• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا دو بڑی سیاسی جماعتوں سے جانیوالے ’’الیکٹیبلز‘‘ آزمائشی مشق کریں گے؟

اسلام آباد (طارق بٹ )کیا دو بڑی سیاسی جماعتوں سے جانیوالے ’’الیکٹیبلز ‘‘آزمائشی مشق ہی کرینگے؟کچھ کیسز میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی )کیلئے نتیجہ مثبت ہوسکتا ہے۔دوسری طرف پارٹیاں چھوڑ کر جانے والوں میں سے زیادہ تر نے کچھ سالوں میں چار سیاسی جماعتیں بھی چھوڑیں۔تفصیلات کے مطابق کیا دو بڑی سیاسی جماعتوں سے ایک دوسری طاقتو ر قوت میں جانے والے الیکٹیبلز اپنے وقت کو آزما رہے ہیں،کچھ کیسز میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی )کیلئے نتیجہ مثبت ہوسکتا ہے کہ جہاں نئے آنے والے زیادہ مضبوط اور انہیں چیلنج کرنے والے زیادہ طاقتور نہیں ہیں ۔دوسری جانب کچھ کیسز میں یہ امیدوار بالخصوص ایسے علاقوں میں ڈوب سکتے ہیں کہ جہاں سابق وزیر اعظم نوازشریف کا بیانیہ ،احترام اور ووٹ کا تقدس گونجے گا ۔پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی سے تحریک انصاف میں جانے سے متعلق ایک درجن کے قریب صورتیں ہیں۔ایک ،تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور ان کے حامیوں کو 25 جولائی کے عام انتخابات کیلئے تمام منحرف اراکین کیلئے لازمی ووٹ لینا ہونگےتاکہ وزیر اعظم بنا جائے ۔وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی پارٹی میں آنے والے قومی اسمبلی کیلئے درجنوں جیت جانے کی پوزیشن میں ہونگے جہاں وہ اہم عہدہ لینے کے قابل ہونگے ۔اگر ان الیکٹیبلز میں سے اکثریت کو شکست ہوجاتی ہے تو ان کی اینٹی سپیشن بکھر جائے گی ۔دوسرا ،تحریک انصاف اسپانسر کیلئے یہ پوائنٹ بنائے گی انتخابی لڑائی ہر ایک نئے آنے والے کیلئے (سوائے گوجرانوالہ کے امتیاز صفدر وڑائچ کے )پیش کرے گی کہ اس دن کیلئے اپنے حلقوں میں تمام ہی مقبول ہوجائیں۔تیسرا ،یہ پہلی بار ہے کہ تحریک انصاف نے پہلی بار ایک بڑی تعدا د میں الیکٹیبلز کو کھلے ہاتھوں سے قبول کیا ہو ،جو کہ وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کے طور پر جانے جاتے ہیں،ماضی میں انکوائری اور وقت کے بغیر ہی انہیں ٹکٹ دیے گئے ،ان کی حمایت سے پارٹی کی بدنامی ہوئی اور شکایت ملی کہ پرانے محافظ اور نظریاتی لوگوں کو ٹکٹ دینے کے معاملے پر نظر انداز کیاگیا۔چار ،ان منحرف ہونے والوں کی واضح اکثریت 2013 کے الیکشن میں آزادلڑنے والوں کے طور پر منتخب ہوئی اور پاکستان مسلم لیگ (ن)یا کسی اورسیاسی جماعت کا ٹکٹ نہیں لیا یہاں تک کہ اس سے پہلے بھی ایسا نہیں ہوا ۔