• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی بنتی سیاسی تاریخ کی اس حقیقت کی تو حتمی تصدیق ہو گئی کہ خان اعظم، عمران خان گزرے عشرے کے پارلیمانی نہیں تو حقیقی اپوزیشن لیڈر ثابت ہوئے۔ خان صاحب، خان اعظم یوں کہ انہوں نے 22سالہ سیاست میں پہلا انتخابی معرکہ خیبر پختونخوا میں مارا۔ وہاں حکومت بنائی اور اسفند یار ولی اور مولانا فضل الرحمٰن کی اسٹیٹس کو کی سیاست کی چولیں ہلا دیں۔ تبدیلی کے نعرے کے ساتھ پی پی اور ن لیگ کی بدترین گورننس کی حامل وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی اپوزیشن خان اعظم نے جس بے رحمی سے کی وہ اسٹیٹس کو کی روایتی سیاسی قوتوں کے خلاف ناگزیر تھا، وگرنہ تبدیلی فقط نعرہ ہی ہوتا۔ تبدیلی کا رنگ عوام الناس اور مقابل سیاسی جماعتوں کو نظر تو آنا چاہئے تھا۔ وکلاء کی قومی بن جانے والی انتظامیہ کی مداخلت اور اثر سے آزاد عدلیہ کا قیام، پھر دونوں کرپٹ وفاقی حکومتوں کے متوازی جیوڈیشل ایکٹوازم اور عمران کی جارحانہ اپوزیشن کی تائید خداوندی بذریعہ پانامہ کے قدرتی محرک سے ہوئی تو سندھ میں پی پی کی مہا بدعنوان حکومت ایسا سیاسی محرک عامل بنی کہ وفاقی اور قومی سیاسی قوت سے پی پی دیہی سندھ کی پارلیمانی جماعت تک محدود ہو گئی جبکہ صوبے کی شہری پارلیمانی طاقت قیادت اپنے پیروں پر کلہاڑیاں چلانے سے زخمی بھی ہوئی اور تقسیم بھی اوپر سے پانامہ لیکس جیسا دھماکہ جو خان کے لئے عامل ثابت ہوا، جس کا داخلی سیاست کے کسی بھی پہلو سے کوئی بھی تعلق نہ تھا اور اب بے پناہ ہو گیا۔ اس کی پہلی اور سب سے جامع تشریح بڑی جرأت مندانہ اور بزرگانہ دانش سے بزرگ مملکت صدر پاکستان جناب ممنون حسین نے یہ کہہ کر کی کہ پانامہ تو آسمان سے ہوا نزول ہے۔ وما علینا اللہ البلاغ۔ میاں صاحب کا دربار تو نہ مانا۔ یہ کونسا اکبر اعظم کا دربار تھا جس میں ایک سے بڑھ کر ایک عاقل و بالغ درباری تھا۔ اِدھر تو خطرہ اقتدار والے ابلاغی معاون سے رہا جو جمع ہو کر سرکاری ملازمتوں پر مشتمل ’’مغل اعظم‘‘ کا دربار بنا جس کے درباریوں نے ثابت کیا کہ وہ اکیلے حکومت و قیادت کو ہی ڈیزاسٹر نہیں کرنے دیں گے بلکہ خود ایک سے بڑھ کر ایک (ڈیزاسٹر) کرنے میں کمال مہارت رکھتے ہیں۔ لہٰذا پرائم منسٹر ہائوس میں آئوٹ آف دی وے بنے میڈیا سیل اور دوسرے ’’ابلاغی معاونین‘‘ نے اپنے اپنے بھاری مسودوں کے باوجود، جس طرح پہلے سے اور خود بھی بھٹکے حکمرانوں کو کنویں کی طرف دھکیلا، انجام کے بعد وہ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے میڈیا اینڈ کمیونی کیشن اسکالرز اور اسٹوڈنٹس کی تحقیق و مطالعے کے لئے کلاسیکل کیس اسٹڈی بن گئی ہے۔ 

قارئین کرام! یہ ہے وہ پس منظر جس نے آج خان اعظم کے اپنے کتنے ہی ڈیزاسٹرز کے باوجود ان کا رخ واضح طور پر منجانب حکومت کر دیا ہے۔ اس سے بڑھ کر عمران خان کے اقتدار میں آنے کے اور کیا سازگار حالات ہوتے کہ یا انہیں مخالفین کے اپنے ہی لیڈر اور اتحادی قائد کو گڑھوں کا رخ کرانے میں سارے ابلاغی معاونین اور اتحادی بیک وقت سب یک زبان ہو گئے جب نواز شریف نے مہلک بیانئے گھڑے یا ان کے نئے نظریاتی ساتھیوں نے ان کے زبان میں ڈالے لیکن جس طرح درباریوں نے اپنا مکمل Confirmist(ہر بیانئے کے تائید کنندگان) ہونا ثابت کیا اس نے تین مرتبہ وزیراعظم بننے والے مقبول لیڈر کو کس بری طرح سیاسی زخمی کیا، اس کا اندازہ میاں صاحب خود تو کیا کریں گے دور دور تک ان کے ’’قافلہ وفاداراں‘‘ میں ایک بھی تو ایسا نہیں جو اس کا تجزیہ کر کے انہیں دے، ہے تو اس میں اتنی جرأت نہ تھی جس میں تھی وہ گمراہی میں نثار ہونے کے لئے تیار نہ ہوا۔ اب اپنی چودھراٹ کے زور پر آزاد میدان میں اترنے کے لئے تیار۔
ن لیگی قیادت اور درباریوں کے مشترکہ ڈیزاسٹرز نے کس طرح عمران کو راہ اقتدار پر ڈال دیا اور میاں صاحب اور ان کے شاہی خاندان کو حکومت سے نکال کر گڑھوں کی جانب دھکیل دیا وہ کھلے راز ہیں لیکن پڑھنے پھر بھی نہ آئے، اَڑنے کو ہی راہ نجات جانا ہے تو انتخاب میں بھگتنا بھی پڑے گا۔ یوں کہ
پانامہ نازل ہونے پر نہ پارلیمان میں بحث کرا کر بذریعہ کِتھارسسز اپوزیشن کے دل کا غبار نکالا جاتا نہ ہی اپنے ہی ماتحت ریاستی تحقیقاتی اداروں (نیب، ایف آئی اے، ایف بی آر) اور سیکورٹی ایکسچینج آف پاکستان کو اپنے آئینی کردار کے لئے مطلوب ہدایات دیں۔ تبدیلی وقت سے بے پروا ظفر حجازی اور قمر الزماں جیسے تابع بابوئوں کو بھی جسٹس قیوم ملک جیسا ’’کام کے بندے‘‘ جانا گیا۔ وہ تھے تو سہی، لیکن صورتحال کچھ اور تھی۔
عدلیہ اور اپنے سیاسی خالق کو جس تواتر سے دھمکایہ اور کوس کوس کر دشمنان پاکستان کی معاونت کی گئی۔ کیا ووٹروں کی انتخابی عدالت میں وہ پاکستانی ووٹرز، جن کے ووٹ کو چند ہفتے کی جھوٹی عزت تو ملتی ہے، لیکن حکومت دس شکلوں میں ان (ووٹرز) کی اپنی مسلسل تذلیل روکنے میں مسلسل بے ایمان رہی ہو، وہ ن لیگ سے حساب نہ چکائیں گے۔ اور تو اور جس مکاری سے آئین کے مندرجات اور جتنے متفقہ اور حساس مندرجات پر عین چوروں کی طرح سرقہ ڈالنے کی ناکام کوشش کی، اس سے کروڑوں پر مشتمل مذہبی مزاج اور (مختلف بھی) ووٹروں پر کوئی اثر نہیں پڑا؟ یہ تو اب انتخابی نتائج بتائیں گے پھر ممبئی حملے والا زہریلا بیانیہ۔ اس کے زہریلے اثرات کو ختم کرنے کے لئے پاکستانی ووٹرز پولنگ ڈے پر اپنے ووٹروں سے تریاق کشید نہیں کریں گے؟ ضرور کریں گے اور یہ جوہر ہی سرکاری ادارہ کرپشن اور بدترین انتظامی کی نشاندہیوں اور بے حساب اللے تللوں سے پورے دور اقتدار میں اٹا رہا اور آخری سال میں اپوزیشن اور میڈیا کی سخت تنقید پر ن لیگیوں کا رخ قدرے صحت و تعلیم کی طرف موڑا گیا، اس پر ووٹرز جنہیں دوائی علاج اور پانی و صفائی کے لئے ترسا دیا گیا۔ وہ کیا پولنگ ڈے پر گھر بیٹھے رہیں گے اور جس طرح تباہ کن ناقابل برداشت قرضوں کا بوجھ قوم کے ایک ایک فرد پر لادھ کر ن لیگی حکومت گئی ہے اس مالی تباہی پر پاکستانی عوام کیا بہت خوش ہیں؟ اس کا جواب 25جولائی کو ملنا ہی ملنا ہے۔
یہ ہیں وہ سیاسی عوامل جنہوں نے عمران خان کی اپنی جدوجہد سے زیادہ ن لیگ نے خود ہی اپنے (شریف خاندان) کے احتساب پر فوکس کرنے والی تحریک انصاف کی قیادت کو الیکشن 18میں انہیں جیت کے قریب کر دیا ہے۔ جبکہ عمران کے اپنے کتنے ہی ڈیزاسٹر کے باوجود ان کی نیک نیتی، مالی دیانت اور عوام میں ن لیگ سے عشرہ کفارہ میں ہونے والی حتمی مایوسی نے خان کا رخ واضح طور پر حکمرانی کی جانب کر دیا ہے۔ یوں بھی ایک سوچ عام ہو رہی ہے حتیٰ کہ ان میں بھی، جنہیں خاں صاحب نے کتنی ہی بار مایوس کیا، کہہ رہے ہیں اب ایک بار تو خان کو موقع دینا چاہئے خود خان صاحب بھی سفر اقتدار پر چلتے چلتے گڑھوں میں گرے ہیں گر رہے ہیں اور نکل رہے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ وہ حکومت میں آ کر انہیں ختم کر پائیں گے۔ اس کے لئے اور بے پناہ عوامی توقعات اور شدید ملکی ضروریات میں انہیں کیسے چلنا ہو گا؟ یہ الگ اور ہمہ گیر موضوع ہے۔ اس پر بھی بوقت بات چلے گی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین