• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ورلڈجسٹس پراجیکٹ کی نئی پورٹ ،سول جسٹس میں پاکستان کا107واں نمبر

راولپنڈی (طارق بٹ)ورلڈجسٹس پراجیکٹ نےاپنی 18-2017کی رپورٹ میں 113ممالک کےسول جسٹس کاجائزہ لیاہے،اس فہرست میں پاکستان107ویں نمبرپرہے۔ تاہم ورلڈجسٹس پراجیکٹ جوایک آزاد تنظیم ہونےکادعویٰ کرتی ہے اور دنیا بھرمیں قانون کی حکمرانی کیلئےکوشاں ہے، اس نےپاکستان کو کریمنل جسٹس کی فہرست میں 81ویں نمبرپررکھاہے، یہ واضح طورپرسول جسٹس سےکافی بہترہے۔ سول جسٹس کو جانچنے کاپیمانہ یہ ہے کہ کیاعام لوگ عدالتی نظام کے ذریعےاپنےمسائل پُرامن اور موٗثرطریقےسےحل کرسکتےہیں۔ اس میں دیکھاجاتاہےکہ کیا سول جسٹس سسٹم قابلِ رسائی، مالی طورپر قابل برداشت اوریہ بلاامتیاز،کرپشن فری اور سرکاری افسران کےغیرمناسب اثرسےپاک ہے۔ اس میں جائزہ لیاجاتاہےکہ کیاعدالتی کاررائی میں غیرضروری تعطل تو نہیں ہوتا اور کیا فیصلےموثرطریقے سےنافذ کیےجاتے ہیں یا نہیں۔ اس میں تنازعات کےحل کےطریقےکارتک رسائی اوراس کی غیرجانبداری کوبھی دیکھاجاتاہے۔ سول جسٹس کی کیٹگری میں کیمرون، بولیویا، میانمر، گوئٹےمالا، کمبوڈیااور وینزویلاپاکستان سےپیچھےہیں۔ کریمنل جسٹس کوماپنےکیلئےملک کےکریمنل جسٹس سسٹم کاتجزیہ کیاجاتاہے۔ ایک موثرکریمنل جسٹس سسٹم قانون کی حکمرانی کیلئے اہم ہے،کیونکہ یہ شکایات کےازالےاورمعاشرےکےخلاف جرائم پرافرادکوسزادینےکےروایتی طریقہ کارپرمبنی ہوتاہے۔ کریمنل جسٹس کی فراہمی کےتجزیئےکیلئےپورےنظام بشمول پولیس، وکلاء، پراسیکیوٹرز، ججز اورجیل کےافسران پرغورکرناچاہیے۔ ورلڈجسٹس پراجیکٹ کاکہناہےکہ فہرست کےفریم ورک میں ایک غیرروایتی انصاف کاپہلوبھی شامل ہے اسےمجموعی سکوراوردرجہ بندی میں شامل نہیں کیاگیا۔ غیرروایتی نظامِ انصاف کا کردار اکثرایسےممالک میں کافی اہم ہوتاہےجہاں روایتی قانونی ادارے کمزور، دوردرازیا غیرموثرسمجھےجاتے ہیں۔ اس وجہ سےڈبلیوجےپی نےدرجنوں ممالک میں غیرروایتی نظامِ انصاف پرڈیٹاکےحصول کیلئےکافی کوششیں کیں۔ بہرحال ان نظاموں کی پیچیدگیاں اوران کی شفافیت اور موثریت کو جانچنےمیں پیش آنےوالی مشکلات نےمختلف ممالک میں تجزیئےکوغیرمعمولی طورپرمشکل بنایا۔ یہ اہم ہے کہ کیا قانون ساز اداروں کےپاس حکومت کوچیک کرنےاوراس کی نگرانی کرنےکےقابل ہیں،کیا عدلیہ آزاد ہے اور اس کے پاس حکومت کوچیک کرنےکی علمی قابلیت ہے، کیا آڈیٹرزاور انسانی حقوق کےقومی محتسب ادارے آزاد ہیں اور علمی طورپرحکومت کو چیک کرنےاور اس کی نگرانی کے قابل ہیں، کیا انتظامیہ، قانون ساز اسمبلی، عدلیہ اور پولیس کےسرکاری اہلکاروں کی تفتیش ہوتی ہےاورکیا انھیں سرکاری جرائم اور دیگرخلاف ورزیوں کیلئےسزاملتی ہے، اور کیا آزاد میڈیا، سول سوسائٹی کی تنظیمیں، سیاسی جماعتیں اور دیگرافرادبلاخوف وخطرحکومتی پالیسیوں پربات کرتےہیں۔ ڈبلیوجےپی ایسے اقدامات پر بھی غورکرتی ہےکہ کیا حکومتی اہلکار آئین کے وضح کیےگئےطریقوں کے مطابق منتخب کیے جاتے ہیں۔ جہاں انتخابات ہوتے ہیں وہاں یہ انتخابی عمل کی شفافیت بشمول بیلٹ تک رسائی، خطرات کی غیرموجودگی اور انتخابی عمل کی سکروٹنی کابھی جائزہ لیتی ہےاورکیاقانونی حقوق سے متعلق بنیادی قوانین اورمعلومات عوام کوسادہ زبان میں اور تمام زبانوں میں دستیاب ہیں۔ اس میں حکومت کی جانب سےمعلومات کےمعیاران کی پرنٹ اورآن لائن رسائی کوجانچاجاتاہے،اورکیاانتظامیہ قوانین وضوابط، قانون سازی کےڈرافٹس اورہائی کورٹ کےفیصلوں تک عوام کی بروقت رسائی ہے؛ کیاسرکاری ایجنسیوں کےپاس موجود معلومات کیلئےدرخواست کی اجازت دی جاتی ہے، کیا اس کی اجازت بروقت دی جاتی ہے، کیافراہم کردہ معلومات اہم اور مکمل ہے، اور کیا معلومات تک فراہمی رشوت اداکیےبغیر کی جاتی ہے۔ ڈبلیوجےپی یہ بھی دیکھتی ہے کہ کیا لوگ معلومات تک رسائی کےاپنے حقوق سے باخبر ہیں اور کیامتعلقہ ریکارڈ کیلئےدرخواست پرعوام کورسائی حاصل ہے۔ یہ دیکھاجاتاہےکہ کیا لوگ سرکاری افسران کےخلاف تحفظات کااظہار کرسکتے ہیں، کیا سرکاری اہلکارمناسب معلومات فراہم کرتے ہیں اور کمیونٹی پراثراندازہونےوالےفیصلےکرتےہیں۔ ڈبلیوجےپی مزیدایسےاقدامات کی جانچ کرتی ہےکہ کیالوگ عوامی خدمت کی فراہمی یاسرکاری افسران کوقانونی فرائض کی ادائیگی یا ان کی کارکردگی سےمتعلق مخصوص شکایات حکومت کےپاس لاتےہیں اور سرکاری اہلکار کس طرح ان شکایات پر ردِ عمل ظاہرکرتےہیں، کیاپولیس اوردیگرسرکاری اہلکاروارنٹس کےبغیرجمسانی تلاشی کرتے ہیں یابغیرعدالتی اجازت کےوہ لوگوں کی الیکٹرونک گفتگو ریکارڈ کرتےہیں، کیا لوگ آزادانہ طورپرکمیونٹی میٹنگز،سیاسی تنظمیوں، پُرامن عوامی احتجاج، دستخط مہم میں شرکت اورسرکاری پالیسیوں کےخلاف بلاخوف خطررائےکااظہارکرتےہیں، لیبر رائٹس تک رسائی بشمول ایسوسی ایشن کی آزادی اور اجتمائی لین دین، نوکریوں کے حوالےسےتفریق کاخاتمہ اور جبری مشقت اور چائلڈ لیبرسےآزادی اورعام جرائم کاپھیلائوجن میں نشل کشی، اغوا، چوری ڈکیٹی اور بھتہ خوری کے ساتھ ساتھ لوگوں میں تحفظ کا احساس بھی جانچاجاتاہے۔
تازہ ترین