• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سرتاج وزیر خزانہ کے دور سے ہم یہ سن رہے ہیں کہ پاکستان میں خوشحال افراد ٹیکس دینے سے گریزاں ہے۔ سوال بہت معمولی ہے کہ اس آٹھ نوسال کے عرصے میں حکومت نے اس خرابی کو دور کرنے کا کیا مستقل انتظام کیا۔ ہمارے موجودہ وزیر خزانہ نے بجٹ (12/13) سے قبل مئی 12میں دو اعلان کئے تھے پہلا یہ کہ ملک میں60 ہزار کاروباری ادارے رجسٹرڈ ہیں جبکہ ملک میں کوئی 3ملین ادارے کاروبار میں مصروف ہیں اب ان کو قانونی ضابطے میں لانا ہوگا۔ دوسرے اسٹیٹ بینک کے حوالے سے یہ خوشخبری سنائی تھی کہ ملک میں ملی تہور (دس لاکھ روپے اور اس سے زائد ملکیت والے) کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے تین سال (دسمبر 08 سے دسمبر 11 تک) میں ان کی تعداد میں83 12,0کے اضافے سے 35,509 تک پہنچ گئی ان کے کل اثاثے 2.118 کھرب کے قریب ہیں۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا تجارتی صنعتی اور کاروباری شہر ہے یہاں 1,1500 ادارے کام کررہے ہیں (کالم نگار کی رائے میں یہ تعداد بہت کم ہے) ان میں صرف 80 ہزار ٹیکس ادا کررہے ہیں اور ان میں بھی صرف800 لارج ٹیکس بیرر یونٹ (ایل ٹی ڈی) میں رجسٹرڈ ہیں جبکہ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن نے4,93,000 کاروباری کنکشن دے رکھے ہیں دراصل حکومت کو انکم ٹیکس کی مد میں جو آمدنی ہوتی ہے اس کا بڑا حصہ تنخواہ دار طبقے سے وصول ہوتا ہے جن کا انکم ٹیکس موقع پر وصول کرلیا جاتا ہے۔
حکومت نے اس سال ٹیکسوں کا ہدف 2381/ارب روپے رکھا ہے۔ ہدف کا تعین کرنے والوں کو اس کی وصولی کا تعین نہیں اگر 2100/ارب کی رقم وصول ہو جائے تو بڑا کارنامہ ہوگا ویسے حکومت اس ہدف کو حاصل کرنے میں زیادہ سنجیدگی کا اظہار بھی نہیں کررہی، بس ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے۔ چار مہینے گزر چکے ہیں اور بات ابھی تک تجاویز اور منصوبوں کے ارد گرد ہی چکر لگا رہی مثلاً(1) اسٹوڈنٹ بانڈز جاری کرنے کا خیال جن سے ایک ارب آمدنی متوقع ہے۔ ظاہر ہے کہ طلبہ کی اکثریت کا انحصار ان کے والدین یا سرپرستوں کے سر ہوتا ہے، جو چند طالب علم ٹیوشن، وقتی ملازمت سے کماتے ہیں وہ اپنے تعلیمی اخراجات پر صرف کرتے ہیں ان کے پاس پیسہ کہاں جو وہ بانڈ خرید سکیں۔(2) دوسری تجویز یورو بانڈز کے اجرا کی ہے اس وقت یورپ معاشی بحران سے گزر رہا ہے ایسے میں500 ملین یورو کے بانڈز متعارف کرانے اور پوری متوقع رقم وصول ہونے کی صرف توقع ہی کی جاسکتی ہے۔(3) عالمی بینک اور دوسری سرکاری ایجنسیوں کی مدد سے7.1 ملین ایسے اشخاص کی نشاندہی کی گئی ہے جو عالی شان بنگلوں میں رہائش پذیر ہیں، قیمتی گاڑیاں ان کے زیر استعمال ہیں، جدید ترین ہتھیاروں کے مالک ہیں، سال میں ایک دو چکر یورپ اور امریکہ کا لگاتے ہیں، ان میں سے بعض نے نیشنل ٹیکس نمبر بھی لے رکھا ہے جس کو یہ لائسنس کے حصول اور دوسری مراعات کے لئے استعمال کرتے ہیں مگر انکم ٹیکس نہیں دیتے۔ دارالحکومت میں ایسے افراد کی تعداد 7155، آزاد کشمیر کے دس اضلاع میں 80634، قبائلی علاقوں کی 6/ایجنسیوں میں 47343، بلوچستان کے 30/اضلاع میں 167360، خیبر پختونخوا میں 254190، پنجاب کے 36/اضلاع میں 1408930 اور سندھ کے27 اضلاع میں 1352913 ہے۔ ان سے 50 سے 60/ارب روپیہ ٹیکس وصول کیا جاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے وہ کون سا سبب ہے جو اس محاذ پر خاموشی ہے۔ (4) ایف بی آر کو 3 لاکھ ایسی قیمتی گاڑیوں کا علم ہے جن میں مرسڈیز، ای اے ڈبلیو ٹویوٹا، ہنڈا اور دوسری گاڑیاں شامل ہیں جن کی کسٹم ڈیوٹی ادا نہیں کی گئی، ان کا رجسٹریشن بوگس یا ڈبل ہے، ایسی گاڑیاں کراچی میں 44 ہزار اور لاہور میں 15ہزار ہیں۔ ڈیوٹی اور جرمانے کے ساتھ اوسطاً ہر گاڑی سے7 لاکھ روپے اور مجموعی طور پر210/ارب روپیہ وصول ہوگا۔ پکڑ دھکڑ کا آغاز کیا جانے والا ہے۔ (یہ خبر 16/اکتوبر کے اخبار میں شائع ہوئی تھی۔) کراچی میں تو اب تک کسی کارروائی کا آغاز نہیں ہوا۔(5) کالے دھن کو سفید بنانے اور ٹیکس چوری کی رقم کو جائز بنانے کے لئے ایف بی آر نے ایمنسٹی کی دو اسکیمیں تیار کی ہیں جن کے تحت معمولی سی رقم سرکاری خزانے میں جمع کرا کے لاکھوں روپوں کا ٹیکس بچا لیا جائے گا۔ ابھی یہ اسکیمیں زیر غور ہیں اور وزارت خزانہ کے مشورے سے کسی وقت جاری ہوسکتی ہیں۔ اس سلسلے میں ایف بی آر کے نئے سربراہ کا کہنا ہے کہ ہم مرغی ذبح نہیں کریں گے بلکہ اس کو موٹا کرکے انڈے لیں گے۔ ایسی اسکیمیں پہلے بھی نافذ ہو کر ناکام ہو چکی تھیں ایسی اسکیموں سے دیانتدار ٹیکس ادا کرنے والوں کے اعتماد کو ٹھیس لگتی ہے۔(6) ایف بی آر استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد میں حالیہ ڈیوٹی میں رد و بدل کرنا چاہتی ہے تو جب یہ سوال وزیر خزانہ سے پوچھا گیا تو جواب ملا اس کا وزارت خزانہ سے کوئی تعلق نہیں، یہ اقدام بورڈ آف ریوینو کا ہے جو ایک خود مجاز اتھارٹی ہے اب تک راقم کا یہ خیال تھا کہ ایف بی آر وزارت خزانہ کے ماتحت ہے مگر اب معلوم ہوا کہ وہ ایک خود مختار ادارہ ہے۔(7) اصغر خان کیس کے حالیہ عدالتی فیصلے میں من جملہ اور باتوں کے یہ بھی کہا گیا کہ رقم لینے والے سیاستدانوں کے خلاف تحقیقات کے بعد کارروائی کی جائے اور سود سمیت تمام رقوم واپس لی جائیں۔ ایف آئی اے تحقیقات کرے۔ اس پر وزیراعظم نے خیال ظاہر کیا کہ قومی خزانے سے17کروڑ کی تقسیم کی جانے والی رقم کی پائی پائی وصول کریں گے۔ وفاقی وزیر اطلاعات کا بیان ہے کہ پی پی پی کی موجودہ حکومت کی مدت 18مارچ کو ختم ہو جائے گی لہٰذا پوری کوشش کریں گے کہ یہ معاملہ دو ماہ میں نمٹ جائے۔ اس کو خوش فہمی ہی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے کیونکہ ابھی تو ایک پارٹی نے ایف آئی اے کے بجائے خود مختار کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے پھر اول تو رقوم لینے والے انکاری ہوں گے ان کے خلاف ثبوت پیش کئے جائیں گے، ثبوتوں میں قانونی سقم ظاہر ہوگا اور اکثر ملزم الزام سے بری ہو جائیں گے۔ یہ اور بات ہے کہ کوئی رضا کارانہ رقم واپس کردے جس کا امکان زیرو فیصد ہے۔
مندرجہ بالا حالات کے پیش نظر شبہ ہوتا ہے کہ وزارت خزانہ/ایف بی آر بااثر اور صاحب اقتدار نادہندگان سے ٹکر لینے سے گریزاں ہے وہ معاملات کو ٹال رہی ہے تاکہ انتخابات تک معاملات یونہی التوا میں پڑے رہیں اور نئی حکومت، نئی کابینہ اور نیا وزیر خزانہ ان سے نبردآزما ہو۔ اس درمیان میں عوام پر کیا بیتتی ہے اس کا کسی کو رتی بھر احساس ہی نہیں۔
تازہ ترین