• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مقدمات، الزامات، کرپشن کی داستانیں اور ان کا انجام اپنی جگہ، صاف، شفاف، غیرجانبدارانہ انتخابات کا ہونا وقت کی ضرورت، اہم مقدمات کی رفتار فیصلہ کن ہونے کے مراحل ابھی طے ہونا باقی، وقت آئے گا جب سب حقیقتیں کھل جائیں گی پھر راج کرے گی خلق خدا۔قومیں کٹھن مراحل سے گزر کر ہی کندن بنتی ہیں اور ترقی کے راستوں پر کامیابیاں ان کے قدم چومتی ہیں۔ احتساب اور انصاف والے معاشروں میں عوام کسی خوف کا شکار نہیں ہوتے اور بے دریغ اپنی منزلوں کی جانب بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ یہ ہم ہی ہیں جو انصاف کی راہ میں روڑے بھی اٹکاتے ہیں اور انصاف و احتساب کی آڑ میں بہتے پانیوں کو روکنے کی کوشش بھی کرتے ہیں مگر ہم یہ نہیں سوچتے کہ مضبوط معاشرے سچائیوں سے نہیں ڈرتے۔ یہ ہمارا معاشرہ ہی ہے کہ جہاں سارے کام چھوڑ کر چند شخصیات کے احتساب کے انتظار میں پورا نظام زندگی ہی جام کئے بیٹھے ہیں۔ یہ کمزور معاشروں کی نشانیاں ہیں جو فیصلوں کے انتظار میں بیٹھے اپنے بچوں کا مستقبل تباہ کرنے پر تلے ہیں۔ انصاف کون کررہا ہے، احتساب کس کا ہو رہا ہے۔ کون گناہ گار ہے، کون قصور وار، کس کو سزا ملے گی کون جزا پائے گا؟ یقیناً ان فیصلوں کے اثرات تو مرتب ہوں گے۔ گزشتہ پانچ سالہ نواز، خاقان دور حکومت شکوک وشبہات، دھرنوں، احتجاجوں، انصاف و احتساب کے چکر میں گزر گیا۔ نام نہاد ترقی کے پہیے رکتے اور چلتے رہے مگر منزل نہ ملی۔ گڈگورننس کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ملک تاریخی قرضوں کے بوجھ تلے دبتا چلا گیا۔ ڈالر کی اونچی اڑان، پٹرول کی قیمتوں میں بے دریغ اضافہ، مہنگائی کے طوفان نے گویا غریب کو ہی ختم کر ڈالا۔ گزشتہ دور حکومت کے بداثرات جو ’’انجانوں‘‘ کی جھولی میں آ گرے ہیں، ان ’’انجانوں‘‘ کو کیا معلوم کہ ملک کیسے چلانا ہے۔ خود ان کو معلوم نہیں کہ بڑے بڑے امتحانوں میں حکمت سے کیسے نکلنا ہے۔ انجانوں کا مینڈیٹ بڑا محدود ہے۔ وہ ایسے بکھیڑوں میں نہ پڑیں کہ جنہیں سنبھالنا مشکل ہو جائے اوران کی اچھی ساکھ اکھڑنے لگے۔ بڑے خان صاحب کی مالدار شخصیت کے ساتھ عمرہ روانگی زیب داستان کچھ اور ہی کہہ رہی ہے ۔ جہانگیر ترین کو چھوڑ کر ’’نئے جہاز‘‘ کی سواری کا جو شوق بڑے خان صاحب کو چڑھا ہے اور اس سفر پر جو اخراجات آئے ہیں مستقبل میں کیا گھل کھلائیں گے یہ تو اللہ ہی جانتا ہے مگربھوکے ننگے عوام کو ان پیسوں سے دو وقت کی روٹی مل جاتی اور سادگی سے حاضری دے آتے تو اللہ بھی خوش ہوتا اور عوام بھی۔ خان صاحب اقتدار میں آنے کے بعد بس ذرا ہمارا خیال رکھیئے گا، غریبوں کے جذبات سے مت کھیلئے گا، آپ ہی ہماری امیدوں کا سہارا بننے جارہے ہیں مگر اتنا تو خیال کیجئے کہ جب شاہی سواری بمعہ پانچ ہم رکابوں کے نکلے گی تو غریبوں کے دلوں پر کیا چھریاں چلیں گی۔
اہل سیاست کی اپنی ہی منطق ہے۔ ان کے وضع کر دہ اصول و ضوابط ان کے مفادات کے تابع ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف میں ایک سے بڑھ کر ایک عمران خان کا وفادار موجود ہے۔ اور مانگے تانگے کے درجنوں زیرک سیاست دان جو اڑتی چڑیا کے پر گننے کا ہنر جانتے ہیں مگر علیم خان اور ان کی اہلیہ محترمہ کو ہی کیوں نجی طیارے پر عمران خان کے ساتھ عمرے کی سعادت حاصل ہوئی۔ آخر ان میں ایسی کون سی خاص بات ہے کہ پارٹی میں مخالفت کے باوجود ان کی بات کو اہمیت دی جاتی ہے، جی ہاں! وہ خاص بات ہے ان کی بے شمار دولت۔ جہانگیر ترین کی عدالت سے نااہلی کے بعد پی ٹی آئی میں عمران خان کی نظر میں علیم خان کا قد مزید اونچا ہوگیا ہے، انہوں نے ٹکٹوں کی تقسیم میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے جس پر پارٹی میں شدید اختلافات بھی پیدا ہوچکے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ اس سیاسی نظام میں وہی آگے بڑھ سکتا ہے جس کی جیب بھاری ہو۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ پی ٹی آئی یہ شور مچائے نہیں تھکتی تھی کہ نوازشریف اورمریم نواز کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں۔ بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کی ہوا چل پڑی ہے، مگر عمران خان تو انتخابات سے پہلے ہی حکومت سنبھال بیٹھے ہیں۔ وفاق اور صوبوں میں انجانوں پر اب یہ ذمہ داری آن پڑی ہے کہ وہ شفافیت اور غیر جانبداری کا معیار کیا رکھتے ہیں۔ غیرجانب داری اور شفافیت کے سلسلے میں نگران حکومت پہلے ہی قدم پر ناکام ہو چکی ہے تو اس کو سونپی جانے والی سب سے بڑی ذمہ داری شفاف اور آزاد انتخابات کے لئے اس سے کیا توقع رکھی جاسکتی ہے۔ ہمارے ہاں سیاست میں کوئی بھی چیز حتمی نہیں۔ یہ جہانگیر ترین کی ہی قسمت بری تھی جو خان صاحب کی محبت میں اپنا سیاسی مستقبل گنوا بیٹھے۔ اب انہیں سمجھ آجانی چاہئے کہ چارٹرڈ جہاز کے لئے ’’ترین‘‘ نہ سہی کئی ’’بہترین‘‘ لائن میں لگے بیٹھے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین