• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خالصتانی دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے مشرقی پنجاب کے مشہور شاعر پاش کی ایک عہد ساز نظم ’سب سے خطرناک ‘ ہے۔ سلیس اردو میں اس پنجابی نظم کا ترجمہ کچھ اس طرح سے ہے:

محنت (مزدوری) کا لٹ جانا سب سے خطرناک نہیں ہوتا
پولیس کی مارپیٹ ، سب سے خطرناک نہیں ہوتی
غداری اور لالچ کا ملاپ سب سے خطرناک نہیں ہے
جھوٹ کے شور میں، صحیح ہوتے ہوئے بھی دب جانا ، برا تو ہے، سب سے خطرناک نہیں ہے
سب سے خطرناک ہوتا ہے نہ ہونا تڑپ کا
سب سے خطرناک ہوتا ہے ، خوابوں کا مرجانا
یہ نظم مجھے عمران خان اور پی ٹی آئی کے پچھلے چند ہفتوں کے حال احوال دیکھ کر بار بار یاد آئی۔ بنیادی طور پر میں عوام کے اس جم غفیر کا ہم خیال ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا پورا حکمراں طبقہ ہی بد عنوانیوں کا شکار ہے اس لئے اس بنیاد پر کسی بھی سیاسی جماعت کو ترجیح دینا لا حاصل عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں بہت سے دانشوروں کی طرح عمران خان کے قول و فعل کے تضاد کو جاری سیاست کا حصہ سمجھتا ہوں۔ مجھے عمران خان کے الیکٹیبلز کی ایک فوج جمع کرنے پر بھی بہت زیادہ پریشانی نہیں ہے۔ مجھے ان کے کروڑوں روپے کے چارٹرڈ جہاز میں عمرہ پر جانے کا عمل بھی حکمراں طبقے کی ایک چھوٹی سے ادا لگتا ہے۔ مجھے عمران خان کے بارے میں سب سے زیادہ خطرناک ان کی فکری سطح اور جدید ریاست کے اداروں سے مکمل لا علمی لگتی ہے۔
کچھ سال ادھر کی بات ہے کہ عمران خان واشنگٹن میں شوکت خانم اسپتال کی فنڈ ریزنگ کے لئے تشریف لاتے تھے۔ ایسے مواقع پر ہمارے عزیز دوست چوہدری اکبر ناشتے کا بندوبست کرتے تھے جس پر صحافیوں سے ان کی ملاقات کروائی جاتی تھی۔ تب تک ان کی پارٹی مشہور بھی نہیں ہوئی تھی اور نصف درجن صحافیوں کے ساتھ خاں صاحب کھل کر بات کرتے تھے۔ مجھے ان کی بہت سی باتیں معقول بھی لگتی تھیں لیکن ان کی قبائلی علاقوں اور ان کے نظام عدل کو آئیڈیل بنانے سے لگتا تھا کہ وہ جدید ریاست کے اداروں کے ارتقاء کے بارے میں نا بلد ہیں : وہ اس حقیقت سے لا علم ہیں کہ کس طرح اور کیوںقبائلی معاشروں کا جرگہ سسٹم اور جاگیرداری ریاستوں کا پنچائتی نظام جدید عدالتی نظام میں ڈھلنے پر مجبور ہوا ہے۔ اب تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو گئی ہے کہ خود قبائلی علاقوں کے عوام انہی حقوق کے طلبگار ہیں جو باقی پاکستانیوں کو حاصل ہیں اور وہ جدید عدالتی نظام کا حصہ بن کر خوش بھی ہیں اور اس سے فیضیاب بھی ہو رہے ہیں۔
یہ توقع کرنا فطری تھا کہ عمران خان ملک کے سرکردہ سیاست دان کے طور پر ابھرنے کے عمل میں ریاستی اداروں کی تشکیل و ترتیب کے بارے میں کافی گہری شناسائی حاصل کر چکے ہوں گے۔ لیکن انہوں نے بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں جس طرح طالبان کے نظام انصاف کا دفاع کیا اس سے یہ ثابت ہو گیا کہ وہ ذہنی طور پر وہیں کھڑے ہیں جہاں وہ دس پندرہ سال پہلے کھڑے تھے۔ اب تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ دل کی تہوں سے طالبان اور قبائلی نظام کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے بہت سے اقدامات اور عقیدتیں اسی سیاق و سباق میں سمجھی جا سکتی ہیں۔ ان کا مخصوص مدرسے کو کروڑوں کا عطیہ دلوانا اور روحانی پیشواؤں سے سیاسی ہدایات لینا بھی ان کے اسی ذہنی تناظر کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر کوئی بھی فرد ذاتی حیثیت میں اس طرح کے عقیدے رکھتا ہو تو اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے لیکن اگر ایسا شخص کسی قوم کی باگ ڈور سنبھالنے جا رہا ہو تو اس کا معروضی جائزہ لینا شہریوں کا حق ہے۔
عمران خان اپنے مخالفین کو غلط ثابت کرنے کے لئے مغربی ممالک کی جمہوریتوں کا اکثر ذکر کرتے ہیں۔ لیکن وہ شاید یہ جاننے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ یورپ اور امریکہ میں جمہوری ریاست اور اس کے مختلف ادارے تخلیق کرنے کے لئے کتنے زیادہ فلسفیانہ مجادلے ہوئے اور کس طرح سے جاگیرداری سیاسی ڈھانچوں کو تبدیل کرکے جدید ریاست کی بنیادیں رکھی گئیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مغربی جمہوری ممالک میں سیاسی رہنماؤں، قانون سازوں اور خود عوام کی ایک ذہنی پختگی ہوتی ہے جس کی وجہ سے ایک مخصوص نظام ترتیب پاتا ہے۔ اگر کسی معاشرے میںریاست کے اداروں کے بارے میں سیاسی پختگی نہ ہو تو وہ بادشاہی دور کی اقتدار کی چھینا جھپٹی ہو جاتی ہے۔
پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ مذکورہ سیاسی سادہ لوحی عمران خان تک محدود نہیں ہے۔ ان کی سب سے بڑی مخالف پارٹی مسلم لیگ (ن) کے اقدامات سے بھی یہی لگتا ہے کہ وہ حکمرانوں کے ایک مخصوص ٹولے کے لئے اقتدار کی جنگ لڑرہی ہے۔ ان کا ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ علامتی سطح پر نظام کی تبدیلی کا اظہار بھی سمجھ لیا جائے تو اس امر کا کیا جواز ہے کہ خواتین کے لئے مخصوص نشستیں بیویوں، بیٹیوں ، بھانجیوں اور بھتیجیوں میں بانٹ دی گئیں۔ مسلم لیگ (ن) کے معاشی اور سماجی ایجنڈے پر غور کریں تو اس میں کچھ بھی نیا نظر نہیں آتا۔ مسلم لیگ (ن) کی فکری بنیادیں بھی کافی سطحی ہیں اور اس کے ساتھ دانشوروں کا ایسا گروہ شامل نہیں ہے جیسے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ تھا۔غرضیکہ آج کی سیاست کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ہر سیاسی پارٹی کا سرکردہ رہنما اس ذہنی سیاسی وسعت سے عاری ہے جس سے قومیں نئے خواب دیکھتی ہیں اور ان کو حقیقت میں ڈھالنے کے لئے جدو جہد کرتی ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین