• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمان آج عیدالفطر ایسی کیفیت میں منا رہے ہیں کہ مسائل اور چیلنجوں کے بظاہر ناقابل عبور پہاڑ تو سامنے ہیں مگر قدرت کا تیشہ بھی اپنے انداز میں مصروف عمل محسوس ہورہاہے۔ معیشت کا رخ بدل رہا ہے۔ بین الاقوامی علاقائی تنظیمیں تعاون واشتراک کے نئے پہلوئوں اور معاہدوں کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ پاکستان کی حد تک تو نظر بھی آرہا ہے کہ دہشت گردی، لاقانونیت، کرپشن اور بدعنوانی کے گراف کے انتہائی سطح پر پہنچنے کے بعد اس کے نیچے آنے کا عمل تیز تر اور نتیجہ آور ہے جبکہ مجموعی طور پر اسلامی دنیا میں بعض خرابیوں کے پہلو بہ پہلو کئی امید افزاءعلامتیں بھی نمایاں ہیں تاہم یہ ضرورت اپنی جگہ برقرا ر ہے کہ مسلم حکمراں اپنی ذاتی انائوںا ور مفادات کی قربانی دے کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سےتھام لیں، درپیش چیلنجوں کو اللہ سے نصرت طلب کرتے اور اس کی عطا کردہ صلاحیتوں کو پوری طرح بروئے کار لاتے ہوئے عالم اسلام کے لئے سنہری مواقع میں تبدیل کریں اور امن و آشتی کی طرف دنیا کی رہنمائی کریں۔ اللہ کی نصرت اور انسانی قیادت کی بصیرت کا منبع وہ کتاب ہے جو حق تعالیٰ نےا پنےا ٓخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰﷺ پر نازل فرمائی اور ختمی مرتبت ہی کے اسوئہ حسنہ کی صورت میں جس کی تفسیر دنیا کے سامنے پیش کی۔ ہادی برحق ؐ کے خطبہ حجۃ الوداع کے یہ الفاظ کہ ’’اگر تم اس پر (یعنی اللہ کی کتاب اورنبیؐ کی سنت پر) قائم رہے تو کبھی گمراہ نہ ہو سکو گے‘‘اس نسخہ کیمیا کی طرف توجہ دلا رہے ہیں جو کامیابیوں کی طرف پیش قدمی کا ذریعہ ہے۔ رمضان المبارک کی روح پرور ریاضتوں سمیت تمام اسلامی عبادتیں کتاب وسنت پر قائم رہنے کی اس تربیت کا حصہ ہیں جس پر چلنے والی قوم چونکہ گمراہی سے محفوظ ہو جاتی ہے اس لئے کامیابیاں اس کے آگے بچھتی چلی جاتی ہیں۔ اس تربیت سے صدق دلی سے گزرنے والے بندے جب اللہ تعالیٰ کی خوشنودی سامنے رکھتےہوئے کسی اچھے کام کے آغاز کےلئے، کسی مشکل صورتحال سے نکلنے کے لئے یا کسی دوسرے امر میں باہم مشورہ کرتے ہیں تو ان کا یہ عمل قرآنی تعلیمات سے ہم آہنگ ہونے کی بنا پرعبادت کا حصہ بن جاتا اور اس سے خیر کی امید کی جاتی ہے۔ اس لئے کیا ہی اچھا ہو کہ مسلم حکمراں دنیا کی موجودہ صورتحال مدنظر رکھتے ہوئے باہمی اختلافات پس پشت ڈال کر تنظیم اسلامی کانفرنس (او آئی سی) کو مضبوط بنائیں،ایک فوری ہنگامی اجلاس کے ذریعے مشترکہ لائحہ عمل بنائیں، باہمی اتحاد کے ذریعے اپنی طاقت دنیا سے منوائیں اور مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کی موثر آواز بن جائیں۔ پاکستان میں عیدالفطر 1439ہجری ایسے وقت آئی ہے جب آئندہ پانچ برسوں میں قومی قیادت کے چنائو کیلئے الیکشن 2018ء سر پر ہیں۔ موجودہ حالات میں ووٹ کو اس چنائو کے لئے رائے ظاہر کرنے یا مشاورت میں حصہ لینے کا ذریعہ کہا جا سکتا ہے۔ ووٹ یا رائے کا اظہار ایک امانت ہے جو اگر سورہ النساء میں دیئے گئے اللہ کے اس حکم کے مطابق ہو کہ ’’امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو‘‘ تو عبادت ہے۔ اس لئے یہ احتیاط ضروری ہے کہ ووٹ ذات برادری یا کسی ذاتی لالچ کے تحت نہ دیا جائے۔ امیدوار کی اہلیت، دیانت اور کردار کو سامنے رکھ کر دیاجائے۔ یہ بات بہر طور ملحوظ رکھی جانی چاہئے کہ ووٹ کی جس پرچی کوبھی امانت سمجھ کر پوری احتیاط سے درست طور پر نشان زد کیا جائے گا وہ ملکی نظام کو مثالی بنانے کا ذریعہ بنے گی اور ان بیرونی قوتوں کی سازشیں ناکام بنانے میں بھی کردار ادا کرے گی جو عالم اسلام کا قلعہ کہلانے والے اس ملک کو بے دست وپا کرنے یا اس کا وجود مٹانے کے درپے ہیں۔ عید الفطر انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی پارٹیوں اور امیدواروں کو انتخابی مہم سمیت ہر معاملے میں شائستگی کے دینی و قومی تقاضے یاددلانے کا بھی ذریعہ ہے۔ وطن عزیز کے مسائل اور عالم اسلام کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے تمام ہی حلقوں کو اپنے اپنے دائروں میں احتیاط کے تقاضے ملحوظ رکھنا ہوں گے۔

تازہ ترین