• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:کونسلر ریاض بٹ…لوٹن
پاکستان میں ایک بار پھر جمہوری حکومت نے اپنے پانچ سال پورے کرلئے ہیں جو جمہوریت کے لئے نیک شگون ہے۔ اگر اسی طرح ہر جمہوری حکومت کو کام کرنے کا موقع ملتا رہے تو امید کی جاسکتی ہے آئندہ کسی طورپر بھی غیر جمہوری طریقے سے حکومتوں کو ہٹایا نہیں جاسکے گا۔ اسی طرح پانچ سال پورے کرنے کے لئے سیاسی لوگوں کو بھی اپنی حکومتوں کے معاملات ٹھیک رکھنے ہونگے اور ملکی مفادات کا خیال رکھنا ہوگا جب تک ملکی معاملات کو اچھے انداز سے چلایاجائے گا تو انہیں بھی اپنی حکومتوں کے جانے کا خدشہ نہیں ہوگا۔ جمہوری روایات کو پنپنے کا موقع کسی ایک ادارے کی طرف سے نہیں دیاجاسکتا اس کے لئے ملک کے چاروں ستونوں کو ملکر جمہوری عمارت کو سنبھالنا ہوگا اس میں سیاسی، عکسری، عدلیہ اور بیورو کریسی شامل ہیں اگر یہ چاروں ادارے اپنی اپنی حدود کے اندر رہ کر کام کریں تو یہ کام آسان ہوسکتا ہے ہمارے ہاں زیادہ الزامات سیاستدانوں پر لگائے جاتے ہیں، سیاستدان بھی ان الزامات سے بری الزمہ نہیں قرار دیئے جاسکتے، وہ ہی زیادہ خرابی کرتے ہیں یہاں برطانیہ میں سیاستدانوں کو زیادہ پروٹوکول نہیں دیاجاتا البتہ ان کی سیکورٹی کے تمام لوازمات پورے کئے جاتے ہیں، ہمارے ملک کے اندر سیاستدانوں کو پورے پروٹوکول کے ساتھ لے جایا جاتا ہے جس سے عوام کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، روٹ لگائے جاتے ہیں، اب ہم اکیسویں صدی میں ہیں سیاستدانوں کے پروٹوکول کو کم کیاجائے اور سیاستدانوں کے ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ بھی بند کرنا چاہئے، آئندہ انتخابات کو اپنے انتخابی منشور پر لڑنا چاہیے۔ نگران حکومت نے عارضی طورپر حکومتی معاملات کو چلانے کے لئے اقتدار سنبھال لیا ہے اسی طرح چاروں  صوبوں میں نگراں وزراء اعلیٰ کا تقرر کیا جارہا ہے تاکہ انتخابات کو صاف وشفاف بنایاجاسکے، اس سلسلہ میں الیکشن کمیشن کو بھی اپنا اہم کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ انتخابات کی شفافیت پر کوئی انگلی نہ اٹھنے پائے، گزشتہ حکومت نے فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام کرکے ایک اہم کارنامہ سرانجام دیا ہے اس پر ہم قومی اسمبلی، سینیٹ اور خیبرپختوانوں کی حکومت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ اس سلسلہ میں چاروں حکومتوں اورپاکستان کے عوام کی رائے کو مقدم رکھ کر فیصلہ کیا گیا ہے ۔ اب ان لوگوں کے تمام تحفظات دور کرکے ان لوگوں کو صحیح معنوں میں قومی دھارے میں شامل ہوکر علاقے کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ فاٹا کے یہ لوگ گزشتہ 70سال سے پرانے قانون کے مطابق چلتے رہے اور ان کے علاقے کو علاقہ غیر کا نام دیاگیا تھا جو کسی طورپرمناسب نہ تھا، فاٹا کے لوگوں نے ملک کے لئے جو قربانیاں دیں اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے جو کردار ادا کیا وہ قابل ستائش ہے اب جب فاٹا صوبہ خیبر پختونخواہ کا حصہ بن گیا ہے تو ارباب اختیار کوچاہئے کے وہ ان لوگوں کی قربانیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے تمام بنیادی حقوق کو تسلیم کریں اور ان کو تمام جائز حقوق دیں، فاٹا کے لوگ محب الوطن ہیں اور قیام پاکستان سے لیکر آج تک قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں۔ آج کل سوشل میڈیا پر کالا باغ ڈیم کے حوالے سے ایک مہم چل پڑی ہے اس بارے میں یہ کہوں گا کہ دیر آیددرست آید کے مصداق اس منصوبے کو اب پایہ تکمیل تک پہنچا کر ہی دم لینا چاہیے اور کسی قسم کی مصلحت کو خاطر میں نہیں لانا چاہئے، بھارت کی طرف سے آبی جارحیت کا اس سے موثر جواب نہیں دیاجاسکتا کہ پاکستان میں زیادہ سے زیادہ ڈیم بنائے جائیں اور پانی کو ذخیرہ کیاجانا چاہیے اس سے پانی کی قلت دور ہوگی اور پاکستان کو بنجر ہونے سے بچایاجاسکے، اس سے پہلے کالا باغ ڈیم پر بہت سارا کام ہوچکا ہے۔ فزیبلٹی رپورٹس بھی بن گئی تھیں لیکن پاکستان کے کمزور سیاستدان اور دوسرے لیڈر اس کو بنانے میں کامیاب نہ ہوسکے اور مصلحتوں کا شکار ہوتے رہے، اس وقت پاکستان میں پانی کے ذخائر کے دو بڑے منصوبے منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم موجود ہیں جنہوں نے عرصہ پچاس سال سے پاکستان کے آبی اور توانائی کی ضرورت کو پورا کیا۔ ان ڈیموں کو بنانے کے لئے اہم کردار ادا کیا وہ پاکستان کے ایک عظیم لیڈر صدر جنرل محمد ایوب خان تھے آج پاکستان میں جو آبی ضروریات پوری ہورہی ہیں ان کا سہرا ان ہی کے سرجاتا ہے، قارئین کرام آپ ذرا تصور کریں کہ اگر یہ دونوں منصوبے بھی نہ ہوتے تو ہماری معیشت اور زراعت کا کیا حال ہوتا، اب پاکستان میں نئی حکومت آنے والی ہے اس حکومت سے گزارش ہوگی کہ وہ بھارتی آبی جارحیت کو روکنے کے لئے اقدامات کرے وہ بڑی تیزی سے کشمیر سے بہنے والے دریائوں پر ڈیم بنا کر پاکستان کو بنجر بنانے کوشش کررہا ہے کالا باغ ڈیم سے سب سے زیادہ فائدہ سندھ، خیبر پختونخواہ ، بلوچستان کو ہوگا جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس ڈیم سے زیادہ فائدہ پنجاب کو ہوگا وہ پنجاب دشمنی کی وجہ سے ایسا کہہ رہے ہمارے لئے تمام صوبوں کے لوگ محب الوطن ہیں اور اس کا فائدہ جس صوبے کو ہو فائدہ پاکستان کو ہوگا۔ کالا باغ ڈیم کے علاوہ بھی اگر ڈیم بن سکتے ہیں تو بنائے جائیں پانی کی قلت کا اندازہ آئندہ چند برسوں میں ہوجائے گا ہماری لیڈر شپ ہوش کے ناخن لے اور اس کام کو جلد سے جلد پایہ تکمیل کو پہنچائے اسی میں ہماری بقا ہے۔
تازہ ترین