• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ عرصے سے چاند رات سے ملتی جلتی رونق علمائے کرام کے چاند دیکھنے کی کارروائی کے حوالے سے ہوتی ہے۔ علمائے کرام بڑی بڑی دوربینوں سے تین لاکھ چوراسی کلومیٹر دور واقع چاند دیکھنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اندرون شہر کے نوجوان جہاں چھتوں سے چھتیں ملی ہوتی ہیں وہ بھی اپنا اپنا ’’چاند‘‘ دیکھنے کے لئے چھتوں پر دکھائی دیتے ہیںاور یہ ’’چاند‘‘ چند فٹ کے فاصلے پر بھی ہوسکتا ہے، مگر علمائے کرام جس چاندکو دیکھنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں، پوری قوم کی دعائیں ان علماء کے ساتھ ہوتی ہیں کہ خداوندہ ان میں سے کسی ایک کو ہی چاند نظر آجائے اور دوسرے علماء اس کی شہادت کو تسلیم کر کے اگلے دن عید کا اعلان کردیں۔ اگر کبھی کوئی ایسی صورت حال پیدا ہو تو میرے محترم مفتی منیب الرحمان صاحب چند دوسری شہادتوں کے لئے مجھ سے رجوع فرما سکتے ہیں، میں عدالتوں کے باہر حلفیہ بیان دینے والوں میں سے دو چار سےگواہی دلوا دوں گا۔ کروڑوں مسلمانوں کی خوشی کے لئے ہزاروں روپے قربان کرنا کون سامشکل کام ہے۔ دوسری طرف علمائے کرام کی اپنی بے چینی بھی قابل دید ہوتی ہے۔ ان کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ چاند نظر آجائے، خدانخواستہ اس لئے نہیں کہ اس روز انہیں تراویح نہیں پڑھنا پڑیں گی یا اگلے روز کے روزے سے بچ جائیں گے، لاحول ولا قوۃ۔ ایسا سوچنا بھی گستاخی کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ چاند دیکھنے والی کمیٹی کے ارکان تو اتنے متقی ہیں کہ وہ سارا سال عبادت کے اس مہینے کا انتظار کرتے ہیں۔ میں نے گزشتہ روز دعوت اسلامی کے امیر کو ایک ویڈیو کلپ میں دھاڑیں مار مار کر روتے دیکھا ہے کہ برکتوں کا مہینہ رمضان رخصت ہورہا ہے۔ دعوت اسلامی کے امیر گو چاند دیکھنے والی کمیٹی کے رکن نہیں ہیں مگر بہت نیک انسان ہیں۔ کسی اللہ والے کو چاہئے کہ وہ ان کے پاس جائیں اور کہیں کہ آپ جس دلسوزی سے زاروقطار روتے ہوئے ماہ رمضان کو رخصت کررہے ہوتے ہیں یہ نہ ہو کہ کسی دن اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت جوش میں آئے اور آسمانوں سے ایک آواز گونجے ’’اے میرے نیک بندو! ماہ رمضان میں عبادتوں کا عام دنوں کی عبادتوں سے کئی گنا ثواب ملتا ہے، اس ثواب کی محرومی سے آپ کا رونا دیکھا نہیں جاتا۔ لہٰذا آئندہ سال سے ماہ رمضان ایک نہیں دو مہینوں پر مشتمل ہوگا‘‘۔ اس صورتحال میں کوئی بدبخت گنہگار ہی ہوگا جو کہے کہ باری تعالیٰ آپ یہ کرم صرف امیر دعوت اسلامی پر کریں، ہم گنہگاروں کو اس سے Exemptفرمادیں۔
خیر چانددیکھنے اور نظر نہ آسکنے کا ہنگامہ خیز دن تو گزر گیا، چنانچہ عید اب آج ہوگی لیکن اگر کل ہو جاتی تو کیا حرج تھا؟ انتیس روزوں کا اپنا ہی مزا ہوتا ہے۔ برادرم نصیر بلوچ کے مطابق تیسواں روزہ بیوی کی طرح ہوتا ہے جو نہ رکھنے کو جی چاہتا ہے اور نہ چھوڑنے کو۔ بہرحال روزہ داروں اور روزہ خوروں دونوں کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ وہ اس شام جوق در جوق گھروں سے نکلتے ہیں۔ پٹاخے چلاتے ہیں، گاڑیوں کے ہارن دیتے ہیں اور سڑکوں پر جشن کا سا سماں نظر آتا ہے۔ یہ جشن تو خیر آج بھی نظر آئے گا۔ بہرحال آج لوگ صاف ستھرے کپڑے پہن کر نماز عید کے لئے نکلیں گے، اگر ایک مسجد میں وہ تاخیر سے پہنچتے ہیں تو دوسری مسجد کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں گے۔ میں نے تو کچھ ایسے بدنصیب بھی دیکھے ہیں جو جس مسجد کا بھی رخ کرتے ہیں وہاں امام صاحب امت مسلمہ کے لئے دعا کرتے نظر آتے ہیں جو قبول نہیں ہوتی۔ اگر صرف دعائوں سے کام چل سکتا تو مریضوں کے لئے دوا کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ بہرحال نماز عید کے بعد عید ملنے کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے۔ بہت سے دوست تو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ کی پسلیاں توڑنے کے چکر میںہوتے ہیں مگر کچھ اللہ کے نیک بندے صرف کاندھے سے کاندھا ملاتے کیا بس ٹچ کرتے ہیں۔ میں عید کے بعد دو چار پسلی توڑ قسم کے دوستوں سے عید ملنے کے بعد کسی دو چار من کے حامل دوست کو ڈھونڈ رہا ہوتا ہوں اور کامیابی پر جب اس کے نرم گداز جسم کی ہیٹ و گرمائش میری زخمی پسلیوں کی ٹکور کرتی ہے تو دل کی گہرائیوں سے اس کے لئے دعائیں نکلتی ہیں اور میں اس وقت تک اس سے عید ملتا رہتا ہوں جب تک لائن میں لگے دوسرے زخم خوردگان مجھے اس سے الگ نہیں کرتے۔
ادھر گھروں میں لڑکیاں بنائو سنگھار اور نئے ڈیزائن کے خوبصورت ملبوسات پہنے مہمانوں کی خاطر مدارت میں مشغول ہوتی ہیں کیا خوبصورت تہوار ہے کہ اس موقع پر لوگ رفتگان کو بھی نہیں بھولتے ،قبرستانوں میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی، لوگ یہاں اپنے ان پیاروں سے ملنے آئے ہوتے ہیں جو آسودہ خاک ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ انہیں ہمارے آنے کا پتہ نہیں چلتا ہوگا اور وہ خوش نہیں ہوتے ہوں گے۔ اور وہ مغموم نہیں ہوتے ہوں گے جنہیں انہوں نے بھلا دیا ہوگا۔ جو یاد رکھے جاتے ہیں، ہماری طرح عید کا دن ان کے لئے بھی عید ہی کا دن ہوتا ہے اور جنہیں بھلا دیا جاتا ہے، ان کی آہیں شاید ان کانوں تک بھی پہنچتی ہوں جو دنیا کی رونقوں میں گم ہو چکے ہیں، مگر انہیں پھر بھی اپنی آخری منزل یاد نہیں آتی!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین