• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب واپسی کا سفر شروع ہے۔ مجھے کینیڈا میں کافی دن ہونے کو ہیں۔ کینیڈا کے بڑے صوبے انٹاریو (Ontario)میں صوبائی انتخابات بھی مکمل ہوچکے ہیں۔ ادھر پاکستان میں مسلم لیگ نواز اپنے پانچ سال مکمل کرکے آئندہ انتخابات کی تیاری میں مصروف ہے۔ چاروں صوبوں میں عبوری حکومتیں بن چکی ہیں اور میرے کینیڈا کے دوست احباب تارکین وطن ان انتخابات کے حوالے سے خاصے بے چین نظر آتے ہیں اور خاصے لوگ پاکستان آنے کو تیار ہیں مگر ان کا مسئلہ ہے کہ کیا انتخابات مقررہ وقت پر ہوسکیں گے؟ اورپھر تمام تارکین وطن پاکستانی جن سے میری ملاقات رہی، وہ سپریم کورٹ کے اقدامات سے خوش نظر آتے ہیں۔ ان کے نزدیک پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے اور اگر سپریم کورٹ نے کسی کو سزا سنادی اور اس پر عمل ہوگیا تو ملک کی حالت بدل سکتی ہے۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ اب اگلے سال جب کینیڈا میں انتخابات ہوں گے تو کس کو ووٹ دیں گے، تو تقسیم واضح طور پر نظر آتی ہے۔ اس وقت لبرل پارٹی کی حکومت ہے۔ کینیڈا کے وزیر اعظم نے ابھی چند دن پہلے امریکی صدر ٹرمپ سے اختلاف رائے کیا اور کینیڈین اپنے وزیر اعظم سے خاصے خوش نظر آتے ہیں۔کینیڈا میں جی سیون (G-7)سربراہ اجلاس تلخی کی نذر ہوگیا ۔ جی سیون کے اہم ممالک جرمنی اور فرانس نے بھی امریکی صدر ٹرمپ کی تنقید کا برا منایا اور کینیڈا کے اندر بھی لوگ امریکی صدر کے طرز عمل کو پسند نہیں کررہے ہیں۔ اس وقت تمام اہم امریکی تجارتی ادارے کینیڈا میں بہت کاروبار کررہے ہیں اور ان کو امریکہ کے مقابلہ پر زیادہ منافع بھی مل رہا ہے مگر امریکی صدر کے حالیہ بیانات نے سب کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ سے سنگاپور میں ملاقات سے پہلے کینیڈا کے وزیر اعظم کو کوئی اختلافی بیان نہیں دینا چاہئے تھا۔ ان کے اختلافی بیان سے امریکی طاقت پر سوال اٹھایا جاسکتا ہے مگر اب جبکہ شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ امریکی صدر سے کامیاب ملاقات کرچکے ہیں اور مشترکہ اعلانیہ بھی آچکا ہے جس کے مطابق وہ جوہر ی اسلحہ میں کمی پر تیار ہے مگر امریکی شمالی کوریا کو جوہری طاقت سے دست بردار کرنا چاہتے ہیں۔ کینیڈین اس ساری صورتحال میں اپنے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ یہی سیاسی صورتحال کینیڈین سیاسی حلقوں کے لئے بھی تشویشناک نظر آرہی ہے۔