انتخابات ہوجانے کے بعد یہ زیادہ تر پاکستان مسلم لیگ (ن)میں چلے گئے اور اس کی سادہ وجہ یہ ہے کہ یہ حکومتی پارٹی تھی ۔دوسری جانب ایک اور بڑا فرق اس وقت یہ ہے کہ اس بار ان تمام لوگوں نے تحریک انصاف کا ٹکٹ لیا ہےاور آزاد حیثیت سے الیکشن نہیں لڑ رہے ،اس لیے انہیں تحریک انصاف کیلئے ووٹ لینا ہونگے اور یہ یقینی ہوگا کہ وہ میدان سے باہر نہیں ہیں۔پانچ،کسی خصوصی انحراف کے باوجود پاکستان مسلم لیگ (ن)اپنی بات پر ڈٹی ہوئی ہےاو ر وہ تمام جو آزمائش کے وقت میں ان کے ساتھ کھڑے رہے ہیں انہوں نے اپنے خیال کو تبدیل نہیں کیا اگرچے ان میں سے کچھ نے پارٹی پالیسی پر تحفظات کا اظہار کیا اور پریشانی کی کیفیت بن گئی۔چودھری نثار علی خان کا کیس چھوڑ دینے والوں سے نہیں ہے۔لیکن اب تک سینٹرل پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن )کو نقصان نہیں پہنچا ہےجہاں سے قومی اسمبلی کی 100 نشستیں ہیں۔ چھ، تحریک انصاف میں یہ نئے آنے والے اپنے متعلقہ حلقو ں میں اپنے انفرادیت ووٹ بینک منتخب ہوتے ہیں۔ دوسری جانب نوازشریف وفاداریاں بدلنے والوں کیخلاف مہم چلانے جارہے ہیں اور ان کے علاقوں کا دورہ کرینگے ۔سات،پاکستان مسلم لیگ (ن)کو درجنوں منحرف ہونے والوں سے دھچکا لگا ہے۔سب سے زیادہ جن علاقوں میں اثر پڑا،ان میں ضلع جھنگ جہاں زیادہ تر تمام وفاقی اور پنجاب کے اراکین اسمبلی چھوڑ کر جاچکے اور تحریک انصا ف کا انتخاب کرلیا۔راجن پور اور ڈیرہ غازی خان اضلاع میں بھی اسے نقصان پہنچا ۔جنوبی پنجاب میں صورتحال پریشان کن رہی لیکن رن وے پر ان کے متبادل امیدواروں کو نہیں اتار اگیا ۔آٹھ،تمام سابق وفاقی اور پنجاب کے اراکین اسمبلی اور’پاکستان مسلم لیگ(ن)کے’ الیکٹیبلز ‘‘جو کہ چھوڑ کر پاکستان تحریک انصاف میں جاچکے ہیں ان کا کامیاب الیکشن میں پارٹیوں کو بدلنےکا ریکارڈ ہے۔ان میں سے زیادہ تر نے تو گزشتہ چند سالوں میں چار سیاسی پارٹیاں تبدیل کی ہیں۔نو،پارٹی چھوڑ جانے والوں کو دیکھا جائے تو پاکستان مسلم لیگ نواز سے کوئی منحرف آدھے سے زیادہ پنجاب سے نہیں ملتا ایک ایسا صوبہ کہ جہاں انتخابی لڑائی کا اکھاڑا لگتا ہے۔جانے والے الیکٹیبلز میں سے زیادہ تر چکوال ،گجرات ،گوجرانوالہ ،فیصل آباد ،جھنگ ،خانیوال ،وہاڑی ،ڈیرہ غازی خان ،راجن پور ،بہاولپور ،مظفر گڑھ اور بہاولنگر کے اضلاع سے ہیں۔دس ،جہاں پارٹیوں سے دوسری طرف گئے ہیں کیونکہ اس کیلئے بڑی جدوجہد کی گئی تھی ۔یہ قبل از وقت پاکستان مسلم لیگ (ن)کو ٹارگٹ کرکے کمزور کرنے کیلئے تھا ،یہ ایک کھلا سوال ہے کہ مشن کیسے مکمل ہوا ہے کیونکہ25 جولائی کی لڑائی میں(ن) لیگ سے کسی سیاسی جماعت کیلئے ایک سروے یا الیکشن نظریہ ہوناباقی ہے ۔

تازہ ترین