جدید کمپیوٹرائزڈ سسٹم کے تحت مختلف محکموں کی طرف سے نادہند گان کی فہرستوں کی بروقت فراہمی اور آن لائن اسکروٹنی سسٹم کی تیز رفتار کارکردگی کے باعث 2,368 نادہندگان کی نشاندہی ہوئی ہے جس سے ریٹرننگ افسروں کو درست فیصلے کرنے میں مدد ملے گی۔ ان نادہندگان کو اگر فوری طور پر رقوم کی ادائیگی کرنے اور آئندہ ڈیفالٹ سے بچنے کی تحریری یقین دہانی کرانے کا موقع دیا جائے تو اس سے مثبت نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔ الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے ہر انتخاب کے موقع پر امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کے لئے جو ضابطہ اخلاق جاری کرتا ہے اسے بازیچہ اطفال بنانے کا سلسلہ اب بند ہونا چاہئے۔ انتخابی سرگرمیوں کے دوران نگراں حکومتوں اور بیورو کریسی سمیت کسی بھی حلقہ کی طرف سے قانونی ذمہ داریوں اور پابندیوں سے غفلت برتنے کا تاثر پورے انتخابی عمل کے بارے میں شبہات پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ قانون کا نفاذ اسی لئے ہوتا ہے کہ اس پر عملدرآمد کیا جائے۔ یہ پابندی کسی امتیاز کے بغیر سب سے کرائی جانی چاہئے۔