• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ باقی ساری قوم کی طرح اپنے نگران برادران کے اعصاب پربھی الیکشن ہی سوار ہوں گے اور یقیناً ہونے بھی چاہئیں کہ صاف شفاف، آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہی ان کی اصل اور بنیادی ذمہ داری ہے جسے پورا کرنے کے بعد وہ عزت بچا کر نکل جائیں تو یہ ’’لائف ٹائم اچیومنٹ‘‘ سے کم نہ ہوگا کیونکہ ’’جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائےکیوں‘‘ والی بات ہے۔ کوئلوں کی دلالی میں اجلے دامنوں کوداغوں سے بچائے رکھنا معمولی کام نہیں خصوصاً ان لوگوں کیلئے جو اس ’’فلسفے‘‘ پر یقین نہیں رکھتے کہ ’’داغ تو اچھے ہوتے ہیں‘‘ اور ’’ہر داغ کے پیچھے کوئی کہانی ہوتی ہے‘‘ مثلاً اپنا نجم سیٹھی ہی دیکھ لیں کہ کسی نہ کسی طرح نوبل پرائز بھی لے اڑے تو اس کی ’’وجہ شہرت‘‘ پینتیس پنکچر ہی رہیں گے، چاہے اس نے کبھی ’’ٹیوب‘‘ کو ہاتھ بھی نہ لگایا ہو۔’’لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام‘‘برسبیل تذکرہ یہ اعتراف بھی کرتا چلوں کہ مجھے اس لفظ یعنی ’’الیکشن‘‘ کے ساتھ ڈھیروں ’’آنے‘‘ یعنی ’’آزادانہ، غیر جانبدارانہ، منصفانہ، شفافانہ‘‘ وغیرہ استعمال کرتے ہوئے بے تحاشا شرمندگی، ندامت اور خجالت کا احساس ہوتا ہے کیونکہ یہ ’’چور کی داڑھی میں تنکا‘‘ والی بات ہے لیکن کیا کریں کہ یہ ہماری ’’اجتماعی مجبوری‘‘ ہے ورنہ دنیا کیا تیسری دنیا کی بھی شاید ہی کوئی قوم ہو جو انتخابات کے ساتھ اتنے ’’آنے‘‘ استعمال کرتی ہو اوراسے انتخابات سے ٹکے کا فائدہ بھی کبھی نہ ہوا ہو۔نگران وزیراعلیٰ ہی کیا، سب کے سب نگران برادران سے گزارش صرف اتنی ہے کہ ’’جوش انتخابات‘‘ بلکہ یوں کہنا چاہئے ’’جوش انعقاد انتخابات‘‘ میں یہ بات ہرگز ہرگز نہ بھولیں کہ آنے والے دنوں میں پبلک ہیلتھ کے مسائل بے قابو جن ثابت ہوسکتے ہیں جن میں ڈینگی کنٹرول پروگرام انتہائی نازک اور حساس معاملہ ہے جو برسات کی بارشوں کے ساتھ ہی شروع ہونا بہت ضروری ہے۔ امید ہے انہیں وہ وقت بھولا نہیں ہوگا جب پنجاب میں ڈینگی سے تین سو ستائیس (327)اموات ہوئی تھیں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہسپتالوں میں پہنچ گئے تھے۔ اسی طرح مون سون بارشوں کے بعد آنے والے سیلابوں میں مختلف متعددی امراض کا پھیلنا، ادویات کا فقدان اور فراہمی کو یقینی بنانا، پھر سیلاب زدہ علاقوں میں مناسب طبی سہولیات کیلئے قبل از وقت تیاریوں کے ساتھ ساتھ سانپ اور کتے کے کاٹے کی ویکسین وغیرہ کی فراہمی شامل ہیں۔ اک حالیہ میڈیا رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک ہفتہ میں بہاول نگر اور چند دوسرے علاقوں میں خسرہ کی وبا پھیلنے سے بیس سے زیادہ بچے اس کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ اس پر بھی فوری خصوصی توجہ کی ضرورت ہوگی تاکہ یہ وبائی صورت اختیار نہ کرسکے۔پبلک ہیلتھ وغیرہ میرا موضوع نہیں لیکن اتفاق ہے کہ دو تین ماہ پہلے مجھے اک پرائیویٹ ہسپتال میں زیر علاج رہنا اور سرجری کے عمل سے گزرنا پڑا۔ اس اذیت کے عوض اللہ نے شفا کے ساتھ ساتھ اک دوست بھی عطا کیا یعنی میرا سرجن نامور پروفیسر ڈاکٹر صداقت علی خان جو مسیحائی کی ہر تعریف پر پورا اترتا ہے۔ ڈاکٹر صداقت سے ملوانے والا ڈاکٹر کامران میرے بھائیوں جیسا ہے۔چند روز پہلے ڈاکٹرصداقت ملنے آئے تو ایک ’’سرپرائز‘‘ بھی ساتھ لائے۔ سابق ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر زاہد پرویز جو میرا بچپن کا دوست ہے۔ گپ شپ کے دوران جب سر پرپہنچی برسات اور اس سے متعلقہ خدشوں اور وسوسوں کا ذکر ہواتو میں نے سوچا نگران حکومت کی بیشتر توجہ تو اور قسم کے معاملات پر ہوگی کہ ان کی ترجیحات کا تو تقاضا ہی کچھ اور ہے سو چھوٹے موٹے نوٹس لیکر یہ کالم قلم بند کردیا تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے کہ انتخابات کا ’’آنہ‘‘ انعقاد اپنی جگہ لیکن انسانی زندگیاں بھی توجہ سے محروم نہ رہ جائیں..... وقت کم اور مقابلہ سخت ہے اس لئے نگران وزیراعلیٰ اور ان کی سمارٹ سی کیبنٹ کیلئے یہ ’’وارننگ‘‘ حاضر ہے خصوصاً اپنے دوست شوکت جاوید کیلئے جس کو ذمہ داری تو شاید داخلہ کی ملی ہے لیکن سابق آئی جی ہونے کے باوجود فنکار مزاج اور انسان دوست آدمی ہے۔پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔

تازہ ترین