• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فضل اللہ کی ہلاکت، دیکھنا ہے پاکستان امریکا کا کون سا مطالبہ پورا کرتا ہے

فضل اللہ کی ہلاکت، دیکھنا ہے پاکستان امریکا کا کون سا مطالبہ پورا کرتا ہے

اسلام آباد (فاروق اقدس) ڈرون حملے میں مارے جانے والے ملا فضل اللہ کا شمار پاکستان کو انتہائی مطلوب دہشتگردوں میں ہوتا تھا جس نے پاکستان میں دہشتگردی کے انتہائی سنگین واقعات میں پس منظر میں رہتے ہوئے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ پاکستان نے افغانستان میں اس کی موجودگی، مقام کی نشاندہی اور حکومتی سطح پر اس کو تحفظ فراہم کرنے کے شواہد پیش کرکے ایک سے زیادہ مرتبہ اس صورتحال کی مذمت کرتے ہوئے افغان حکام سے پاکستان کو اس کی حوالگی یا پھر اس کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا اور اس ضمن میں امریکی حکام سے بھی رابطے کیے تھے لیکن اُن کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا تاہم رواں سال ہی امریکی محکمہ خارجہ نے ملا فضل اللہ سے متعلق اطلاع دینے پر 50 لاکھ ڈالر انعام کا اعلان کیا تھا۔ یہاں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ ملا فضل اللہ کی ہلاکت کی خبر ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب رواں ہفتے ہی پاک فوج کے چیف آف آرمی سٹاف قمر جاوید باجوہ نے افغانستان کا دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے افغان قیادت کے ساتھ ساتھ افغانستان میں تعینات امریکی افواج کے نمائندہ جنرل نکلسن سے بھی ملاقات کی تھی جبکہ حال میں اعلیٰ سطحی امریکی حکام نے پاکستان سے باضابطہ طور پر یہ اپیل کی تھی کہ افغانستان میں طالبان اور حکومت کے مابین امن مذاکرات کیلئے امریکا کو پاکستان سے مدد کی ضرورت ہے۔ بادی النظر میں ملا فضل اللہ کی ہلاکت کی شکل میں پاکستان کا ایک بڑا مطالبہ تسلیم کرلیا گیا ہے۔ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ افغانستان میں مدد کے حوالے سے اب جوابی طور پر پاکستان امریکا کا کون سا مطالبہ پورا کرتا ہے۔ فضل اللہ 1974 میں سوات میں پیدا ہوا،تعلق یوسفزئی قبیلے سے ، ایک پاؤں سے معمولی معذور بھی تھا۔ فضل اللہ 2013 میں تحریک طالبان کے سربراہ مقرر ہوا، تو اس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ یہ سابق قائد حکیم اللہ محسود سے زیادہ خطرناک اور زیادہ پرتشدد رجحان کا مالک ہے۔ فضل اللہ کے دور میں جہاں سوات کی طالبہ ملالہ یوسفزئی کو حملے میں نشانہ بنایا گیا وہیں پشاور میں بچوں کے سکول پر حملے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھا دیا اور پاکستان میں شدت پسندوں کیخلاف بلاامتیاز کارروائیوں کے مطالبات شدت پکڑ گئے۔ اگرچہ پاکستان قبائلی علاقوں کو شدت پسندوں سے صاف کرنے کیلئے کارروائیوں میں شدت لایا لیکن فضل اللہ افغانستان میں موجود ہونے کی وجہ سے پاکستانی سکیورٹی فورسز کی پہنچ سے ہمیشہ دور رہا اور پاکستان کی جانب سے امریکی اور افغان حکام سے اس کیخلاف کارروائی کرنے کے مطالبات کیے جاتے رہے تھے۔ تحریک نفاذ شریعتِ محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد کے داماد فضل اللہ نے جہانزیب کالج سوات سے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ اس نے تین درجوں تک دینی تعلیم بھی حاصل کی تھی تاہم وہ زیادہ تر صوفی محمد کی صحبت میں رہا جہاں وہ درس و تدریس کے کاموں میں شرکت کرتا رہا۔ اکتوبر 2001 میں جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو مولانا صوفی محمد مالاکنڈ ڈویژن سے ہزاروں لوگوں کو اپنے ساتھ جنگ کیلئے افغانستان لے گئے جن میں مولانا فضل اللہ بھی شامل تھا۔ افغانستان سے واپسی پر فضل اللہ گرفتار ہوا اور تقریباً 17 ماہ تک جیل میں رہا۔ اس نے 2005 اور 2006 میں سوات میں غیر قانونی ایف ایم ریڈیو چینل شروع کیا جس کی وجہ سے اسے بہت کم عرصے میں لوگوں میں کافی رسائی ہوئی۔ اس ایف ایم چینل پر مغرب خصوصاً امریکا، حفاظتی ٹیکوں، لڑکیوں کی پڑھائی کے خلاف تقاریر کی گیئں۔اسی حوالے سے اس کا نام’’ ریڈیو فضل اللہ ‘‘بھی پڑ گیا تھا۔ 2006 میں ملا فضل اللہ نے علاقے میں ʼ خود ساختہ شریعت کے نفاذ کیلئے عملی اقدمات بھی شروع کر دئیے جس میں مقامی تنازعات کے فیصلے کرنا اور گلی کوچوں میں جنگجوؤں کا گشت شامل تھا۔ پھر بات حد سے بڑھتی گئی اور وادی میں خودکش حملوں، سکولوں پر حملے اور اِغوا ءکے واقعات میں اضافہ ہوا تو مقامی انتظامیہ نے فضل اللہ کیخلاف کارروائی کا ارادہ کیا جس کے بعد پھر پولیس اور نیم فوجی دستوں کی مشترکہ کارروائی شروع ہوئی۔ نومبر 2007 میں اس وقت کے وزیراعلیٰ اکرم درانی نے وفاقی حکومت سے سوات میں فوج بھیجنے کی درخواست کی اور فوج ایک محدود مینڈیٹ کے ساتھ سوات میں آئی۔ تاہم فوجی کارروائیوں کے دوران بھی خودکش حملے، سکولوں پر حملے اور اغوا ءکے واقعات ہوتے رہے۔ سرکاری دفاتر بہت حد تک محدود ہو کر رہ گئے اور اس کے ساتھ فضل اللہ نے سوات میں اپنی عدالتیں بھی قائم کر دیں۔ فروری 2009 میں خیبر پختونخوا کی حکومت نےتحریک نفاذ شریعت محمدی کے رہنما صوفی محمد کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کے مطابق حکومت سوات اور مالاکنڈ سمیت آٹھ اضلاع میں ایک متوازی نظامِ عدل شرعی عدالتیں قائم کرنا تھا۔ اس کے بدلے میں صوفی محمد نے مولانا فضل اللہ کو تشدد سے باز رہنے کیلئے کہنا تھا۔ تاہم مولانا صوفی محمد اپنے دامادفضل اللہ کے مسلح طالبان کے سامنے بے بس دکھائی دئیے اور وہ معاہدے اور وعدے کے مطابق طالبان کو غیر مسلح کرنے اور انہیں متوازی حکومت چلانے سے روکنے میں ناکام رہے۔ مئی 2009 میں پاکستانی فوج نے سوات میں فیصلہ کن کارروائی شروع کی تو ضلع کے بیشتر مقامات سے فضل اللہ کے حامی عسکریت پسندوں کو شکست کے بعد نکال دیا گیا۔ اسی کارروائی کے دوران فضل اللہ اچانک غائب ہو گیا اور بعد میں اس نے افغانستان چلے جانے کی تصدیق کی اور اس کی پاکستان کے کسی علاقے میں موجودگی کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ حکومتِ پاکستان کے مطابق فضل اللہ سمیت دیگر شدت پسندوں نے افغانستان کے علاقوں کنڑ اور نورستان میں محفوظ ٹھکانے بنا لیے تھے اور وہ وہیں سے پاکستانی علاقوں میں شدت پسندوں کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتے رہے جن میں پشاور میں آرمی پبلک سکول کا حملہ بھی شامل ہے جس میں148 افرادمارے گئے تھے جن میں سے بیشتر بچے تھے۔ افغانستان میں ان کے قیام کے دوران افغان سرحد سے متصل پاکستانی علاقے دیر میں سکیورٹی فورسز پر سرحد پار سے ہونے والے متعدد حملوں میں مولانا فضل اللہ کے گروپ کا نام سامنے آتا رہا ہے۔ پاکستان کی جانب سے گزشتہ کچھ عرصے سے اعلیٰ ترین سطح پر امریکی اور افغان حکام پر افغانستان میں موجود ملا فضل اللہ اور ان کے نیٹ ورک کیخلاف کارروائی کرنے کے مطالبے میں شدت آئی تھی۔ پاکستان میں گزشتہ برس شدت پسندی کے واقعات کے بعد پاکستانی سکیورٹی فورسز نے افغان سرزمین پر موجود شدت پسندوں کے مبینہ ٹھکانوں کو اپنی سرزمین سے نشانہ بنایا تھا اور ان کارروائیوں پر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں بھی اضافہ ہوا۔ بدھ کی رات افغان صوبہ کنڑ میں فضل اللہ امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا اور جہاں وہ تحریک طالبان کا پہلے رہنما نہیں تھاجسے امریکانے ہدف بنایا تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان کا کوئی سربراہ افغان سرزمین پر مارا گیا ہے۔

تازہ ترین