روانگی سے ایک شام پہلے کوشش کی کینیڈا میں پاکستانی ہائی کمیشن طارق عظیم سے ملاقات ہوجائے۔ ان کے اسٹاف نے اس سلسلے میں مایوس ہی کیا۔ دوسرے پاکستان میں نواز لیگ کی حکومت کے جانے کے بعد ہمارے ہائی کمشنر عوامی مجالس میں آنے سے کتراتے ہیں ۔ مجھے ان کے دوست تاثیر مصطفیٰ نے تاثر دیا تھا کہ وہ تارکین وطن کے لئے بہت کام کررہے ہیں مگر کچھ ایسا ہوتا نظر نہیں آیا اور ہمارے اکثر پاکستانی اپنے سفارتخانہ کے لوگوں سے خوش نظر نہیں آئے۔ کچھ بہت ہی امیر پاکستانیوں سے بھی ملنے کا حسن اتفاق ہوا۔ یہ امیر کبیر پاکستانی اپنی پہچان پاکستان کے حوالے سے نہیں کراتے اور نہ ہی کسی پاکستانی تقریب کا حصہ بنتے ہیں۔ ان لوگوں کا اپنا کلب ہے اور یہ اپنی زندگی گزارتے نظر آتے ہیں۔ ان کے عزیز و اقارب اب بھی پاکستان کی اعلیٰ نوکر شاہی، سیاسی اشرافیہ اور اعلیٰ کاروباری لوگوں کے ساتھ کینیڈا آتے جاتے نظر آتے ہیں اور پاکستانی فوج اور سیاست ان کے لئے بیرون ملک سب سے اہم معاملہ ہے اور وہ پاکستان کے بارے میں رائے دینے کے بجائے مجھ سے زیادہ معلومات لینے کی کوشش کرتے رہے۔کینیڈا کے چند صوبوں اور کچھ شہروں میں جانے کا اتفاق بھی ہوا اور مجھے ہر جگہ پاکستانی تارکین وطن نظر آئےا ور ان میں سے زیادہ لوگ نوکری پیشہ تھے۔ کچھ لوگ کاروبار بھی کررہے ہیں اور کاروبار کی وجہ سے ان کی مالی حالت بہتر نظر آتی ہے۔ اکثر لوگوں کو اپنے بچوں کے حوالے سے اسکولوں کا مسئلہ ہے۔ دینی اور اسلامی تعلیم کے حوالے سے لوگ اپنی سی کوشش تو کررہے ہیں، اکثر شہروں میں اردو کے اخبار بھی مل جاتے ہیں مگر یہ سب اخبار مفت میں تقسیم ہوتے ہیں۔ ان اخباروں کی مدد کے لئے سرکار اشتہار دیتی ہے اور کمیونٹی کے لئے ایسے اخباروں میں مقامی خبروں کو حیثیت اور اہمیت بھی دی جاتی ہے اور پاکستان کے بارے میں خبریں پاکستانی اخباروں سے کٹ پیسٹ کے ذریعے لگائی جاتی ہیں اور پڑھنے والوں کی تعداد مسلسل کم ہورہی ہے۔ پھر پاکستان کے اکثر اردو اخبار اب نیٹ پر دستیاب ہیں۔ لوگ ان سے زیادہ مستفید ہوتے ہیں۔ اکثر پاکستانی گھروں میں ڈرامہ چینل زیادہ دیکھے جاتے ہیں اور ان کا اثر ان کے خاندانی معاملات پر بھی نظر آتا ہے۔مجھے واپسی کے لئے اپنی سیٹ بک کروانا تھی۔ میں نے پی آئی اے سے رابطہ کی کوشش کی۔ ٹول فری نمبر سے کئی بار کوشش کی مگر شنوائی نہ ہوئی۔ مجھے جون میں واپس آناتھا، مگر میری ٹکٹ پر واپسی جولائی نظر آرہی ہے، میں پریشان ہوں کہ ایسا کیسے ہوگیا۔ پھر میں نے پی آئی اے کے مقامی دفتر سے رابطے کی کوشش کی، پی آئی اے کے کنٹری منیجر سے رابطہ ہوا اور اپنی پریشانی بتائی۔ انہوں نے کسی تعارف کے بغیر میری بکنگ کی تفصیل پوچھی اور کہنے لگے کل تک آپ کی نئی بکنگ ہوجائے گی اور میرا عملہ آپ سے رابطہ کرے گا۔ یہ بڑی حیران کن صورتحال تھی۔ ٹورنٹو سے پاکستان کے لئے ہفتہ میں چار پروازیں روانہ ہوتی ہیں اور مجھے مقامی ٹریول ایجنٹ نے بتایا کہ جب سے امریکہ سے پی آئی اے کا آپریشن ختم ہوا ہے کچھ لوگ امریکہ سے ٹورنٹو پی آئی اے پر جانے کے لئے آتے ہیں اور ہر پرواز پر کافی رش ہوتا ہے۔ اگلے روز ہی پی آئی اے کی طرف سے فون آیا کہ میری سیٹ کنفرم ہے، میرے لئے یہ تجربہ حیران کن تھا۔
