• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تھرپارکر کے قحط کی کسی کوخبر ہے ؟ یا ذہنوں میں الیکشن اور کاغذات نامزدگی ہی کا کیڑا رینگ رہا ہے؟ کل ہی اس تپتے صحرا سے ایک خاتون کا فون آیا: ’انکل ۔ گھر میں آٹا گوندھنے کے لئے بھی پانی نہیں ہے۔ ‘یہ سب کہاں ہو رہا ہے، کراچی سے تھوڑی ہی دور اور حیدر آباد جیسے بڑے شہر کے پچھواڑے ۔ تھرپارکر، جہاں پہنچنے والی نہریں سوکھی پڑی ہیں، تالاب خشک ہو گئے ہیں، نلوں میں پانی نہیں ہے۔ پانی کے ذخیروں میں خاک اڑرہی ہے۔ اوپر سے غضب یہ کہ کھیت سوکھے نہیں بلکہ جھلس گئے ہیں۔ کپاس اگتی تھی، اس کی فصل مرگئی ہے۔ مرچیں پیدا ہوتی تھیں، ان کے پودے نکلتے ہی سوکھ گئے، لوگوں کے چھوٹے موٹے کاروبار تھے، سارے کے سارے ٹھپ ہوگئے ہیں۔ دکان دار اپنی دکانوں میں تالے ڈال کر دوسرے شہروں کو چلے گئے ہیں۔ کرائے کے مکانوں میں رہنے والے مکان خالی کرکے عزیزوں رشتے داروں کے پاس چلے گئے ہیں جہاں پہلے ہی تنگ دستی نے ڈیرے جمائے ہوئے ہیں۔ یہ سب کیا ہورہا ہے، اکیسویں صدی کا بھی اٹھارہواں برس تیزی سے گزرا جا رہا ہے اور اتنے بڑے ملک کے وسائل کا یہ حال ہے کہ ملک کے ایک گوشے میں سوکھا پڑا ہے اور ملک کا نظام بے بس او ربے دست و پا ہو رہا ہے ، مفلوج، لاغر اور معذور۔ یہ کیسا پاکستان ہے اور یہ کون لوگ ہیں جو نہ تو اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور نہ ہی کاخِ امرا کے درو دیوار ہلانے کے اہل رہے ہیں۔اب اگر کہیں نمی ہے تو آنکھوں میں کہ ان کے سوکھنے کے دن بھی قریب آتے نظر آرہے ہیں۔
اس خشکی کے مارے ہوئے علاقے میں میرا بھی ایک دوست ہے۔ارشاد علی۔ کچھ عرصہ ہوا ان ہی کالموں میں اس کا ذکر آیا تھا۔ ارشاد علی کا تھرپارکر کے علاقے نوکوٹ میں خود اس کے بقول ’چھوٹا سے بیوپار‘ تھا۔ قصبے کی کسی تنگ سی دکان میں وہ کپاس اور مرچ کا کاروبار چلا رہا تھا ، اتنا کہ وہ خود، اس کی پڑھی لکھی بیوی، ایک نوعمر بیٹا اور ایک کمسن اور ہونہار بیٹی ہنسی خوشی تو کیا، بس ہر حال میں صبر شکر کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے۔ ان صفحات میں اس کا ذکر یوں آیا کہ ایک روز اس نے نوکوٹ سے مجھے فون کیا اور یہ افسوسناک خبر سنائی کہ اس نے اپنی بیٹی عریشہ کو، جو نویں کلاس میں پہنچ گئی ہے، اسکول سے اٹھا لیا ہے۔سبب یہ تھا کہ ا س جماعت میں پرائیویٹ اسکول کی فیس ادا کرنا اس کے بس کی با ت نہیں۔میں نے پوچھاکہ اب کیا ہوگا۔ کہنے لگا کہ لڑکی کو سرکاری اسکول میں داخل کرایا جائے گا جو کہنے کو اسکول ہے لیکن حال یہ ہے کہ بچہ ہر صبح جیسا جاتا ہے ،شام کو ویسا ہی گھر آجاتا ہے۔ مقصد یہ تھا کہ ان سرکاری اسکولوں میں تعلیم صرف نام کی ہے ۔ارشاد علی کا ارادہ یہ تھا کہ بیٹی کے لئے ٹیوشن کا بندوبست کیا جائے گا۔چلئے ، یہاں تک بھی غنیمت تھا۔ پھر کئی مہینے گزرگئے۔بگڑا ہوا وقت اور بگڑنے لگا۔ تھرپارکر کی سوکھی ہوئی زمین چٹخنے لگی۔ ارشاد علی کے اس چھوٹے سے بیوپار کو پہلے کپاس کی رسد بند ہوئی پھر مرچ کی سپلائی رک گئی اور بات یہاں تک پہنچی کہ دکان کے کواڑ مستقل بند کرنے پڑے۔ اب وہ بے روزگار ہے۔ ایک روز فون آیا۔ کہنے لگا کہ بہت ڈھونڈ رہا ہوں کہ کوئی نوکری ہی مل جائے۔ نہیں مل رہی۔ لوگ وعدے تو کرتے ہیں پر پورے نہیں کرتے۔ جو تھوڑی بہت رقم پس انداز کی تھی وہ کب کی ختم ہوئی ۔ مکان کا کرایہ چڑھتا جارہا ہے اور کوئی صورت نظر نہیں آرہی ۔ اب تو منرل واٹر کی بوتل خریدنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ آخر میں بولا: کسی سے کہہ سن کر مجھے کوئی نوکری دلوا دیجئے۔اب میں کسی سے کیا کہوں اور کیا سنوں۔ یہ داستان سن کرمیں جہاں کھڑا تھا، وہیں بیٹھ گیا ، اور جو دل بیٹھا وہ اس کے علاوہ ۔ میں تھرپارکر سے چار ہزار میل دور، چالیس سال سے ملک سے دور، با اثر لوگوں سے ایسے مراسم نہیں۔ عقل کا حال تھرپارکر کی زمین جیسا ہوا جاتا ہے۔ ارشاد علی کی بیوی نے بتایا کہ ان کے کچھ عزیزوں کے گھروں میں آٹا گوندھنے کے لئے بھی پانی نہیں۔وہ اُن عزیزوں کے ساتھ رہنا چاہیں تو نہیں رہ سکتے۔ اس افرا تفری کے عالم میں وہاں یوں لگتا ہے کہ میدان حشر کا سماں ہوگا۔ تھرپارکر کی اسی خشک زمین کے نیچے سب جانتے ہیں کہ کوئلے کا بہت ہی بڑا ذخیرہ ہے جس تک پہنچنے کے لئے کھدائی جاری تھی ۔ تازہ خبر یہ ہے کہ کھدائی کرنے والے اس ذخیرے کی پہلی تہہ تک پہنچ گئے ہیں۔اسی ذخیرے کی خاطر علاقے میں سڑکیں بنی ہیں اور ریلوے لائن پہنچائی گئی ہے۔ کوئی دن جاتا ہے کہ اس کان سے کوئلہ نکلنے لگے گا۔ ایسے میں کیا ہی اچھا ہو کہ تھرپارکر کے مقامی باشندوں کو بھی اس کا فائدہ پہنچے۔ انہیں روزگار ملے اور اس طرح ان مصیبت زدگا ن کے آنسوپونچھے جائیں۔ میں جانتا ہوں، اینگرو والے وہاں بہت کام کررہے ہیں۔ کئی این جی او بھی سرگرم عمل ہیں ۔سندھ کے خصوصاًکراچی کے فلاحی ادارے تھرپارکر کے باشندوں کی خاطر کام کر رہے ہیں۔ سنا ہے کچھ ادارے کراچی سے پانی کے ٹینکر بطور عطیہ تھرپارکر پہنچا رہے ہیں ۔مگر یہ کافی نہیں۔ عارضی بندوبست تک تو ٹھیک ہے لیکن اس کا کوئی مستقل حل ہونا چاہئے۔ خاص طور پر تھرپارکر کے بچّوں پر زیادہ ہی آفت ٹوٹی ہے۔ آئے دن ان کے جاں سے گزر جانے کی خبریں دل کو دکھاتی ہیں ۔ بے بس ماؤں کی حالت نہیں دیکھی جاتی۔ علاقے میں صحت اور تعلیم کے لئے جو کام ہوئے ہیں ان کی شاندار تصویریں سرکاری اشتہاروں کی حد تک دل کو بہت بہلاتی ہیں پر وہ جو حقیقت ِ حال ہے وہ کچھ اور داستان کہتی ہے۔ بڑے بڑے لوگ اس علاقے سے الیکشن لڑتے اور کامیاب ہوتے ہیں ۔ اپنی اس کامیابی کے ڈنکے بجانے کے بعد انہیں ایسی چپ لگتی ہے جیسے وہ تھے ہی نہیں۔ ہاں، ہم نے مقامی لوگوں کو دیکھا ہے کہ ان سے جو بھی بن پڑتا ہے، کرتے ہیں۔ ہم نے تھرپارکر کی خواتین کو دیکھا ہے جنہوں نے بچوں کو پڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے اور علاقے کی عورتوں کو مختلف ہنر سکھانے کا کام شروع کیا ہے۔ مگر بڑا سوال آج بھی جواب طلب ہے۔ ان دکھیاروں کو آٹا گوندھنے کے لئے وہ چلّو بھر پانی کون دے گا۔ جو دے سکتا ہے، اُسی پانی میں ڈوب رہے تو اچھا ہو۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین