• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ ’’ڈویلپمنٹ ایڈووکیٹ پاکستان‘‘ میں ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ ’’آنے والے وقت میں پاکستان کا اصل مسئلہ دہشت گردی نہیں بلکہ پانی ہوگا، اگر پاکستان نے پانی کے ذخائر محفوظ کرنے کیلئے ضروری اقدامات نہ کئے تو 2025ء تک پاکستان پانی کے شدید بحران کا شکار ہوجائے گا جو ملک میں دہشت گردی سے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے لیکن ملک پانی کے متوقع بحران سے نمٹنے کیلئے تیار نہیں۔‘‘ گزشتہ سال پاکستان میں پانی کے ذرائع پر ’’پاکستان کونسل آف واٹر ریسورسز‘‘ (PCRWR) نے بھی خبردار کیا تھا کہ ’’اگر پاکستان میں پانی کے بحران پر فوری قابو نہ پایا گیا تو پاکستان جس نے 1990ء میں پانی کی کم سے کم سطح کو چھوا تھا، 2025ء تک اس سطح سے بھی نیچے آجائے گا اور ڈیمز نہ بننے کی وجہ سے آئندہ 7 سالوں میں پاکستان جنوبی ایشیاء کا ریگستان بن سکتا ہے۔‘‘
اِن دنوں سپریم کورٹ میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق ریفرنڈم کرانے سے متعلق کیس زیر سماعت ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق ریفرنڈم کے حوالے سے کیس کی سماعت کررہا ہے۔ درخواست گزار بیرسٹر ظفراللہ کی جانب سے موقف اپنایا گیا کہ 2025 میں پانی کی متوقع نچلی ترین سطح کیلئے ابھی سے ملک میں پانی کی قلت نظر آرہی ہے لہٰذا نئے ڈیمز بنانا ضروری ہیں۔ چیف جسٹس کے مطابق کالا باغ ڈیم کے معاملے میں صوبوں میں اتفاق نہیں جبکہ مشترکہ مفادات کونسل نے بھی کالا باغ ڈیم پر عوام کو آگاہی نہیں دی لہٰذا سپریم کورٹ پانی کی قلت پر قابو پانے کیلئے کالا باغ ڈیم پر ایسی کوئی بحث نہیں کرے گی جس سے کوئی فریق متاثر ہو تاہم ڈیمز بنانے سے متعلق اپنا کردار ادا کرے گی۔
پاکستان دنیا کا چوتھا بڑا پانی استعمال کرنے والا ملک ہے جہاں پانی کا سالانہ فی کس استعمال صرف 1017 کیوبک میٹر ہے جبکہ عالمی معیار کے مطابق پانی کا فی کس کم از کم استعمال 1000 کیوبک میٹر ہے جس کے باعث آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا میں پانی کے بحران زدہ ممالک میں ہوتا ہے۔ پاکستان میں پانی کی قلت کی وجہ قیام پاکستان کے بعد مطلوبہ ڈیمز کا نہ بننا ہے۔ پاکستان کا پہلا ڈیم وارسک ڈیم1960ء میں بنا جس کے بعد منگلا ڈیم 1961ء ، سملی ڈیم 1962، راول ڈیم 1962ء، حب ڈیم 1963، تربیلا ڈیم 1968، خان پور ڈیم 1968ء ، میرانی اور سبک زئی ڈیمز بنائے گئے۔ اس کے بعد ہم جمہوریت میں مشغول ہوگئے اور 1975ء کے بعد کوئی نیا بڑا ڈیم نہیں بنایا گیا۔ پاکستان میں اس وقت چھوٹے بڑے کل 155 ڈیمز ہیں جبکہ بھارت میں چھوٹے اور بڑے 3200 ڈیمز ہیں۔ پاکستان اپنے دریائوں کا صرف 10 فیصد پانی ذخیرہ کرسکتا ہے جبکہ 90 فیصد پانی ضائع ہوجاتا ہے جس کی اہم وجہ ملک میں ڈیموں کی کمی ہے۔ پاکستان کے مجموعی ڈیموں میں صرف 14 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے، اس طرح ہم صرف 30 دن کا پانی ذخیرہ کر سکتے ہیں جبکہ بھارت 120دن تک اور امریکہ 900 دن تک پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس طرح پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی فی کس مقدار 150 کیوبک میٹر ، چین میں 2200 کیوبک میٹر، آسٹریلیا اور امریکہ میں 5000 کیوبک میٹر ہے۔ اس طرح پاکستان اپنے دستیاب آبی وسائل کا صرف 7 فیصد پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ عالمی سطح پر یہ تناسب 40 فیصد ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں پانی کی فی کس دستیابی دنیا میں سب سے کم ہے۔ پاکستان اپنے دستیاب پانی کو ذخیرہ نہ کر کے سالانہ 30 سے 35 ارب ڈالر کا نقصان اٹھا رہا ہے جبکہ کالا باغ، بھاشا اور اکھوڑی ڈیم کی تعمیری لاگت صرف 25 ارب ڈالر ہے۔ کچھ ماہ قبل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے دھمکی دی تھی کہ ہم پاکستان کو بوند بوند پانی سے محروم کرکے صحرا میں تبدیل کردیں گے لیکن افسوس کہ بھارت کے جارحانہ روئیے کو دیکھتے ہوئے بھی ہماری حکومت اور اپوزیشن جماعتیں پانی کے بحران کے مستقل حل کیلئے کسی قومی پالیسی پر متفق نہیںہوئیں اور ڈیموں کی تعمیر پر سیاسی تنازعات پیدا کئے جاتےرہے ۔
واپڈا کے مطابق 2050ء تک ملکی آبادی بڑھ کر 31 کروڑ تک ہونے کی توقع ہے جس سے ملک میں پانی کی طلب میں شدید اضافہ ہوگا جس کیلئے ہمیں ہنگامی بنیادوں پر چھوٹے بڑے نئے ڈیمز تعمیر کرنے ہوں گے۔ اس وقت ملک کے مختلف صوبوں میں 250 ارب روپے کے مجموعی لاگت کے 32 چھوٹے بڑے نئے ڈیمز کے منصوبوں پر کام ہورہا ہے جس میں پہلے مرحلے میں 13 ڈیمز پر کام شروع ہوچکا ہے۔ ان نئے ڈیمز میں 5 ڈیمز بلوچستان، 4 سندھ، 2 خیبرپختونخوا اور پنجاب میں تعمیر کئے جائیں گے۔ دریائے سوات پر منڈا ڈیم، گومل زیم ڈیم، خرم تنگی ڈیم، منڈا ڈیم، بارا ڈیم، چوکاس ڈیم اور طوطا خان ڈیم فائنل انجینئرنگ کے مرحلے میں ہے۔ بھاشا مہمند ڈیم پر کام شروع کرنے کیلئے 25 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اس پروجیکٹ کی تکمیل سے سالانہ 800 میگاواٹ بجلی پیدا ہونے کے علاوہ پشاور کو پینے کا صاف پانی مہیا کیا جاسکے گا۔
ماہرین آج بھی متفق ہیں کہ اگر کالا باغ ڈیم منصوبہ مکمل ہو جاتا تو اس منصوبے کے ذریعے 3600 میگاواٹ بجلی صرف ڈھائی روپے فی یونٹ میں عوام کو فراہم کی جا سکتی تھی۔ اس کے علاوہ کالا باغ ڈیم سے زرعی مقاصد کے لئے سندھ کو 4 ملین ایکڑ فٹ، خیبر پی کے کو 2.2 ملین ایکڑ فٹ، پنجاب کو 2 ملین ایکڑ فٹ اور بلوچستان کو 1.5 ملین ایکڑ فٹ پانی مل سکتا تھا اور ڈیم کے پانی سے چاروں صوبے خوراک میں خود کفیل ہونے کے علاوہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے بھی بچ سکتے تھے۔
کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا موجودہ تخمینہ 9 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے جو صرف 5 سالوں میں وصول کیا جاسکتا تھا جبکہ ڈیم کی تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے 2010ء کے سیلاب سے ملک کو 9 ارب ڈالر اور 2014ء کے سیلاب سے 20 ارب ڈالر کے مالی نقصانات ہوئے۔ بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے ہر دو تین سالوں بعد دریاؤں میں پانی چھوڑتا رہتا ہے جو سیلاب کی شکل میں ملک کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچاتا ہے۔ اگر ہمارے پاس بھارت کے چھوڑے گئے پانی کو ذخیرہ کرنے کے آبی ذخائر موجود ہوتے تو ہم اس پانی کو ذخیرہ کرکے نہ صرف سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچ سکتے تھے بلکہ اس پانی سے 50 ہزار میگاواٹ سستی بجلی پیدا کی جاسکتی تھی جو ہماری بجلی کی ضرورت سے دگنے سے زیادہ ہے لیکن بدقسمتی سے بڑے ڈیمز اور آبی ذخائر تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کی لاکھوں ایکڑ زمین بنجر ہوچکی ہے اور قومی اہمیت کا یہ اہم منصوبہ ملکی سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا ۔کالا باغ ڈیم دراصل سیاسی ایشو بنایا گیا ہے جبکہ یہ سراسر ملک کی معاشی بقا کا ایشو ہے۔
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے نعرہ لگایا تھا کہ ایٹم بم بنائیں گے، گھاس کھائیں گے۔ آج ایٹمی طاقت بننے کے باوجود کالا باغ ڈیم نہ بناکر پاکستانی قوم گھاس کھانے پر مجبور ہوگئی ہے۔ بھارت نے دریائوں کا پانی روک کر پاکستان میں پانی کا بحران پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا تھااور نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے سابق چیئرمین مجید نظامی نے 10 سال پہلے اپنے آرٹیکل "The Water Bomb" میں بھارت کی آبی جارحیت، کالا باغ ڈیم کی تعمیر اور دریائوں کا پانی روکنے کے بھارتی منصوبے پر قوم کی توجہ دلائی تھی جو پاکستان میں موجودہ پانی کے بحران کی عکاسی کرتا ہے۔ بھارت کے ہاتھوں پاکستانی دریاؤں کا پانی بند کرنے کا ہتھیار کسی ایٹمی ہتھیار سے کم نہیں، اگر بھارت ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پاکستان کی معیشت اور زراعت کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا ، اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ 2025ء زیادہ دور نہیں لہٰذاقومی سلامتی اور بقا کیلئے حکومت اور تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہوکر ملک میں زیادہ سے زیادہ ڈیمز تعمیر کرنے کی قومی پالیسی پر ترجیحی بنیادوں پر عمل کرنا چاہئے نہیں تو پاکستان مستقبل قریب میں پانی کے شدید ترین بحران کا شکار ہوسکتا ہے۔

تازہ ترین