میرے آنے سے ایک دن قبل چند دوستوں نے ملاقات کیلئے وقت مانگا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ کسی اچھے طعام خانہ میں ڈیرا لگایا جائے۔ چند احباب تھے اور پاکستان کی باتیں تھیں۔ چاروں صوبوں میں عبوری حکومتیں بن چکی تھیں اور صوبائی اور مرکزی وزیروں کا انتخاب ہوچکا تھا۔ اکثر احباب پاکستانی سیاست پر بات سننا چاہتے تھے۔ میں نے دوستوں کو بتایا کہ میں پنجاب کے عبوری دور کے وزیر اعلیٰ جناب پروفیسر حسن عسکری کو جانتا ہوں۔ وہ میرے ساتھ ایک عرصہ تک امریکی اردو اخبار پاکستان پوسٹ میں کالم لکھتے رہے ہیں۔ سادہ منش انسان ہیں، انہوں نے کئی سال پہلے ایک کتاب بھی لکھی تھی، ملٹری اینڈ پولی ٹیکس ان پاکستان Military and Politics in Pakistanاس کو پاکستان کے مشہور اشاعتی ادارے سنگ میل نے شائع کیا ہے۔ اس تناظر میں وہ ایک قابل اعتبار شخصیت ہیں۔ ان کی کابینہ کے بارے میں پوچھا گیا، ان میں شوکت جاوید سابق اعلیٰ پولیس افیسر ہیں۔ ضیا حیدر رضوی کامیاب وکیل ہیں، ظفر محمود نوکر شاہی کے اعلیٰ افسر تھے اور ایک ناول کے مصنف بھی ہیں۔ ڈاکٹر جواد ساجد خان دل کے مشہور سرجن اور انسان دوست انسان اور ہمارے بابا جی اشفاق کے عزیز دار ہیں۔ وقاص ریاض صاحب میری طرح کے کالم نویس اور ایک عرصہ تک نیویارک میں اردو اخبار نکالتے رہے۔پنجاب کابینہ کے تمام لوگ سادہ اور غیر سیاسی ہیں، دوست پوچھنے لگے سب لوگ آپ کے واقف ہیں تو آپ کو کون سی سیٹ مل سکتی ہے۔ مجھے انکی بات پر قہقہہ لگانے کا موقع مل گیا اور بات ٹل گئی، مگر دوستوں کا اصرار تھا کہ نواز شریف کے بارے میں بات کروں، مجھے بتانا پڑا کہ نواز شریف اپنی سیاست صرف پنجاب میں کررہے ہیں اور ان کے خلاف مقدمات کا فیصلہ آنے کے بعد ان کو ایسی سیاست کرنا مشکل ہوجائے گی۔ پاکستان کی مالی حالت بہت خراب ہے اور سرکار کو بہت ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، بظاہر کی ترقی اور روشن نظارے قابل اعتبار نہیں مجھے ایک شعر یاد آیا
وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت
میں اس گلی میں اکیلا تھا اور سائے بہت
پھر لوگ کپتان عمران خان کی سیاست اور انتخاب کا پوچھنے لگے۔ مجھے ان کے با رے میں زیادہ معلوم نہیں، میں بھی آپ کے ساتھ کچھ عرصہ سے بیرون ملک ہوں، مگر یہاں کی طرح پاکستان میں بھی ان کا شور بہت ہے وہ اس سخت موسم میں ابر کا ٹکڑا ہیں؎
یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے
تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین