• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:واٹسن سلیم گِل…ایمسٹرڈیم
انسانی زندگی کے لئے سب سے زیادہ اہم جُز پانی اور آکسیجن ہے۔ بلکہ سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ زمین کے ارتقائی عمل کے ابتدائی دور میں زمین پر پہلے پانی موجود تھا آکسیجن کی پیدائش بعد میں ہوئی۔ ہم لوگ جو ایمان رکھتے ہیں کہ خداتعالیٰ اس عجیب و غریب کائنات کا خالق اور مالک ہے اسی نے زمین، آسمان، سمندر، چاند، ستارے اور وسیع و عریض کائنات تخلیق کی۔ میں سائنس کو خدا کی طاقت سے جُدا نہیں سمجھتا ہوں بلکہ یہ سمجھتا ہوں کہ خدا نے اپنی مقدس کتابوں میں تخلیق کائنات کے متعلق ہمیں بتایا سائنس اسے تفصیل سے بیان کرتی ہے۔ سائنس بتاتی ہے کہ ہماری زمین کی تخلیق 4 اعشاریہ 5 ارب سال قبل ہوئی۔ 3 اعشاریہ 9 ارب سال قبل ہماری کہکشاں (گیلیکسی) میں کسی زوردار دھماکے کی صورت میں کسی ستارے کی تباہی کے بعد زمین پر شہابیہوں کی بارش شروع ہوئی یہ شہابیے زمین پر اپنے ساتھ کرسٹل کی شکل کے انتہائی چھوٹے ٹکڑے لارہے تھے جو نمک سے بھرے تھے اور زمین پر گرتے ہی مائع شکل اختیار کر رہے تھے۔ تقریباً بیس لاکھ سال تک یہ شہابیے اسی طرح زمین پر گرتے رہے اور آج آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو پانی آپ آج پی رہے ہیں اس کا ایک ایک قطرہ اربوں سال پرانا ہے۔ مگر اب یہ پانی جو کی زندگی کی علامت ہے نایاب ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ انسانی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہے جبکہ دوسری بڑی وجہ ہمارے ماحول میں آلودگی ہے۔ ویسے تو پانی ہماری زمین کے 70فیصد حصے پر محیط ہے مگر پینے کے قابل پانی صرف تین فیصد موجود ہے جو کہ مزید کم ہورہا ہے۔ آج دنیا کی مجموعی آبادی میں ایک ارب لوگ پانی کی شدید قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی پیش گوئی کے مطابق 2030میں پانی کی شدید قلت متوقع ہے اور دنیا کے بڑے بڑے ملک اور شہر اس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ کیپ ٹائؤن، بنگلور، استنبول، بیجنگ، ماسکو، قاہرہ، کراچی اور بہت سے بڑے شہر پانی کی شدید قلت کا سامنا کر سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق 2030 تک تازہ پانی کی طلب 40 فیصد تک بڑھ جائے گی۔ ماحول میں آلودگی ہمارے پانی کو ضائع کر رہی ہے۔ بیجنگ شہر کا 40 فیصد پانی اس قدر آلودہ ہو چکا ہے کہ وہ صنعتی اور زرعی استعمال کے قابل بھی نہیں رہا ہے۔ پاکستان میں خدا تعالیٰ نے وافر مقدار میں پانی فراہم کیا ہے ہمارے پاس دریا ہیں، جھیلیں ہیں گلیشیئرز ہیں، بارشیں ہیں مگر ان آبی وسائل کو زخیرہ کرنے کے لئے ڈیم نہیں ہیں۔ ہم اپنی بدبودار سیاست کی وجہ سے پانی جیسے بیش قیمت خزانے کو سمندر میں غرق کر رہے ہیں۔ بھارت طاس معاہدہ کی خلاف ورزی کی دھمکی دے رہا ہے یاد رہے کہ 1960میں بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم کے حوالے سے ایک معاہدہ ہوا تھا جو سندھ طاس معاہدے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے ضامنوں میں ورلڈ بینک بھی شامل ہے۔ معاہدے کے تحت بھارت کو پنجاب میں بہنے والے تین مشرقی دریائؤں بیاس، راوی اور ستلج کا زیادہ پانی ملے گا بھارت کا ان دریاؤں پر کنٹرول زیادہ ہو گا۔ جبکہ مغربی دریائؤں جن میں جہلم، چناب اور سندھ ہیں کے پانی کا زیادہ حصہ پاکستان کے کنٹرول میں ہوگا۔مگر اب بھارت پاکستان کے پانیوں کو کنٹرول کرنے کے لئے ان علاقوں میں بھی ڈیم بنا رہا ہے جن میں اس کو اجازت نہیں ہے۔ اور بہانہ یہ بنا رہا ہے کہ ہم بہتے پانیوں سے بجلی بنا رہے ہیں ان کو زخیرہ نہیں کر رہے ہیں اس سے پاکستان کے دریا ریگستان بن سکتے ہیں، ان حالات سے نکلنے کے لئے قوم کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمارے بہت سے ڈیم سیاست کی نظر ہوچکے ہیں جیسے کہ کالا باغ ڈیم ہے۔ عوام کو حقیقت بتانے کی ضرورت ہے اور جو لوگ پانی پر سیاست کر رہے ہیں ان کا حقہ بند کریں یا نہ کریں مگر پانی بند کیا جانا چاہئے۔ کراچی کی عوام بوند بوند پانی کو ترس رہی ہے۔ میں پچیس سال قبل جب پاکستان سے نکلا تھا تب بھی یہ ہی حالت تھی جوکہ آج ہے بلکہ مزید ابتر ہو چکی ہے۔ کراچی والے اپنے ہی حصے کا پانی تلاش کرتے ہیں نہیں ملتا تو اپنے ہی پانی کو خرید کر پیتے ہیں۔ اور پاکستان کی کوئی عدالت، کوئی محکمہ کوئی حکومت ان پانی مافیا کے خلاف کچھ نہیں کر سکی ہے جو کراچی کا پانی سر عام بیچ رہی ہے۔ سندھ میں بھی پانی کی کمی کی وجہ سے آم کی فصل خراب ہونے کی اطلاعات ہیں۔ 60 فیصد آم کی فصل خراب ہو گئی ہے وجہ یہ ہی بتائی جارہی ہے کہ فصل کی پیداوار کے لئے پانی کی کمی ہوئی ہے جس سے کروڑوں کی لاگت کے آم خراب ہو گئے ہیں۔آم کی برآمدات سے کروڑوں کا زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ یہاں بھی سندھ حکومت وفاقی حکومت پر الزام لگا رہی ہے کہ انہوں نے سندھ کا پانی کم کر دیا ہے جس سے نہ صرف آم بلکہ دیگر پھلوں کی پیداوار متاثر ہوئی ہے ۔ ہماری حکومتوں کی نالائقیوں کا اندازہ اس بات سے بھی لگائیں کہ محکمہ آبپاشی کا ایک افسر قتل ہوا ہے تو ابھی تک اس کی جگہ کسی دوسرے افسر کو تعینات نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے کسانوں کو پانی کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ میرا اپنا یہ خیال ہے کہ ہماری صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو اپنے سارے منصوبے پس پُشت ڈال کر صرف پانی کے زخیروں کے لئے منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔ چھوٹے بڑے ڈیم بنائیں جائیں، دریائؤں کی صفائی کو ممکن بنایا جائے۔ اس سے پانی کی گنجائش میں اضافہ ہوتا ہے۔ دریائؤں اور نہروں کے کناروں پر درخت لگائے جائیں ۔کیونکہ ان سے کنارے مضبوط ہوتے ہیں اور ان میں شگاف پڑنے کے خطرات کم سے کم ہوتے ہیں۔ پانی زندگی ہے اور خدا کی طرف سے نسل انسانی کے لئے انمول تحفہ ہے اس کی قدر کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے محفوظ کرنے کی ضرورت ہے یہ ہماری آنے والی نسلوں کی امانت ہے۔ کیونکہ آپ کے پاس پانی ہوگا تو زندگی ہوگی۔ زندگی ہوگی تو مستقبل ہوگا۔ ورنہ خدا ہی حافظ ہے۔
تازہ ترین