• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ اخلاقی دیوالیہ پن کی انتہا ہے کہ اب ہم دوسروںکی مجبوری سے فائدہ اٹھانے میں ذرہ برابر بھی شرم یا عار محسوس نہیں کرتے۔ عرصہ ہوا رمضان المبارک سے قبل ہی مہنگائی کو پر لگ جاتے ہیں اور اشیائے خورونوش عوام کی دسترس سے باہر ہو جاتی ہیں۔ اس گرانی کے مقابل حکومتوں نے رمضان بازار لگانے کا سلسلہ شروع کیا جن کی ’’افادیت‘‘ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ رمضان تو عوام الناس نے جیسے تیسے کاٹ لیا اب عید سے قبل مہنگائی کے طوفان کی لپیٹ میں ہیں اور پرائس کنٹرول انتظامیہ خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ گھی، مرچ، مصالحہ جات، چاول اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ گویاماہ مقدس اور عید ہی مال کمانے کے مواقع ہوں۔ دنیا بھر میں مذہبی تہواروں خاص طور پر کرسمس کے موقع پر ہمہ قسم کی اشیا اس قدر سستی کردی جاتی ہیں کہ ہر طبقے سے متعلق شخص کی قوت خرید میں ہوں اور وہ اس تہوار کو خوشیوں سے مزین کرسکے افسوس کہ ہمارے ہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ہمارے ہاں خط افلاس کے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کو سال بھر میں تین یا چار مواقع ملتے ہیں کہ وہ بھی خوش ہوسکیں، نئے کپڑے ان کی پہنچ میں نہیں تو اچھا کھانا ہی کھالیں لیکن اب یہ بھی ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ راتوں رات مرغی کے گوشت کی قیمت میں تیس سے چالیس روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پرائس کنٹرول انتظامیہ کس مرض کی دوا ہے؟ ۔ دوسری طرف حسب دستور محکمہ ٹرانسپورٹ کی ملی بھگت سے ایک دو دن میں جگہ جگہ غیر قانونی بس اڈے بن گئے ہیں جہاں عید منانے کیلئے گھر جانے والوں سے دوگنا کرایہ وصول کیا جارہا ہے اور وہ ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ اخلاقی تنزلی کا رونا اپنی جگہ سوال یہ ہے کہ آخر یہ بے جا مہنگائی روکنا کس کی ذمہ داری ہے؟ یقیناً یہ ضلعی انتظامیہ کا فریضہ ہے،جس سے وہ غفلت کا مرتکب دکھائی دیتی ہے۔ ضلعی انتظامیہ فوری حرکت میں آئے اور عوام کو ریلیف فراہم کرے۔

تازہ ترین