• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عید آگئی ہے مگر ابھی تک ٹکٹوںکی جنگ جاری ہے۔ بدقسمتی کے اس کھیل میں بڑی سیاسی جماعتوں کے کارکن مایوس ہوگئے ہیں۔ وہی کارکن جو جلسوں میں جان ڈالتے ہیں، جو جلوسوں کی زینت ہوتے ہیں، سیاست کو دولت کی آنکھ سے دیکھنے والوں نے کارکنوں کے راستے بند کردیئے ہیں۔ پی ٹی آئی اور ن لیگ کے کارکن تو کئی جگہوں پرمظاہرے کرتے ہوئے دیکھے گئے۔ بنی گالہ میں اب بھی کارکنوںکی بڑی تعداد مظاہرہ کر رہی ہے۔ ان مظاہروں میں خواتین کی اچھی خاصی تعداد بھی موجود ہے۔ یہ وہی خواتین ہیں جنہوں نے اپنے گھر اور بچوں کو نظرانداز کرکے اپنا قیمتی وقت سیاست کو دیا اور اب سیاست نے انہیں رسوا کردیا ہے۔ پاکستان اور خاص طور پر پنجاب میں ایسا کیوں ہوا؟ اگر اس کاجائزہ لیاجائے تو کئی بڑے لیڈروں کی منافقانہ چالیں بے نقاب ہوتی ہیں۔ ملتان میں پی ٹی آئی کے کارکن اسکندر بوسن کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ کارکنوں کی خواہش ہے کہ این اے 154سے ملک احمد حسین ڈیہڑ الیکشن لڑیں کیونکہ وہ ایک عرصے سے ملتان میں تحریک ِ انصاف کے لئے کام کر رہے ہیں۔ اس سیٹ پر ساری مستی تحریک ِ انصاف کے پارلیمانی بورڈ کے ایک اہم رکن کر رہے ہیں۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے نوجوان رہنما مبشر درانی کو نظرانداز کیاجارہا ہے۔ مبشر درانی نے دوصوبائی حلقوں پی پی 111، پی پی 113سے درخواست دے رکھی ہے مگر وہاں پارلیمانی بورڈ کے ایک اور اہم رکن رکاوٹ بنے ہوئےہیں۔ این اے 143سے رائو صفدر علی خان کا ٹکٹ بھی روکاجارہاہے۔ رائو صفدر کے بھائی رائو قیصر علی خان اس حلقہ سے تین باررکن رہ چکے ہیں مگر تحریک ِ انصاف کے پارلیمانی بورڈ کے ایک اور رکن یہ نشست مصلحت کی نذر کرناچاہتے ہیں۔ اوکاڑہ ہی سے میجر (ر) احمد اور ان کی اہلیہ شازیہ احمد نے درخواست دے رکھی تھی۔ یہ دونوں میاں بیوی تحریک ِ انصاف کے ہر پروگرام میں نظر آتے رہے۔ یہ دونوں ضمنی الیکشن بھی پی ٹی آئی کے لئے جان ماری کرتے رہے مگر ٹکٹوں کی بندر بانٹ کے وقت انہیں نظراندازکردیا گیا۔ شازیہ احمد کو تو مخصوص نشستوں پر بھی ایڈجسٹ نہ کیاگیا بلکہ اوکاڑہ سے ایک خاتون ناہید سردار کو خصوصی نشست الاٹ کردی گئی۔ ناہید سردار کافی عرصے سے خاموش تھیں۔ ان کی اس خاموشی میں پی ٹی آئی کی مرحوم رہنما سلونی بخاری کے چند جملے شامل تھے کیونکہ اس خاتون نے جعلی کارروائی کرنے کی کوشش کی تھی۔ تحریک ِ انصاف کے خفیہ سروے نے بتایا تھا کہ پسرور سیالکوٹ سے ہاکی کے ممتاز کھلاڑی سابق اولمپئن آصف باجوہ جیت جائیں گے مگر پتا نہیں آصف باجوہ کو پارلیمانی بورڈ کا کون سا ممبر ٹکرا ہے کہ انہیں ٹکٹ سے محروم کردیا گیا ہے۔
