• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاک سعودی تعلقات شخصیات کی بجائے اسٹریٹجک سطح پر آنے لگے

لندن (مرتضیٰ علی شاہ) سیکورٹی تھنک ٹینک رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ (آر یو ایس آئی) نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات گہرے ہو چکے ہیں اور ایک ایسی سمت آگے بڑھ رہے ہیں جہاں تعلقات کو ادارے کی حیثیت دی جا رہی ہے جہاں دونوں ملکوں کے اسٹریٹجک مفادات زیر بحث آ سکتے ہیں۔ تھنک ٹینک کی ویب سائٹ پر جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ یمن کیخلاف سعودی عرب کا ساتھ دینے کیلئے لڑائی میں اپنے فوجی بھیجنے کے معاملے پر دونوں ملکوں کے تعلقات میں مشکلات پیش آئی ہیں لیکن دونوں ملکوں نے اس مسئلے کو حل کر لیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی پارلیمنٹ کی جانب سے فوجی بھیجنے کے مخالفت کے بعد تنازع پیدا ہوا اور اس معاملے پر اٹھنے والے سوالات داخلی مسائل کی وجہ سے سامنے آئے۔ رپورٹ کے مطابق، پاکستان نے یمن ایشو سے دور رہ کر اپنے ملکی مسائل پر توجہ دی اور ایران کے ساتھ نیا محاذ کھولنے سے گریز کیا کیونکہ اس سے ملک میں ایک نیا عدم استحکام پھیل سکتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات رسمی طور پر اداروں اور سعودی بادشاہ سے پاکستان کے وزرائے اعظم تک تعلقات کی بجائے اب مزید گہرے ہو کر اسٹریٹجک ڈومین تک جا پہنچے ہیں جہاں دونوں ملک اپنے اپنے مفادات کا آزادانہ طور پر تحفظ کر سکتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب اب اپنے تعلقات ذاتی تعلقات اور خواہشات کی بجائے اسٹریٹجک پارٹنرشپ پر مرکوز ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں سعودی عرب نے دو اہم وفد پاکستان بھیجے جن کا مقصد تجارتی سرمایہ کاری اور دہشت گردی کیخلاف جنگ دفاعی تعلقات کو مضبوط کرنا اور اسٹریٹجک ورکنگ گروپ تشکیل دینا تھا تاکہ مستقبل میں ترقیاتی تعلقات تشکیل دیے جا سکیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملک ’’آزاد سیکورٹی ریلیشن شپ‘‘ میں دلچسپی رکھتے ہیں جس میں ہر ایک ملک کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات پر اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ مثلاً سعودی عرب پاکستان کے ساتھ تعلقات خراب کیے بغیر بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کر رہا ہے اور اسی طرح پاکستان نے سعودیوں پر یہ واضح کر دیا ہے کہ اگرچہ پاکستانی فوج کیلئے یمن فوج بھیجنے کا کوئی آپشن نہیں لیکن ضرورت پیش آئی تو سعودی عرب کا دفاع کیا جائے گا۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان نے واضح کیا ہے کہ ایران کے ساتھ سعودی عرب کے تنازع کو دیکھتے ہوئے پاکستان خلیج کی سیکورٹی میں ایرانی مداخلت کا مخالف ہے اورجواباً سعودی عرب نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی او آئی سی میں حمایت کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، اگر سعودی عرب نے سی پیک میں شمولیت اختیار کی تو اس سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تبادلوں میں اضافہ ہوگا۔
تازہ ترین