• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب قاف لیگ سے بھی ہاتھ ہو گیا ہے ، یہ بڑی اونچی اڑان کر رہی تھی کہ آئندہ عام انتخابات کے بعد پنجاب کی چیف منسٹری اس کے نامزد نوجوان کو ملے گی۔ یہ خواب چکنا چور ہو تا نظر آرہاہے ۔ اس نے صدر آصف علی زرداری کو یقین دہانی کرا رکھی تھی کہ وہ نو ن لیگ کو افراتفری کا شکار کرکے الیکشن میں بہت اچھی کارکردگی دکھائے گی ۔ مگر اب اس کی امیدوں پر پانی پھر گیا ہے اور اس میں بقول اس کے ایک سینئر لیڈر کے صف ماتم بچھی ہوئی ہے ۔ اس کی یہ پریشانی منظور وٹو کی بطور صدر پیپلزپارٹی سنٹرل پنجاب نامزدگی نے پیدا کی ہے جس کے یقینا ًذمہ دار صدر زرداری ہیں کیونکہ انہوں نے ہی منظور وٹو کو الیکشن سے چند ماہ قبل میدان میں اتارا ہے ۔ اپنی پروموشن کے فوراً بعد منظور وٹو نے اپنے آپ کو اگلے وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر پیش کیا ہے اور ان کی ساری مہم اس مقصد کے حصول کے لئے ہے ۔ انہیں جو ٹاسک دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ قاف لیگ نون لیگ اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) سے زیادہ سے زیادہ لیڈروں کو توڑ کر پیپلزپارٹی میں شامل کریں ۔ خاص طور پر ایسے رہنماؤں کو لیں جو الیکشن جیت سکتے ہیں ۔تاہم ان کی کوششوں سے صرف قاف لیگ میں ہی کھلبلی مچی ہوئی ہے اور اس نے فوراً احتجاج شروع کر دیا ہے ۔ اس نے اپنے غصے کا اظہار صدر زرداری سے بھی کیا ہے جنہوں نے اسے کچھ تسلی تشفی کرا ئی ہے۔ منظور وٹو کی مہم کی وجہ سے پیپلزپارٹی اور قاف لیگ کا اتحاد کافی خطرات کا شکار ہو گیا ہے ۔ اگر صدر کو یہ الائنس قائم رکھنا ہے تو یا تو انہیں منظور وٹو کو ڈسپلن کرنا ہو گا جبکہ قاف لیگ کا مطالبہ ہے کہ انہیں سرے سے ہی پنجاب کے منظر نامے سے غائب کیا جائے یا پھر اتحاد ٹوٹنے کی کڑوی گولی نگلنی ہو گی ۔ اب صدر کو قاف لیگ سے کچھ زیادہ مطلب نہیں رہا لہذا اب وہ اسے استعمال شدہ ٹشو پیپر کی طرح پھینک بھی سکتے ہیں۔ ان کا مشکل وقت گزر گیا ہے یہ اس وقت آیا تھا جب وہ متحدہ قومی موومنٹ کے ہاتھوں کافی زچ ہو گئے تھے لہذا انہوں نے قاف لیگ کو ساتھ ملا کر قومی اسمبلی میں اپنی واضح اکثریت کویقینی بنالیا ۔ اب ایم کیو ایم بھی بڑی خوش ہے کیونکہ اس کا سب سے بڑا مطالبہ یعنی سندھ میں اپنی مرضی کا لوکل باڈیز قانون لانا پورا ہو گیا ہے ۔
قاف لیگ بڑی مشکل میں ہے اس کے لئے پیپلزپارٹی کے ساتھ اتحاد توڑنا بہت ہی مشکل ہے کیونکہ وہ پی پی پی کے بغیر نہ ادھر کی رہی ہے نہ ادھر کی ۔ وہ اکیلے اس پوزیشن میں نہیں کہ آئندہ انتخابات میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل کر سکے ۔ نون لیگ کے ساتھ اس کا اتحاد اب ناممکن ہے کیونکہ آگ دونوں طرف برابر لگی ہے۔ اسی طرح اس کا پی ٹی آئی سے الائینس بھی قطعاً ممکن نہیں ۔ لہذا اسے بادل نخواستہ ہی سہی پی پی پی کے ساتھ ہی الیکشن لڑنا پڑے گا ۔ صدر زرداری قاف لیگ کی اس مجبوری کو خوب سمجھتے ہیں اور اس کا فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں ۔ ان کے لئے شاید ممکن نہ ہو کہ وہ منظور وٹو کو غیر موثر کر دیں کیونکہ ان کی نظریں پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر جمی ہیں جو 1977ء کے بعد پی پی پی کو ایک بار بھی نہیں مل سکی۔ لہذا انہوں نے ہر کام ایسا کرنا ہے جس سے ان کا خواب تعبیر ہو سکے ۔ قاف لیگ ان کے ساتھ رہے نہ رہے۔ منظور وٹو کے ایکشن میں آنے کے فوراً بعد شوشہ چھوڑا کہ قاف لیگ کے امیدواروں کو پی پی پی کے انتخابی نشان تیر پر الیکشن لڑنا ہو گا یہ بات قاف لیگ کے لئے ایک بم شیل سے کم نہ تھی لہذا اس نے اپنا بڑا سخت رد عمل دیا کہ وہ ہر گز ایسا نہیں کر ے گی۔ قاف لیگ اس بات پر بھی سخت ناراض ہے کہ منظور وٹو اس کے بندے توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔منظور وٹو کی موجودہ پوزیشن میں موجودگی اور ان کا فعال سیاسی کردار قاف لیگ اور پی پی پی کے درمیان لگاتار کھچاؤ کی کیفیت رکھے گا ۔ تاہم بھر پور کھینچا تانی اس وقت ہو گی جب اگلے الیکشن کے لئے ٹکٹیں ایوارڈکرنے کا مرحلہ آئے گا ۔ قاف لیگ چاہتی ہے کہ پنجاب اسمبلی کی آدھی سے زیادہ سیٹوں پر اس کے نمائندے مشترکہ امیدوار ہوں جنہیں پی پی پی کی حمایت حاصل ہو۔ اس کا یہ کہنا ہے کہ پچھلے انتخابات میں یا تو اس کے امیدوار ان سیٹوں پر جیتے تھے یا دوسرے نمبر پر آئے تھے ۔ لہذا اگلے الیکشن میں ان کے ہی چانسز زیادہ مضبوط ہیں ۔ مگر منظور وٹو کو یہ بات قابل قبول نہیں وہ تو ہر سیٹ پر پی پی پی کا نمائندہ کھڑا کرنے کا کہیں گے اور قاف لیگ کو چند نشستیں ہی دینے پر رضا مند ہو ں گے۔ منظور وٹو کے پنجاب میں نازل ہونے سے قبل نائب وزیراعظم چوہدری پرویز الٰہی قاف لیگ کو مضبوط بنانے کے لئے ایک موثر کام کر رہے تھے ۔ ان کی کوششوں کی وجہ سے ہی پچھلے چند ہفتوں کے دوران کچھ موثر شخصیات بھی قاف لیگ میں شامل ہوئی تھیں ۔ مگر اب شاید منظور وٹو کی وجہ سے اس طرح کی آمدورفت میں خاصی کمی آجائے گی ۔
منظور وٹو کو پی پی پی میں سب سے اہم صوبائی عہدہ دینا اس جماعت میں قحط الرجال کو ظاہر کرتا ہے ۔ نہ صرف ایک پرانا لیگی اب پنجاب کا صدر بن گیا ہے بلکہ ایک اور لیگی انور سیف اللہ جوسابق صدر غلام اسحاق کے داماد ہیں اب خیبر پختونخوا کا انچارج بنا دیا گیا ہے جو جیالوں کے سینوں پر مونگ دلنے کے مترادف ہے وہ بڑے کرب میں ہیں ۔ انور سیف اللہ کے تقرر کے چند ہفتوں بعد ہی سپریم کورٹ کا فیصلہ جس پر پی پی پی خوشی سے ڈھول بجا رہی ہے بھی آیا ہے جس کے مطابق غلام اسحاق خان نے 1990ء کے عام انتخابات سے قبل ایوان صدر میں ایک الیکشن سیل قائم کیا جس کے ذریعے پی پی پی کے مخالف سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کی گئیں تاکہ پیپلزپارٹی کو ہرایا جاسکے۔ ایک طرف منظور وٹو کی آمد نے قاف لیگ میں افراتفری پیدا کر دی ہے تو دوسری طرف اس نے پی پی پی کے جیالوں کو بھی سخت پشیمان کر دیا ہے ۔تاہم ایک بات جو صدر زرداری منظور وٹو کے بارے میں نظر انداز کر گئے ہیں وہ یہ ہے کہ منظور وٹو یقیناً سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر ہیں مگر وہ کراؤڈ پلر نہیں ہیں ا ور نہ ہی ایک موثر پبلک اسپیکرہیں ۔ وہ جیالوں کو متحرک نہیں کر سکتے اور نہ ہی موثر انداز میں عوامی جلسوں سے خطاب کرسکتے ہیں ۔ان کا پہلا شو جو لاہور کے ناصر باغ میں منعقد ہوا بالکل فلاپ تھا ۔ منظور وٹو جیسے چالاک سیاستدان ایک خاص قسم کے سیاسی سازشی ماحول میں بڑے کمالات دکھا سکتے ہیں مگر جب صحیح معنوں میں کھلے انداز میں سیاست کرنا پڑے تو یہ صرف ناکام ہی ہوتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ نون لیگ میں کتناڈنٹ ڈالتے ہیں ۔ قاف لیگ جس کے بہت سے وزراء پہلے ہی پی پی پی کی ٹکٹیں لینے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ کتنی بااثر شخصیات کو اپنی پارٹی میں لانے میں کامیاب ہوتے ہیں اور پی ٹی آئی کو کتنا نقصان پہنچاتے ہیں ۔ اگر وہ کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکتے تو ان کا تقرر صرف پیپلزپارٹی کو نقصان ہی پہنچائے گا۔ یہ واحد سیاست دان ہیں جن کے بارے میں نون لیگ اور قاف لیگ کی لیڈر شپ برابر کی نفرت رکھتی ہے اس کی وجہ ان کا سیاسی ماضی ہے۔ منظور وٹو صرف اپنی ذات کا ہی سوچتے ہیں نہ کہ اس پارٹی کا جس کے ساتھ وہ منسلک ہوتے ہیں ۔صدر زرداری کے گیمبل کے نتائج کیا ہوتے ہیں یہ تو بعد کی بات ہے فی الحال اس نے ان کے اتحادی قاف لیگ اور اپنے جیالوں میں سخت تشویش پیدا کر دی ہے وہ بھی اگلے انتخابات سے چند ماہ قبل ۔
تازہ ترین