• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان دنیا کا خطرناک ترین ملک ہے۔ آئندہ منتخب ہونے والے امریکی صدر کے لئے خارجہ پالیسی میں اہم ایشو یہی ہوگا کہ ایسے ملک کے ساتھ کیسے تعلقات ہوں۔ جو ایٹمی طاقت بھی رکھتا ہے یہ بات سی آئی اے کے ایک اعلیٰ اہلکار بروس ریڈل نے امریکی امیدواران برائے صدارت کے ٹی وی پر فائنل ڈیبیٹ DEBATE سے دو تین روز قبل ایک امریکی جریدے میں اپنے آرٹیکل میں کہی۔ عورت کی تعلیم کے لئے آواز اٹھانے والی ملالہ یوسف زئی کا ذکر کرتے ہوئے اس نے کہا ہے کہ پاکستان کی صورتحال ایسے میدان جنگ کی ہی جس میں القاعدہ سے جڑے انتہا پسند اور ماڈرن پاکستان دیکھنے والے باہم نبرد آزما ہیں۔ دنیا کا یہ چھٹا بڑا ملک اس وقت ایٹمی ہتھیاروں میں تیزی سے اضافہ کرنے والا ایسا بڑا اسلامی ملک ہے جہاں القاعدہ کی لیڈر شپ براجمان ہے۔ جسے پاکستان کی خفیہ ایجنسی ISI کی پشت پناہی حاصل ہے۔ایسے میں امریکہ کو پاکستان میں نہ صرف ڈرون حملے جاری رکھنا ہیں۔ بلکہ اس میں اضافہ بھی کرنا ہے اب واشنگٹن پاکستان میں ڈرون مشن کو پھیلاتے ہوئے غیر معینہ مدت کے قیام کا ارادہ رکھتا ہے ۔ یہ آرٹیکل پڑھنے کے بعد جب اوباما اوررومنی کی ڈیبیٹ سنی تو محسوس ہوا کہ دونوں ممکنہ صدور سی آئی اے کی لائن پر مبنی ہی پاکستان کے متعلق امریکی خارجہ پالیسی کا تعین کریں گے۔ اس ڈیبیٹ کے چند اہم خدو خال کا ذکر کردوں تاکہ مستقبل کے کچھ اہم خدو خال کو سمجھا جاسکے۔ دونوں امیدواروں کا خیال ہے کہ کمزور پاکستان عالمی امن کے لئے زیادہ خطرناک ہے۔ کیونکہ پاکستان میں جہادی نیٹ ورک کے مراکز ہیں۔ خصوصی طور پر اتنی بڑی فوج کی موجود میں اگر پاکستان ٹوٹ جائے تو اس کی FALL OUT کو سنبھالا نہیں جاسکتا۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے جس کی گذشتہ قلیل مدت میں ایٹمی قوت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ ایسے میں پاکستان کو کھلا بھی نہیں چھوڑا جاسکتا۔ لہٰذا چوائس یہی ہے کہ ہر قیمت پر پاکستان کے ساتھ مل کر کام کیا جائے اور جمہوری قوتوں کو مضبوط کرکے پاکستان کو معاشی استحکام دیا جائے ۔ سب سے اہم بات جو اس ڈیبیٹ DEBATE میں سنی کہ پاکستان میں اب تک جو لڑائی دہشت گردی کے خلاف لڑی گئی ہے اور اس جنگ کا فوکس Focus انتہا پسندی کے خلاف کردیا جائے۔ گویا اب ہدف دہشت گردی کم اور انتہا پسندی زیادہ ہوگی۔ یہ ایک نظریاتی جنگ ہے اس امریکی خارجہ پالیسی کا خاکہ جاننے کے بعد ایک اور ہم ترین پہلو پر نظر رکھنی ضروری ہے کہ دونوں صدارتی امیدواران اور سی آئی اے کی متفقہ پالیسی ہے کہ ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اب یہ بات سمجھنی آسان ہے کہ پاکستان کون کونسے پہلوؤں سے امریکی تعلقات کو دوستی کے تعلقات سمجھ سکتا ہے اور کہاں سازش کا پہلو ڈھونڈ سکتا ہے ویسے تو اگر کوئی ملک کھل کر اپنے عزائم اور پالیسی کا اعلان کردے تو پھر سازش تو نہیں رہ جاتی۔ اب یہ سمجھنے والے پر منحصر ہے کہ وہ اپنی پالیسی کن بنیادوں پر استوار کرتا ہے۔ ملکوں اور ریاستوں کے تعلقات مفادات کے حوالے سے طے ہوتے ہیں ہر ملک اپنے قومی مفاد کے حوالے سے اس کا تعین کرتا ہے۔ گذشتہ دو ہفتوں سے امریکی تعلقات کے حوالے سے جو گفتگو سامنے آرہی ہے اس پر تعجب بھی ہوتا ہے کہ ہمارے بیشتر تجزیہ نگار امریکی عزائم پر تو تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن اپنی پوزیشن کو نہ تو کھل کر سمجھنے کو تیار ہیں نہ ہی بیان کرتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ امریکہ دنیا کا طاقتور ترین ملک ہونے کے ناطے عالمی معاملات کی سمت اور اثر و رسوخ کو کنٹرول میں رکھنا چاہتا ہے ۔ وہ اسی سامراجیت ملی پالیسی کو اپنا نیشنل انٹرسٹ سمجھتا ہے۔ لیکن مجھے یہاں اپنے تجزیہ نگاروں سے چند سوالات کرنے ہیں ۔ اگر ان میں سے کسی ایک سوال کا جواب بھی ہاں میں ہو تو امریکہ کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جاسکتی ہے۔
1 ) کیا ہم کالعدم تنظیموں کو کھلے عام کام کرنے سے روکتے ہیں؟ ۔
2 ) کیا ہم نے دہشت گرد تنظیموں کو وضاحت کے ساتھ ملک دشمن قرار دیکر Targetted Enemy کا تعین کیا ہے ؟
3 ) کیا ہم اپنے میڈیا کو مذہبی عناصر کے ہاتھوں بلیک میل ہونے سے روکتے ہیں۔
4 ) کیا ہم نے فوج کے اندر موجود جہادی عنصر کے بارے میں عوام کو آگاہی دی ہے یا اعتماد میں لیا ہے ؟۔
5 ) دہشت گردی ایک کاروبار بنا ہوا ہے۔ کیا ہم اپنی پالیسی سازی میں اس پہلو کو تسلیم کرتے ہیں ؟
اگر درج بالا سوالات میں کسی ایک سوال کا جواب بھی ہاں میں آتا ہو۔ تو مجھے اپنی پالیسی سازی پر اپنے پالیسی سازوں کے خلوص اور معاملہ فہمی کی صلاحیت کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ وگرنہ محض امریکہ کو کونستے رہنے سے اپنی پرانی بزرگ ماؤں کی وہ بات یاد آرہی ہے۔ جس میں گھر کے بگڑے ہوئے بچے کو جب بھی ماں ڈانتی تھی تو کہتی تھی کہ تیرے ہانی (دوست) مر جائیں۔ یا ان کا بیڑہ غرق ہو۔ وہ اپنے بچے کو خراب ہونے کا ذمہ دار ٹھہرانے کو تیار نہیں ہوتی تھی۔ یہی حال ہمارا ہے۔ ہم اپنے گریبان میں جھانکنے کو تیار نہیں۔ ہم ماڈرن ملک بھی بننا چاہتے ہیں اور انتہا پسند عناصر کے ساتھ رومانس ختم کرنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ اس کے بعد ہم عالمی طاقتوں سے یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنی پالیسی سازی کے دوران پاکستان کے مفادات کا خیال بھی رکھیں اور تحفظ بھی کریں۔ اس وقت عالمی ایشوز پر ہمیں محض اپنی عینک ہی بدلنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہماری اپنی مکمل اوورہالنگ ہونے والی ہے۔ اس لئے آئندہ آنے والے دور کے لئے امریکہ نے تو واضح طور پر اپنی پالیسی کے خدو خال نمایاں کردیئے ہیں۔ پاکستان کے لئے امریکہ یک زبان ہے خواہ اوباما آئے یا رومنی۔ اس بات کا زیادہ انحصار ہمارے اپنے اوپر ہے کہ ہم اس پالیسی کو امن اور ترقی کے لئے کس طرح استعمال کرسکتے ہیں۔ ابھی تو یہی پتہ نہیں چلتا کہ کون کس کے خلاف لڑ رہا ہے۔ جب ہم اپنی ریاستی داخلی اور خارجہ پالیسی میں اس دوست اور دشمن کے فرق کو نمایاں کردیں گے تو لڑائی کے خاتمے کا وقت اور ہدف بھی طے ہو جائے گا۔ اس سارے معاملے کی خوبصورتی یا بد نمائی کا انحصار ہمارے اپنے اوپر زیادہ ہے اور امریکی پالیسی پر کم ۔
تازہ ترین