• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسئلہ شاید یہ نہیں کہ عمران خان سیاست میں کوئی انہونی یا ایسی بات کر رہے ہیں جو دوسری سیاسی جماعتیں نہیں کر رہیں۔ مسئلہ یہ بھی نہیں کہ خان صاحب نے گہری نظریاتی وابستگی رکھنے اور طویل جدوجہد کرنے والے کارکنان کو نظر انداز کر کے روایتی جدی پشتی سیاستدانوں کو ٹکٹ دے کر کوئی نئی روایت ڈالی۔ مسئلہ یہ بھی نہیں کہ انکی جماعت یعنی تحریک انصاف اب دوسری عام سیاسی جماعتوں جیسی ہو کر رہ گئی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ خان صاحب کے قول و فعل کا تضاد بری طرح کھل کر سامنے آگیا ہے۔ انہوں نے وہ سب کچھ کیا جسکی وہ کھلے عام نفی کرتے رہے۔ انہوں نے وہ سب کچھ کیا جو ہماری ستر سالہ سیاسی تاریخ کے دوران اقتدار کے کھیل میں مصروف دوسری جماعتیں کر رہی ہیں۔ اور مسئلہ یہ ہے کہ اب وہ کسی ایک پہلو سے بھی اپنے آپ کو روایتی سیاسی جماعتوں سے الگ ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ 2018 کے انتخابات کیلئے اپنے امیدواروں کا اعلان کر کے خان صاحب نے اپنے تمام دعوئوں پر (ایک بار پھر) سیاہی پھیر دی ہے۔
پی ٹی آئی کی اعلان کردہ فہرست پر نگاہ ڈالیں تو 80 فیصد کے لگ بھگ ایسے افراد نظر آئیں گے جن کی کسی اصول، نظریے یا بڑے قومی مقصد سے کبھی کوئی وابستگی نہیں رہی۔ اپنے ذاتی مفادات کی سیاست کرنے والے یہ لوگ وقت کےساتھ ساتھ پارٹیاں تبدیل کرتے، نئے لیڈر کی خوشامد کرتے اور اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔ یہ ایک لمبی فہرست ہے ، لیکن صرف چند ناموں پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ تحریک انصاف کہاں سے چل کر کہاں پہنچ چکی ہے اور عمران خان کے بڑے بڑے دعوے کس بری طرح خاک میں مل گئے۔ عمران خان کا المیہ مگر یہ ہے کہ وہ ابھی تک تبدیلی کے دعویدار ہیں۔ تبدیلی کے علمبردار وںمیں چند نمایاں نام ہیں فردوس عا شق اعوان، نذر محمد گوندل، نور عالم خان، ندیم افضل چن، راجہ ریاض، صمصام بخاری، مصطفی کھر، زوالفقار کھوسہ، عمر ایوب خان، غلام سرور، رضا حیات ہراج، لیاقت جتوئی، اورڈاکٹر عامر لیاقت،۔یہ ہے اس ٹیم کی ایک جھلک، جو خان صاحب کی سربراہی میں نیا پاکستان بنانے کیلئے بروئے کار آئے گی۔
عمران خان ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے رہے کہ وہ روایتی جاگیرداروں، وڈیروں ، گدی نشینوں، بڑے بڑے زمینداروں اور اقتدار کے پجاریوں کیلئے اپنی جماعت کے دروازے نہیں کھولیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انکی جماعت میں دیرینہ کارکنوں با لخصوص نوجوانوں اور بے داغ لوگوں کی عزت ہو گی اور انہی کو اسمبلیوں کے ٹکٹ دئیے جائیں گے۔ انہوں نے تقریباََ ہر جلسے میںیہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ اقتدار کیلئے نہیں بلکہ ایک بڑے انقلاب اور تبدیلی کیلئے میدان میں اترے ہیں۔ انہوں نے بارہا موروثی سیاست کی بھی پر زور نفی کی۔ لیکن وقت کیساتھ ساتھ یہ تمام دعوے بے بنیاد ثابت ہوئے ۔ بہت کچھ تو 2013 کے انتخابات میں ہی واضح ہو گیا تھا۔ جب انہوں نے اپنے ان دعوئوں سے ہٹ کر روایتی سیاستدانوں اور انکی آل اولاد کو ٹکٹوں سے نوازا ۔ لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ بھرم باقی تھا۔جو اب بالکل ٹوٹ چکا ہے۔ خان صاحب نے جن روایتی، موروثی اور اسٹیٹس کو کے پرانے مہروں کو ٹکٹ دئیے ، انہوں نے پی ٹی آئی کا چہرہ مکمل طور پر مسخ کر دیا ہے۔ اب وہ اسٹیٹس کو کیخلاف نئی اور بے داغ سیاست کی علمبردار تحریک انصاف نہیں رہی۔ بلکہ اقتدار کی ہوس میں مبتلا ویسی ہی جماعت بن گئی ہے جیسی جماعتیں ہمارے ہاں پہلے سے اقتدار کے کھیل میں مصروف ہیں ۔ دلیل دینے والے کہہ سکتے ہیں کہ کیا یہی کچھ مسلم لیگ (ن) نہیں کر رہی؟۔ کیا ان سب باتوں کا اطلاق پیپلز پارٹی پر نہیں ہو تا؟۔ اسکا جواب یہ ہے کہ نہ تو کبھی میاںنواز شریف نے وہ بلند و بانگ دعوے کیے جو عمران خان اکتوبر 2011 سے مسلسل کرتے چلے آئے ہیں۔ اور نہ ہی آصف علی زرداری کو اس طرح کی پارسائی کا کوئی دعویٰ ہے۔ دونوں کی جماعتوں کیساتھ "تحریک "کا لفظ بھی شامل نہیں۔ دونوں کھلے عام اقتدار کی بارگاہوں میں پہنچنے کی سیاست کرتے ہیں اور اس میں کامیاب بھی رہے۔ خان صاحب اس لئے تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے نظر آتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ہر نعرے، اپنے ہر اصول ، اپنے ہر نظریے اور اپنے ہر دعوے کو بری طرح جھٹلا دیا ہے۔شاید ہی ان سے امیدیں وابستہ کرنے والے سنجیدہ نوجوانوں میں کوئی ایسا ہو ، جس کے دل میں بے شمار سوالات نہ پیدا ہوئے ہوں۔اگر خان صاحب (غیبی امداد کے باعث)اپنے موجودہ گروہ کیساتھ اقتدار کی بارگاہوں میں پہنچ جاتے ہیںتو شاید وہ اسے اپنی کامیابی سمجھیں ۔ لیکن یہ انکی اصولی اور نظریاتی سیاست کی بہت بڑی شکست ہو گی اور اسے اس اسٹیٹس کو کی سیاست کی فتح سمجھا جائے گا جس کے خلاف جنگ لڑنے کیلئے عمران خان میدان میں نکلے تھے۔ بلکہ یہ کہہ دینے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ اپنے اگلے سیاسی سفر کیلئے انہوں نے جن لوگوں کو اپنے قافلے میں شریک کیا ہے وہ الیکشن سے پہلے ہی انکی "تحریک انصافـ" کا نوحہ بن چکے ہیں۔
ایک اور معاملے میں انکے قول و فعل کا تضاد کھل کر سامنے آیا ہے۔ انہوں نے عمرہ کی ادائیگی کے خالص مذہبی عمل کو ایک بڑا ایشو بنا دیا۔ خان صاحب نے مختلف جرائم میں زیر تفتیش ملزم کو ساتھ لیجانے کیلئے اپنا ذاتی رسوخ استعمال کیا اور تمام قانونی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کراس شخص کیلئے غیر معمولی رعایت حاصل کی۔سب جانتے ہیں کہ عمران خان ہمیشہ پروٹوکول کی مخالفت میں تقاریر کرتے اور مغربی ممالک کے سیاستدانوں کی سادگی کی مثالیں دیتے رہے ہیں۔ مگر خود انکے ایک دن کے عمرے پر دو کروڑ روپے کا خرچہ آیا۔شخصی طور پر اس سارے قصے نے انکی اصول پسندی کو شدید دھچکا لگایا ہے۔
ویسے ایک دھچکا تحریک انصاف کی حکومتی کارکردگی کے حوالے سے بی بی بی کے پروگرام" ہارڈ ٹاک" نے بھی لگایا ہے۔ انٹرویو کے دوران جب میزبان نے خان صاحب سے خیبر پختونخوا میں انکی حکومتی کارکردگی سے متعلق سوالات پوچھے تو خان صاحب اسکا کوئی واضح جواب نہ دے سکے۔ اس انٹرویو کا آج کل سوشل میڈیا پر بہت چرچا ہے۔ اس سے تحریک انصاف کے کارکردگی سے متعلق بلند آہنگ دعوئوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین