• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انداز بیاں … سردار احمد قادری
امریکہ اور یورپ میں مسلمان خاندانوں کا ایک بڑا مسئلہ اپنے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کا ہے۔ مسلمان معاشرے میں تو بچے ماحول کے اسلامی اثرات کے تحت بہت کچھ سیکھ لیتے ہیں، جگہ جگہ مساجد ہوتی ہیں دینی مدارس ہوتے ہیں جہاں صبح شام کے اوقات میں دینی تعلیم کا انتظام ہوتا ہے لیکن امریکہ اور یورپ میں اس کا خاص طور پر اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ اب تو ان ممالک میں یہاں کے تعلیم یافتہ امام اور مدرس حضرات بلکہ خواتین معلمات بھی دستیاب ہیں پچیس تیس سال قبل امام اور مدرس کا ملنا اور مقامی ضروریات کے تحت ملنا اتنا آسان نہیں تھا۔ بچے انگریزی زبان میں سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن مساجد میں اساتذہ اور امام صاحبان انہیں اردو یا اپنی مادری زبان میں تعلیم دیتے ہیں جس کی وجہ سے رابطے کا خلا (کمیونیکیشن گیپ) پیدا ہوتا ہے اور اس کے اثرات ہمہ گیر ہوتے ہیں۔ آج کل بعض نوجوانوں میں انتہا پسندانہ نظریات کے فروغ کے پس منظر میں ایک وجہ مساجد کے آئمہ حضرات اور نوجوان نسل کے باہمی رابطے کا غیر موثر ہونا بھی ہے۔ 1992ء میں جب پہلی مرتبہ ریاست ہائے متحدہ اور امریکہ گیا تو کیلی فورنیا کے شہر ’’اسٹاکٹن‘‘ کے قیام کے دوران میرے میزبان عبدالشکور خان نے تجویز پیش کی کہ مجھے امریکہ میں کچھ عرصہ قیام کرکے یہاں مسلمانوں کی نوجوان نسل کے لئے ایک دینی نصاب تشکیل دینے میں معاونت کرنی چاہئے اور اس نصاب کے مطابق لیکچرز کا آغاز کرنا چاہئے۔ میں نے وعدہ کرلیا اور بلجیم واپس آکر اس پر غور و فکر شروع کیا اور ایک خاکہ بنایا اپنے تجویز کردہ نصاب سے جب میں نے امریکہ میں اپنے اس دوست کو آگاہ کیا تو اس نے مجھے پھر امریکہ آنے کی دعوت دی اور دو ماہ کے لئے وہاں قیام کرکے اس مجوزہ تعلیمی نصاب کا آغاز کرنے کے لئے اصرار کیا۔ حتیٰ کہ انہوں نے میرے لئے سفر کے انتظامات کرے اور ہوائی جہاز کے ٹکٹ بھجوا دیئے۔ ہوائی سفر کی پرواز ہالینڈ کے ایمسٹرڈیم ائرپورٹ سے نیویارک کے لئے تھی اور جتنا سفر ہالینڈ نیویارک تک تھا اتنا ہی نیویارک سے اگلی پرواز کا تھا جو مجھے سان فرانسسکو لے گئی وہی پاکستان کی طرح گرمیوں کا موسم تھا۔ وہی گہرا نیلا آسمان اور ہر طرف زرعی زمینوں کا منظر تھا۔ سمندر کی لہروں کے اوپر بنائے گئے دنیا کے طویل ترین پلوں میں سے ایک پل سے گذر کر ہم سان فرانسسکو سے سٹاکٹن پہنچے۔ میزبان نے اپنے وسیع و عریض فارم ہائوس کے گیسٹ ہائوس میں میری رہائش کا انتظام کیا ہوا تھا۔ جہاں میرے لئے ضرورت کے لئے ہر چیز مہیا تھی اور میری آسائش کا خصوصی اہتمام کیا گیا تھا۔ آپ دین اسلام کے لئے تھوڑی سی جدوجہد کریں تو اللہ تعالیٰ ہر جگہ آپ کے لئے راحت و آرام کے وافر سامان مہیا کرنے کے لئے وسیلے فراہم کر دیتا ہے ۔عزت عطا کرتا ہے پاکستان سے بارہ گھنٹے کے وقت کے فرق کے اس خطے میں جو سات سمندروں کے پار اجنبی دیس میں واقع تھا۔ مجھے جو خصوصی محبت اور الفت ملی یہ دین کی خدمت کا صلہ تھا۔ ہم نے دین کو کیا عزت دینا ہے۔ دین ہمیں عزت دیتا ہے میرا مجوزہ نصاب آٹھ ہفتوں پر مشتمل تھا اس میں عقائد اسلام، سیرت طیبہ، خلفائے راشدین کا دور، اسلامی تاریخ کے اہم واقعات اور و عبادات و معاملات کے متعلق لیکچرز کا شیڈول تھا۔ لیکچرز کا یہ سلسلہ ایک منظم طریقے سے شروع کیا گیا۔ مجھے کہا گیا تھا کہ میں اس تعلیمی نصاب کی تعلیم کے ادارے کا کوئی نام تجویز کروں۔ چنانچہ میں نے اس کا اسلامک اکیڈیمی آف سٹاکٹن، کیلی فیورنیا، نام تجویز کیا اور اس عنوان کے تحت ہی لیکچرز کے اختتام پر سرٹیفکیٹ طلبا اور طالبات کو اکیڈمی کے نام سے دیئے گئے۔ اسلامک سینٹر سٹاکٹن جہاں یہ لیکچرز ہوئے اس کے ایک حصے کو ان لیکچرز کے لئے مخصوص کیا گیا تھا۔ طلبا کی فہرست میرے سامنے تھی یہ بارہ سے اٹھارہ سال تک کی عمر کے لڑکے لڑکیاں تھیں اور ان کے والدین کا تعلق پاکستان اور عرب ممالک سے تھا روزانہ دو لیکچر ہوتے تھے اور یہ سارے لیکچرز ظاہر ہے انگلش زبان میں تھے طلبا اور طالبات کے زیر اثر میں نے بھی امریکی لہجہ سیکھ لیا تھا پہلا لیکچر صبح دس بجے سے بارہ بجے تک ہوتا تھا اور شام کو پانچ بجے سے سات بجے تک۔ بچوں کو سکول اورکالجوں میں گرمیوں کی چھٹیاں تھیں اس لئے وہ سارا دن کسی بھی وقت حصول تعلیم کے لئے آسکتے تھے ہر لیکچر میں ڈیڑھ گھنٹے کے بعد کچھ وقفہ ہوتا اور آخر میں سوال و جواب کا سیشن ہوتا، چند ہی دنوں میں ان لیکچرز کوعلاقے کی مسلمان کمیونٹی نے سراہنا شروع کردیا۔ کمیونٹی کے سرکردہ افراد شام کو میری رہائش گاہ پرمجھ سے ملاقات کے لئے آجاتے اور رات گئے تک محفل جمی رہتی۔ میرے میزبان مجھ سے ملنے کے لئے آنے والوں کاخوش دلی سے استقبال کرتے اور ان کی تکریم کا اہتمام کرتے ۔ اس علاقے میں مسلمان زیادہ تر خوشحال تھے اور مالی طور پر آسودہ تھے پروفیشنلز یعنی ڈاکٹرز، سائیکالوجسٹ اور اکائونٹنٹ وغیرہ بہت آرام دہ اوروسیع رہائش گاہوں میں رہتے تھے۔ مجھے انہوں نے اپنے گھروں میں بلایا اور اپنے مقامی دوستوں کو بھی مدعو کرکے میری ان سے ملاقات کا اہتمام کرایا۔ لیکچرز کے سلسلے کے آخر میں ایک تحریری امتحان لیا گیا۔ بچے اور بچیوں نے خوب محنت کی اور میری توقع سے بڑھ کر لیکچرز کو توجہ سے سنا اور ان کے نوٹس لئے اور امتحانات میں اچھی کارکردگی دکھائی۔ جس کی بنیاد پر امتیازی پوزیشن لینے والے طلبا و طالبات کو خصوصی انعامات بھی دیئے گئے۔ ان کے والدین کوبھی بلایا گیا تھا۔ اپنے بچوں کو چندہفتوں کے اس تعلیمی نصاب کے تحت اسلامی معلومات سے لبریز دیکھ کر والدین بہت مسرور اور خوش تھے۔ بچوں اور ان کے والدین کے چہروں پر اطمینان اورمسرت کی لہر دیکھ کر میں نےسجدہ شکر ادا کیا اورسمجھا کہ میرا یہاں آنا اور طویل سفر کرنا رائیگاں نہیں گیا اور میری حقیر سی کاوش اور محنت رنگ لائی ہے مقامی کمیونٹی نے اصرار کیا اور خواہش ظاہر کی کہ میں مستقل طور پر کیلی فورنیا رہ جائوں۔ اپنی فیملی کو بلجیم سےلا کر یہاں امریکہ منتقل ہو جائوں لیکن مجھے معلوم تھا کہ میری اہلیہ امریکہ رہائش پذیر ہوئے کے حق میں نہیں تھیں اگرچہ کیلی فورنیا کا پاکستان سے ہم آہنگ موسم اور پاکستانی سرزمین سے مشابہت کے مناظر مجھے پسند تھے لیکن اہلیہ محترمہ کے دلائل بھی وزنی تھے کہ یورپ میں رہتے ہوئے ہم ہنگامی طور پر وطن واپس جانا چاہئیں تو آٹھ گھنٹے کی پرواز کے بعد پاکستان پہنچ سکتےہیں امریکہ کے آخری کونے میں رہائش پذیر ہونے کی وجہ سے پاکستان جانے کے لئے چوبیس گھنٹے سے زیادہ درکارہوں گے اس لئے ہم امریکہ نہیں جائیں گے۔ اس لئے امریکہ میں مستقل طورپر رہنے کا خیال ہی ترک کردیا بلکہ امریکہ اس کے بعد جانا ہی نہیں ہوا۔ لیکن میں اسلامک اکیڈیمی آف سٹاکٹن کیلی فورنیا کے لئے تیار شدہ نصاب انہیں دے کر آیا تھا اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی اورکو یہ لیکچرز دینے اور مسلمان نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت فراہم کرنے کا وسیلہ بنا دیا ہوگا۔
تازہ ترین