• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سطح سمندر سے 29؍ ہزار فٹ بلندی پر کوڑا دان، مائونٹ ایورسٹ

کراچی (نیوز ڈیسک) سطح سمندر سے ہزاروں فٹ بلندی پر موجود مائونٹ ایورسٹ بلند ترین مقام پر پایا جانے والا پہلا کوڑا دان بن چکا ہے کیونکہ آنے والے کوہ پیمائوں نے یہاں اس قدر گندگی پھیلا دی ہے کہ صورتحال بہت خراب ہو چکی ہے۔ ماہرین نے گندگی سے بھرے اس نظارے کو ’’آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکنے والا منظر’’ قرار دیا ہے۔ برطانوی اخبار کی رپورٹ کے مطابق، 29؍ ہزار 029؍ فٹ (8؍ ہزار 848؍ میٹر) کی بلندی پر آپ کو جگہ جگہ پرانے پھٹے استعمال شدہ خیمے، کوہ پیمائی کا سامان، گیس کے خالی کنستر، انسانی فضلہ اور دوسرا کچرا نظر آئے گا۔ یہاں آنے والے کوہ پیما اپنے ساتھ سامان اور کچرا واپس لیجانے کی بجائے یہیں پھینک کر جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جیسے جیسے یہاں آنے والے کوہ پیمائوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ویسے ویسے مسائل بڑھ رہے ہیں، صرف گزشتہ سال ہی 600؍ لوگ اس بلند ترین مقام پر آ چکے ہیں۔ 18؍ مرتبہ مائونٹ ایورسٹ سر کرنے والے پیمبا دورجے شیرپا نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ صورتحال خراب ہے، پہاڑ پر منوں ٹنوں کے حساب سے کوڑا موجود ہے۔ اسی دوران، گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پگھلتے گلیشیرز بھی پہاڑ اور قرب و جوار کے علاقوں میں کچرا پھیلانے کا کام کر رہے ہیں۔ پانچ سال قبل نیپال نے مائونٹ ایورسٹ جانے والی ہر ٹیم پر 4000؍ ڈالرز کا کچرا ایڈوانس نافذ کیا، یہ رقم صرف اسی صورت واپس کی جاتی ہے جب ہر کوہ پیما اپنے ساتھ کم از کم 8؍ کلوگرام کچرا واپس لاتا ہے۔ تبت کی جانب سے ایورسٹ جانے والے لوگوں پر جرمانہ زیادہ ہے۔ کوہ پیمائوں پر لازم ہے کہ وہ جتنا سامان اوپر لیجاتے ہیں، انہیں اتنا ہی واپس لانا ہوتا ہے، ناکامی کی صورت میں انہیں ہر کلوگرام پر 100؍ ڈالرز جرمانہ دینا پڑتا ہے۔ ساگر متھ پالیوشن کنٹرول کمیٹی کے مطابق، 2017ء میں نیپال سے کوہ پیما اپنے ساتھ 25؍ ٹن کچرا اور 15؍ ٹن انسانی فضلہ اپنے ساتھ نیچے لائے، یہ وزن تین ڈبل ڈیکر بسوں کے وزن کے برابر ہے۔ رواں سیزن میں کمیٹی کے لوگ اس سے بھی زیادہ کچرا نیچے لائے، لیکن کمیٹی کے رضاکاروں کا کہنا ہے کہ کچرے کی نیچے لائی جانے والی اب تک کی مقدار اوپر موجود کچرے کا معمولی حصہ ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ زیادہ تر کوہ پیما اپنی پیشگی رقم واپس لینے کی بجائے اس کے ضبط ہو جانے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ ایورسٹ پر اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے تعینات کیے جانے والے سرکاری اہلکار، اوپر جانے والے افراد سے رشوت لے کر انہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ پیمبا دورجے شیرپا کا کہنا ہے کہ بلند ترین کیمپس پر نگرانی کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے بھی معاملات خراب ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، کم پیسے لے کر ناتجربہ کار کوہ پیمائوں کو اوپر لیجانے والے آپریٹرز بھی مسائل پیدا کر رہے ہیں کیونکہ یہی لوگ اکثر اپنا سامان چھوڑ کر واپس آ جاتے ہیں۔ اپنے جڑواں بھائی ولی بینگس کے ساتھ گزشتہ دو دہائیوں سے ایورسٹ سر کرنے والے ڈیمین بینگس کا کہنا ہے کہ پہلے یہ ہوتا تھا کہ کوہ پیما اپنی آکسیجن، ٹینٹ، سلینڈر اور چھوٹا سامان خود اٹھاتے تھے، لیکن کم پیسے لینے والے آپریٹرز کے بعد کوہ پیمائوں نے اپنا سامان اٹھانا چھوڑ دیا ہے جس کی وجہ سے واپسی پر ان آپریٹرز کے شیرپا (معاونین) صارفین کا سامان واپس لاتے ہیں اور انہیں کچرا واپس لانے کا موقع نہیں ملتا۔ ماہرینِ ماحولیات اس صورتحال پر بہت پریشان ہیں کیونکہ آلودگی کی وجہ سے پینے کا پانی خراب ہو رہا ہے۔ گزشتہ ماہ صفائی مہم کے دوران ساڑھے 8؍ ٹن کچرا شمالی ڈھلان سے جمع کیا گیا، رضاکاروں کا کہنا ہے کہ یہ کوئی آسان کام نہیں، حکومت کو صفائی کرنے والے گروپس کو متحرک کرنا ہوگا اور سخت قوانین متعارف کرانا ہوں گے۔
تازہ ترین