• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی ڈائری: پیپلزپارٹی کو اپنے صوبے میں کسی جگہ پذیرائی حاصل نہیں

سیاسی ڈائری: پیپلزپارٹی کو اپنے صوبے میں کسی جگہ پذیرائی حاصل نہیں

اسلام آباد (محمد صالح ظافر، خصوصی تجزیہ نگار) پاکستان مسلم لیگ نون یا تحریک انصاف کی طرف سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ آئندہ حکومت ان کی ہوگی تو بات قدرے سنجیدہ اور معقول نظر آتی ہے جب پیپلزپارٹی اور وہ بھی آصف زرداری، متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) جب وہ بھی سینیٹر سراج الحق دعویٰ کریں کہ آئندہ حکومت وہ بنائیں گے تو سننے والا ایک لمحے کے لئے ٹھٹھک جاتا ہے۔ اسے اپنی آنکھوں اور کانوں پر یقین نہیں آتا۔ سندھ کے دیہی علاقوں بالخصوص وسطی علاقوں میں چند حلقوں میں پیپلزپارٹی کو بااثر امیدواروں کی حمایت ضرور حاصل ہے جو بوجوہ اس پارٹی سے ناطہ توڑنا نہیں چاہتے انگلیوں پر شمار ہونے والے ان سرکردہ افراد کے سوا پیپلزپارٹی کو اپنے صوبے میں کسی جگہ پذیرائی حاصل نہیں۔ جہاں تک سندھ کے شہری علاقوں کا تعلق ہے رائے دہندگان سمجھتے ہیں کہ پیپلزپارٹی نے باقاعدہ حکمت عملی کے ذریعے صوبے کے شہری علاقوں میں پسماندگی لانے کی کوشش کی ہے ان کوششوں کادائرہ دس سال سے زیادہ عرصے پر پھیلا ہے جائزوں سے یہ ثابت شدہ ہے کہ صوبے کے شہری علاقے کے رائے دہندگان پیپلزپارٹی کو اپنے مسائل کا ذمہ دار سمجھتے ہیں وہ کسی بھی دوسرے گروپ پر دست شفقت رکھ سکتے ہیں لیکن پیپلزپارٹی ان کا انتخاب نہیں ہوسکتی۔ اس پارٹی کا سربراہ جب یہ دعویٰ کسی دلیل کے بغیر کرتاہے کہ وہ آئندہ ملک کی حکومت بنائے گا تو وہ اسی سانس میں نواز شریف کو برا بھلا کہنا نہیں بھولتا۔ وہ فیصلہ سازوں کو پیغام ارسال کررہا ہوتا ہے کہ اس نے ابھی آموختہ فراموش نہیں کیا بلکہ بدستور ازبر ہے پیپلزپارٹی نے گزشتہ مارچ میں سینیٹ کے انتخابات میں کامیاب مشق کی تھی یا اس سے کرائی گئی تھی جس میں اسمبلیوں میں پہنچے ارکان کی بولی فوری طور پر لگادی جاتی ہے اور ان کے ووٹ خرید لئے جاتے ہیں۔ یہ امر تقریباً یقینی ہے کہ آئندہ ماہ کے انتخابات میں آزاد ارکان قابل لحاظ تعداد میں جیتیں گے ایک تو انہیں جتوانے والے ادھر ادھر نہیں ہونے دیں گے دوسرا جو اس چنگل سے بچ رہیں گے ان سے مول بھائو کے لئے پیپلزپارٹی کی تجوریاں کھل جائیں گی اور اس طرح یہ پارٹی اپنی حسرتیں پوری کرسکے گی یہی وہ واحد راستہ ہے جو اسے اقتدار کی منزل کے قریب لے جا سکتا ہے وگرنہ وہ جس انجام سے دوچار ہونے جارہی ہے وہ نوشتہ دیوار ہے۔ اسی طرح کا دعویٰ مجلس عمل کی جانب سے آیا ہے مجلس عمل یقیناً اپنا حصہ وصول کرے گی تاہم اسے اقتدار کا ہم نشیں بننا ہوگا وہ اپنے لئے راستہ نکال لے گی۔ اب جبکہ انتخاب کا دن قریب آتا جارہا ہے اور آئندہ ہفتے انتخابی مہم پورے زور و شور سے جاری ہوجائے گی وہ اخلاقی ضابطہ جسے کمیشن نے جاری کیا ہے اس پر حرف بحرف عملدرآمد ہونا چاہئے ورنہ یہ مہم بہت گراں ثابت ہوگی اسی دوران سابق خاتون اول اور پاکستان مسلم لیگ کے تاحیات قائد نواز شریف کی اہلیہ محترمہ کلثوم نواز کی علالت نے سنگین صورت اختیار کرلی ہے خود نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز لندن میں موجود ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے سربراہ شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے سلمان شہباز بھی لندن میں رک جانے پر مجبور ہوگئے ہیں یہی وہ پارٹی کے رہنما ہیں جو نواز شریف خانوادے کی طرف سے انتخابی مہم میں قیادت کرینگے ان حالات میں راولپنڈی سے قومی اسمبلی کے سابق زبان دراز رکن نے کہہ دیا ہے کہ محترمہ مریم نواز اپنی والدہ کی علالت پر سیاست نہ کریں۔ یہ بدزبانی اور اخلاقی گراوٹ کی بدترین شکل ہے یہی وجہ ہے کہ راولپنڈی کے عوام 25جولائی کا انتظار کررہے ہیں تاکہ وہ غرور اور گھمنڈ کے اس سومنات کو مسمار کردیں جس نے اب بداخلاقی کو اپنا شعار بنالیا ہے۔سبکدوش وزیراعظم نوازشریف کے سابق مقرب خصوصی چوہدری نثار علی خاں پہلے قومی رہنما ہیں جنہوں نے باضابطہ طور پر اپنی انتخابی مہم کا ڈول ڈال دیا ہے انہوں نے اپنی پہلی تقریر میں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو اپنا ہدف بنایا ہے اور عنائت خسروانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کیاہے کہ بیگم کلثوم نواز کی علالت کے باعث وہ باپ بیٹی پر زیادہ شدید حملہ نہیں کررہے تاہم وہ بہت جلد کھل کر بات کرینگے۔ چوہدری نثار علی خاں نے اپنے آبائی علاقے چکری میں جہاں سے وہ ہمیشہ انتخاب ہار جاتےہیں اعلان کیا کہ وہ نوز شریف کے حوالے سے بہت جلد اہم انکشافات کرینگے۔ چوہدری صاحب کا استحقاق ہے کہ وہ اپنے سابق ممدوح کے بارے میں جن سے وہ راستے جدا کررہے ہیں جو مرضی بات کریں لیکن یہ کبھی فراموش نہ کریں کہ نواز شریف اور مریم نواز نے ان کے بارے میں کبھی ایک جملہ بھی ایسا نہیں اپنی زبان سےا دا کیا جس میں بے روی کا کوئی پہلو برآمد ہوتا ہو۔ جب وہ نواز شریف سے لاتعلقی اختیار کرنے کی وجوہ پرروشنی ڈال رہے ہونگے توا ن کے حلقہ نیابت میں خود ان کے لئے اچھے جذبات نہیں ابھریں گے پھر ان کے بارے میں یہ بات کوئی انکشاف کا درجہ نہیں رکھتی کہ وہ خود خوشگوار موسم کے سیاستدان ہیں نواز شریف کے موجودہ دور ابتلا اور اس سے پہلے جب بھی ان پر مشکل آئی چوہدری نثار علی خان سہارے کے لئے موجود نہیں ہوئے تھے اب تو انہوں نے سیدھے سبھائو مخالف خیمے میں شمولیت اختیار کرلی ہے یا انہیں وہاں بھیج دیا گیا ہے ۔نواز شریف کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہیں مشہور سیاسی قول یاد رکھنا چاہئے کہ ’’معشوق کے پاس کوئی پتہ ہے تو عاشق کے پاس بھی کئی پتے ہونگے‘‘۔ 

تازہ ترین