• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انیس ماہ گزر جانے کے باوجود شام کا منظر نامہ آج بھی جنگ اور مزید جنگ ہے۔ بشار الاسد حکومت شام میں اپنے آپ کو برقرار رکھنے کے لئے جنگی طیاروں، ہیلی کاپٹروں، توپوں کی بے رحم بمباری اور شبیہا ملیشیا پر انحصار کررہی ہے۔ اپنے ہی عوام کو نہ صرف روزانہ کی بنیاد پر بے دردی سے قتل کیا جارہا ہے بلکہ تباہ کن جراثیمی اور کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے اشارے بھی دیئے جارہے ہیں۔ اب تک 30ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ، 28ہزار لاپتہ اور ڈیڑھ لاکھ باشندے مصر میں پناہ حاصل کرچکے ہیں۔ صرف پچھلے ایک مہینے میں 95ہزار شامی پناہ گزین ہوئے ہیں۔ بشار حکومت کی مضبوطی اور رٹ ثابت کرنے کے لئے ممنوعہ کلسٹر بم بھی استعمال کئے جارہے ہیں ۔ بشار حکومت سوویت یونین کے بنائے ہوئے کافی پرانے بی کے 50کلسٹر بم استعمال کررہی ہے جو ہدف کے پاس کم ہی پھٹتے ہیں۔ ہفتوں، مہینوں اور کئی دفعہ برسوں اِدھر اُدھر پڑے رہتے ہیں اور شہریوں اور بچوں کی ہلاکت کا باعث بنتے ہیں۔
سوشلزم اور سرمایہ دارانہ نظام کے امتزاج سے امور حکومت چلاتا اسد خاندان گزشتہ چالیس سال سے شام کے اقتدار پر قابض ہے اور بظاہر امریکہ مخالف کیمپ میں ہونے کا تاثر دیتا آیا ہے لیکن دراصل یہ مشرق وسطی میں امریکی مفادات کا نگہبان ہے۔ گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل کے حوالے کرنا ہو یا 1990 میں کویت کی آزادی کے لئے صدام حسین کے خلاف امریکی اتحادی افواج میں شمولیت اسد خاندان کی تدبیر و عمل کا محور امریکہ ہے۔ 2007ء میں جب امریکہ عراق میں انتہائی مشکل حالات میں تھا اور امریکی صدر جارج بش نے مسئلے کے حل کے لئے ایک چھ رکنی کمیٹی بنائی تھی تب اس کمیٹی نے تجویز دی تھی کہ عراق کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے شام کو ایک مرکزی کردار سونپا جائے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے دنیا بھر سے سیکٹروں مبینہ مسلمان دہشت گردوں کو پکڑا جن سے پرتشدد تفتیش کی راہ میں امریکی قوانین رکاوٹ تھے۔ ان مبینہ دہشت گردوں سے تفتیش کے لئے امریکہ نے جن ملکوں پر بھروسہ کیا اور انہیں جن کے سپرد کیا ان میں شام بھی شامل تھا۔ بشار حکومت کے اسی کردار کا نتیجہ ہے کہ شامی عوام کے خلاف تمام تر مظالم کے باوجود امریکہ اس کے خلاف کمزور بیانات اور لاحاصل عملی اقدام تک محدود ہے۔ 30جون کو جنیوا میں عالمی کانفرنس میں خود مختار عبوری حکومت پر اتفاق ہو یا کوفی عنان کا چھ نکاتی منصوبہ یا پھر روس میں ہیلری کلنٹن اور روسی وزیرخارجہ کے درمیان ملاقات یا پھر میکسیکو میں صدر اوباما اور صدر پیوٹن کے رابطے امریکہ مصلحتاً بشار حکومت پر نکتہ چینی کرتا نظر آتا ہے لیکن درحقیقت کبھی عرب لیگ اور بھی بین الاقوامی سیاسی منصوبوں کے ذریعے بشار حکومت کو وقت پر وقت دیتا چلا آرہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ انقلابیوں کو دباؤ میں لانے کے لئے امریکی فوج کے سربراہ جنرل ڈیمپسی کے ذریعے عسکری مداخلت کے آپشن پر بھی بات کرتا نظر آتا ہے لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ امریکی عوام جنگوں سے بیزار ہیں۔ عالمی منظر نامے میں روس بیشتر معاملات میں امریکہ سے متصادم یا مخالف نظر آتا ہے لیکن شام کے معاملے پر روس کا امریکہ کے ساتھ اتحاد اس درجے پر ہے کہ وہ امریکی خواہش پر فرنٹ پر متحرک نظر آتا ہے۔ جبکہ امریکہ اسے نظرانداز کرنے کی کوششوں میں مصروف، اوباما انتظامیہ کا روسی جنگی بحری بیڑے کا شام کی بندرگاہ ٹارٹوس کے دورے کو ایک معمول کی کارروائی قرار دینا اس کا ثبوت ہے۔ روس بشار حکومت کو مستقل اسلحہ، فوجی اور انٹیلی جنس ماہرین اور امداد فراہم کررہا ہے اور اہل شام کے خون کے عوض بین الاقوامی تجارت کی تنظیم WTO، میزائل ڈیفنس شیلڈ پروگرام اور فوجی چیک پوسٹوں کے مقامات کے معاملات میں امریکہ سے مراعات حاصل کررہا ہے۔ حال ہی میں عراق نے روس سے ساڑھے چار ارب ڈالر کے اسلحہ کی خریداری کا معاہدہ کیا ہے جو امریکہ کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ شام کی سخت ترین مشکل سے نمٹنے میں اسلامی ممالک بھی امریکہ کی بھرپور خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان میں سے بعض ممالک بشاور الاسد کا دفاع کرنے اور اس کے متبادل کی تلاش کے لئے سرگرم عمل ہیں ۔ پاکستان ایک طرف روس کو اقوام متحدہ کی قرارداد کے حوالے سے تعاون کی یقین دہانی کراتا نظر آتا ہے تو دوسری طرف بشار حکومت کی حمایت میں پاکستانی وزیر خارجہ ایسے بیان دیتی نظر آتی ہیں کہ شام میں بین الاقوامی مداخلت نہیں ہونی چاہئے۔ سعودی حکمراں شام کے عوام کے لئے قومی چندہ مہم چلانے اور ہنگامی اسلامی کانفرنس سے بڑھ کر کچھ کرنے کے لئے تیار نہیں۔
شام میں خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ بشار حکومت کے انتہائی مظالم اور جرائم کے باوجود بین الاقوامی برادری امریکہ کے ساتھ مل کر بشار حکومت کو باقی رکھنے اور انقلاب کو کمزور کرنے میں مصروف ہے۔ تیونس، مصر، لیبیا اور یمن کے عوام چہروں کی تبدیلی یا مغربی تصور حکمرانی یعنی جمہوریت کو قبول کرکے انقلاب کے اصل مقاصد سے پیچھے ہٹ گئے لیکن شام کے عوام سرمایہ دارانہ نظام کے عالمی طور پر ناکام تجربوں کو اپنے ملک میں اپنا کر ایک بار پھر مسائل کی دلدل میں نہیں اترنا چاہتے۔ اسلام کا مسکن شام اس نئے دور کی ابتدا ہے جس کا دل اول و آخر اسلام کا نظام حکومت ہے۔
تازہ ترین