مخصوص نشستوں کی داستان بھی عجیب ہے۔ اس میں کئی قصے کہانیاں بھی شامل ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے خواتین کی مخصوص نشستوں پر جن خواتین کو نامزد کیا ہے اس سے کارکن خواتین کے دل ٹوٹ گئے ہیں۔ ان خواتین میں وہ غریب کارکن بھی شامل ہیں جن کے لئے ٹکٹ کی فیسیں ادا کرنا بھی مشکل ہے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ دکھی تحریک ِ انصاف کی خواتین ہیں۔ مبینہ طور پر کہا جاتا کہ ن لیگ نے 24اور پیپلزپارٹی نے 32 ایسی خواتین کو نامزد کیا ہے جو کسی نہ کسی حوالے سے لیڈروں کی رشتہ دار ہیں۔ اگرچہ عمران خان نے اپنی کسی رشتہ دار خاتون کو ٹکٹ نہیں دیا مگر عمران خان کے پارلیمانی بورڈ نے مخصوص نشستوں پر پارٹی کا ستیاناس کردیا ہے۔ اس کا جائزہ لینے سے پہلے ایک نظر پیپلزپارٹی اور ن لیگ پر ہو جائے۔ پیپلزپارٹی کی فہرست میں پہلے نمبروں پر فریال تالپور، ڈاکٹرعذرا فضل، پیچوہو، شہلا رضا، عشرت بانو گیلانی اور حنا ربانی کھر موجود ہیں مگر جیالی روبینہ قائم خانی کو آخری نمبر پر رکھا گیا ہے۔ پیپلزپارٹی نے جن خواتین کو مخصوص نشستوں پر نامزد کیا ہے ان میں سے اکثر جنرل سیٹوں پر بھی لڑ رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حالت عجیب ہے۔ اقربا پروری عروج پر نظر آتی ہے۔ کم و بیش 24نشستوں پر رہنمائوں کی رشتہ دار عورتیں براجمان ہیں۔ ن لیگ نے اپنی کئی ایسی خواتین کو نظرانداز کیا ہے جن کی کارکردگی اسمبلیوں میں مثالی رہی ہے مثلاً عارفہ خالد پرویز کو نظرانداز کیا ہے حالانکہ عارفہ خالد کی قومی اسمبلی میں کارکردگی انتہائی شانداررہی۔ اس مرتبہ لیلیٰ خان بھی ٹکٹ سے محروم رہی ہیں۔ سنا ہے کہ ایک سرمایہ دار نے سرمایہ خرچ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنی پانچ چھ ایسی اراکین پنجاب اسمبلی کو نظرانداز کیا ہے جن کی کارکردگی اسمبلی کے اندر اور باہر شاندار تھی۔ ان خواتین کو ان کے جرم کا پتا نہیں۔ ان سابق اراکین پنجاب اسمبلی میں تحسین فواد، مدیحہ رانا، سائرہ افتخار، فرزانہ بٹ اور لبنیٰ ریحان سمیت چند اور شامل ہیں۔ ویسے تو ایک ٹی وی چینل پر ن لیگ کی رہنما نسرین ملک نے بہت کچھ بیان کردیا ہے مگر پھربھی کارکن خواتین کو ٹکٹ نہ ملنے کی وجوہات سمجھ آنی چاہئیں۔ فیصل آباد سے مدیحہ رانا وہ خاتون ہے جس نے فیصل آباد میں ہونے والے ن لیگ کے جلسوں میں بہت محنت کی تھی مگر اس محنت پر پتا نہیں کون پانی پھیر گیاہے؟ اس کی بھی تحقیق ہونی چاہئے۔
اب آتے ہیں تحریک انصاف کی طرف، جہاں مخصوص نشستوں پر نامزدگیوں نے صورتحال کو بہت پیچیدہ بنا دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع اس تمام تر صورتحال کی ذمہ داری دو خواتین پر عائد کرتے ہیں۔ ان خواتین کا نام منزہ حسن اور عالیہ حمزہ ہے۔ منزہ حسن 2013کے الیکشن سے پہلے کینیڈامیں تھیں۔ وہ آئیں اور قومی اسمبلی کی رکن بن گئیں۔ اس وقت سلونی بخاری، عائلہ ملک اور مہناز رفیع سمیت کئی سینئر خواتین رہنمائوں کا حق مارا گیا تھا۔ منزہ حسن کی قومی اسمبلی میں پانچ سالہ کارکردگی زیرو رہی مگر انہوںنے اپنے پارلیمانی لیڈرشاہ محمود قریشی کو مطمئن رکھا۔ اسی لئے حالیہ رمضان کے ابتدائی دنوں میں بھی دونوں نے ایک روز اکیلے افطاری کی۔ یہ افطاری اسلام آباد کے ایک ماڈرن ریسٹورنٹ میں تھی جہاں منزہ حسن پہلے سے تشریف فرما تھیں۔ یہاں پتا نہیں کیا منصوبہ بندی ہوئی کہ یہ منصوبہ بندی پی ٹی آئی کی تمام کارکن خواتین کے راستے کی دیوار بن گئی۔ جس اسمبلی میں منزہ حسن کی کارکردگی صفر تھی وہیں شیریں مزاری کی کارکردگی انتہائی شاندار تھی۔ عورتوںکی فہرست ترتیب دینے والی دوسری خاتون عالیہ حمزہ ملک پی ٹی آئی کے ایک اہم رہنماکے آفس میں کام کرتی ہیں۔ اگر تحریک ِ انصاف کی مخصوص نشستوں کے لئے نامزدگیوں کی فہرست پر نظرڈالی جائے تو وہ خواتین کہیں نظر نہیں آتیں جو جدوجہد کے ہر مرحلے میں عمران خان کے ساتھ تھیں۔ ان میں بہت پڑھی لکھی خواتین شامل ہیں مگر تحریک ِ انصاف کو یہ قابل خواتین نظر نہ آسکیں۔ ایم این ایز کی فہرست میں ایک ایسی خاتون بھی شامل ہے جوپی ٹی آئی کے ایک اہم رہنما کی سیکرٹری ہے۔ دو خواتین اور ایسی ہیں جو ایک اور اہم رہنما کے آفس میں کام کرتی ہیں۔ ایک خاتون نیلم حیات بھی ہے جودھرنے کے دنوںمیں تحریک ِ انصاف چھوڑکر عوامی تحریک میں شامل ہوگئی تھی۔ ایک خاتون سیما انوار بھی ہے جو عائشہ گلالئی کی مہم میں شریک تھی۔ تحریک ِ انصاف کی خواتین پوچھ رہی ہیں کہ ملیکہ بخاری، سائرہ رضا، مشال حسن، عائشہ اقبال، شمسہ ایڈووکیٹ، صائمہ طارق اور شوانہ بشیرکے پیچھے کون ہے؟ اسی طرح ارم بخاری، ام البنین، ثوبیہ کمال اور صنوبہ ملک کو کس کے کہنے پر ٹکٹ کا مستحق قرار دیا گیا۔ اسی طرح شمیم آفتاب، فردوس رائے، شبانہ فیاض اور عذرا پروین کوکیوں ترجیح دی گئی؟ یہاں ایک سوال اوربھی پیدا ہوتا ہے کہ جب ڈاکٹر یاسمین راشد کو جنرل سیٹ پر الیکشن لڑوایاجارہا ہے تو پھر کیوںانہیں مخصوص نشستوں پر سب سے پہلے رکھا گیا ہے۔ جدوجہد کے وقت فرحت فاروق کہاں تھیں؟ کیا لاہور سے تنزیلہ عمران، انیلہ بیگ اور فاطمہ چدھڑ کی حق تلفی نہیں ہوئی؟ فاطمہ چدھڑ نے تو پی پی 172سے جنرل سیٹ کے لئے بھی اپلائی کر رکھاتھا مگر افسوس کہ تحریک ِ انصاف نے اپنی ڈپٹی انفارمیشن سیکرٹری کو مخصوص نشست کیلئے بھی نامزد کرنا مناسب نہ سمجھا۔ تنزیلہ عمران نے لاہور میں بہت جدوجہد کی مگر ان کیلئے یہ سارا کام، کام نہ آسکا۔ یہ پڑھی لکھی خاتون سرکاری نوکری چھوڑ کر تحریک ِ انصاف کا حصہ بنی تھی۔
اب ذرا پنڈی اسلام آباد کا قصہ سن لیجئے۔ ان دو شہرو ں میں تحریک ِ انصاف ہمیشہ زوروں پر نظر آئی ہے مگر ان دو شہروں کی جدوجہد کرنے والی خواتین کو یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے۔ تحریک ِ انصاف شمالی پنجاب کی تین ڈپٹی انفارمیشن سیکرٹریز تھیں، ان میں سے دو یعنی کنول شؤذب اور جویریہ آہیر کو قومی اسمبلی کے لئے نامزد کر دیا گیا لیکن راولپنڈی شہر سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر نوشابہ منان کیانی کو صوبائی اسمبلی کے قابل بھی نہ سمجھا گیا حالانکہ ڈاکٹر نوشابہ منان کیانی تحریک ِ انصاف کا مقدمہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بڑے بھرپور انداز میں لڑتی رہیں۔ یونیورسٹی کے دور میں بیسٹ ڈبیٹر قرار دی جانے والی ڈاکٹر نوشابہ منان کی ایم ایس ای بھی کام نہ آسکی۔ قومی اسمبلی کی سابق رکن عنازہ احسان بٹ کو بھی پی ٹی آئی نے نظرانداز کردیا تھا۔ پی ٹی آئی نے اسلام آباد کی خواتین کو تو بالکل ہی نظرانداز کردیا ۔ ان کی کسی فہرست میں اسلام آباد کی کوئی خاتون شامل نہیں۔ نہ صائمہ عمر نہ ہی سیمی ایزدی، واضح رہے کہ سیمی ایزدی ، جہانگیر ترین کی بہن ہیں۔ اسلام آباد کی سیکرٹری جنرل انتہائی محنتی اور پڑھی لکھی خاتون طیبہ ابراہیم کو بھی کسی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔ خیبرپختونخوا سے نیلم طورو، فلک ناز چترالی اور ہجمیر بی بی کو پتا نہیں کون لڑ گیا، تحریک ِ انصاف کے ہر جلسے میں نظر آنے والی نادیہ خٹک کو آخری نمبر پر رکھا گیا ہے۔ سندھ سے عائشہ وارثی اور صبا شکور ایڈووکیٹ کو نظرانداز کردیا گیا۔
تحریک ِ انصاف کی کارکن خواتین کا کہنا ہے کہ عمران خان صاحب نے کنونشن سنٹر اسلام آباد میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ عورتوںکو پانچ فیصد نہیں سات فیصد ٹکٹ جاری کریں گے۔ انہوں نے کہا تھاکہ وہ انٹرویوزخود کریں گے جب انہوں نے یہ کہا تھا تو ایسا کیا کیوں نہیں؟ اس کیوں کاجواب تو عمران خان ہی کے
پاس ہے۔ انہوں نے خواتین کارکنوں کےعلاوہ یوتھ ونگ کے علی بخاری اور طلبہ تنظیم کے ارسلان حفیظ کا بھی خیال نہیں رکھا۔ الیکٹیبلز کی یہ سیاست تحریک ِ انصاف کے نظریے کو پیچھے کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ ٹکٹوں کی حالیہ تقسیم میں صرف کارکن قتل ہوئے ہیں، شاید ہماری سیاست کا یہی المیہ ہے۔ بقول ظفراقبال؎
یوں محبت سے نہ دے میری محبت کا جواب
یہ سزا سخت ہے، تھوڑی سی رعایت کر دے

تازہ ترین