• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بجلی کی گنجائش بہت، لیکن ترسیل بہت کم

مالیاتی ڈسپلن نہ ہو تو سماجی خلفشار بڑھ جاتا ہے آبادی بڑھتی جارہی ہو تو غربت اور بے روزگاری بڑھتی جاتی ہے درآمدات زیادہ ہوں اور برآمدات کم ہوں تو زرمبادلہ میں خسارے کے انبار لگ جاتے ہیں، ترجیحات درست نہ ہوں تو معاشی ترقی سر کے بل کھڑی ہوجاتی ہے۔ گذشتہ پانچ برسوں میں بار بار سنتے آئے ہیں کہ لوڈ شیڈنگ ختم ہو گئی ۔سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے زور دیتے ہوئے پریس کانفرنس میں کہاتھا کہ ان کی حکومت نے دس ہزار میگا واٹ کانیشنل گرڈ میں اضافہ کیا ہے چنانچہ ملک میں 18,753میگا واٹ سے بڑھ کر بجلی کی گنجائش28,704 میگا واٹ ہوگئی ہے انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ مئی2018میں17000میگا واٹ بجلی پیدا کی جارہی تھی جبکہ 2013میں11,170میگا واٹ بجلی پیدا کی جارہی تھی، باالفاظ دیگر 2017میں25فیصد زیادہ بجلی پیدا کی جارہی تھی ۔ دوسری طرف منیجنگ ڈائریکٹرز پاکستان الیکڑک پاور کمپنی (PEPCO)اور پبلک پرائیوٹ انفرا اسٹرکچر بورڈ (PPIB)نے مذکورہ کمیٹی کو آگاہ کیا کہ اس وقت 31ہزار میگا واٹ بجلی انسٹالڈ ہوچکی ہے۔ اور اس میں6,500میگا واٹ نیشنل گرڈ میں شامل بھی کردی گئی ہے۔ اور یہ کام گذشتہ تین سال میں کیا گیا یاد رہے کہ جاتی حکومت کے آخری ہفتے میں یہ بات مذکورہ اجلاس میں کی گئ۔ ایک رپورٹ بھی جاری کی گئی جس میں یہ انکشاف کیاگیا2013میں جو اعدادوشمار بتائے گئے اس کے مطابق جلی23,538میگا واٹ انسٹالڈ تھی لیکن اس کی ترسیل50فیصد کم تھی ۔ اس کی وجہ یہ تھی جتنی گنجائش (CAPCITy)تھی اسے ترسیل یا جیسرلیشن میں ٹرانسلیٹ نہیں کیا جاسکا اور یہی صورت حال آج بھی ہے بہت مرتبہ کہاجاچکا ہے کہ بجلی کی گنجائش100فیصد زیادہ ہے اور موجود ہے لیکن پاور جینسرلیش کے پلانٹ گرڈ اور تاروں کا جو سلسلہ ہے وہ اس قدر خراب ہے کہ وہ زیادہ بجلی اٹھا نہیں سکتا ۔ سب جانتے ہیں کہ ترسیل کے نظام جسے جینریشن کہتے ہیں، اس میں اوسطاً لائن کا نقصان 32فیصد اور17فیصد چوری ہے کوئی پوچھے کہ لاتعداد ڈسکوز کمپنیاں بھی بنا ڈالیں۔ ان کو بھی پرائیوٹ ہاتھوں دے دیا ہے یہ تقریباً سب نقصان میں جارہی ہیں۔ اور مالیاتی ڈسپلن کی حالت یہ ہے کہ گروشی قرضے ایک ہزارارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ فیول کے لئے رقم نہیں ہے اور پی ایس او کہہ رہی ہے اگر30فیصد بھی رقم ادا کرتے رہیں توہم فیول جاری کرتے رہیں گے ۔ پانی کا قحط ہےلیکن کوئی ڈیم نہیں بناسکے اور ان کی لاگت بڑھتی جارہی ہے ۔ ماضی سے حال تک یہ تین حکومتیں ان ڈیموں کو بنتا دیکھ رہی تھیں جب بن گئے تو عالمی بینک میں شور مچانا شروع کردیا ۔ ملک کی حالت یہ ہے کہ پانی اور بجلی پاکستان کی معیشت کے لئے موت اور زندگی کا مسئلہ بن گئی ہے آپ اندازہ کیجئے کہ سیلابوں ، بارشوں، پگھلتے ہوئے گلیشر کا فاضل پانی سمندر میں گرتا رہا ایک اندازے کے مطابق اگر اس پانی کی قیمت لگائی جاتی تو 22ارب ڈالر کا پانی سمندر گر کر ضائع ہوا ہے لیکن مجال کہ کوئی ڈیم بن جائے کوئی بڑے تالاب ہی بنالیےجاتے، جن میں سیلابی پانی ذخیرہ کیا جاتا ،ان تالابوں میں ماہی گیری بھی کی جاسکتی ہے لیکن ایسا نہیں کیا گیا ۔ اورنج ٹرین15میل دوڑے گی اور اس پر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق1200ارب روپے اور غیر سرکاری اعدادوشمار کے طابق250ارب روپے اخراجات ہو رہے ہیں۔ 

بجلی کی گنجائش بہت، لیکن ترسیل بہت کم

یہ وہ مالیاتی بدنظمی ہے جس کی وجہ سے زراعت کو دوسال پہلے شرح نمو0.05کی شرم ناک حد تک جا پہنچی تھی لائیو اسٹاک لے لئے پنجاب نے19ارب روپے مختص کئے اور سٹرکوں کے152ارب روپے مختص کئے گئے ۔ ظاہر ہے کہ مالیاتی ڈسپلن پیداواری ڈسپلن کی پیداوار ہوتا ہے۔ مالیاتی اداروں سے پہلے صنعتی اداروں نے جنم لیاتھا گذشتہ پانچ سال میں ایک صنعت نہیں لگائی گئی ۔اسی لئے قومی محنت، قومی مسائل اور قومی پیداوار میں خود ساختہ انتشار کی فضا میں مہنگائی،خساروں اور بے روزگاری کی ایسے خوفناک عفریت پرورش پارہے ہیں جو مالیاتی ڈسپلن کے غار سے نکل نکل کر عوام کو مہنگائی اور بجلی کے بلوں کی بھرمار کی صورت بار بار ڈس رہے ہیں۔ اب حال یہ ہے کہ انرجی کے مسائل حل نہ ہوئے ان میں لاتعداد ایشوز پر کوئی خاطر خواہ ہکام نہ ہوا سی پیک سے سڑکیں تو بن رہی ہیں لیکن کسی نے چینی حکومت سے یہ نہیں پوچھا کہ103کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کےمنصوبے چین میں کیوں بند کردیئے گئے ہیں اور انہیں پاکستان میں کیوں لگایا جارہا ہے جس سے ایسی آلودگی پیدا ہوگی کہ نسلیں یاد رکھیں گی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں گذشتہ اور گذشتہ سے پیوستہ حکومتوں نے ٹرانسمیشن نقصانات کا ازالہ نہیں کیا۔ ٹرانسمیشن کا بوسیدہ نظام کیوں نصب رکھا گیا ۔ اس غفلت کو کیا کہا جائے اور پھر اس نقصان کا ازالہ بھی عوام سے کرایا جارہا ہے ان کے بجلی کے بل لوگوں کےلیے عذاب جاں بن گئے پیٹرول اور بجلی کے نرخ مزید بڑھیں گے ۔برآمدات کو نہ بڑھایا گیا تو اس ملک کو کون چلائے گا ۔ 100نوجوانوں میں61بے روزگار ہیں تو کیا یہ ایٹم بم نہیں بن سکتے ۔ بھوک آداب کے سانچوں میں ڈھل نہیں سکتی ۔2012کے آخر میں واٹر اور پاور کےوزیرنے کہا تھا کہ گنجائش اپنے آپ کو ترسیل میں نہیں ڈھال سکتی ،کیونکہ سب سے بڑی رکاوٹ بوسیدہ ٹرانسمیشن سسٹم ہے۔ کیا چینیوں نے بھی انہیں مشورہ نہیں دیا کہ پہلے ٹرانسمیشن سسٹم کو ٹھیک کرلو۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ سسٹم 15ہزار میگا واٹ سے زیادہ بجلی نہیں اٹھا سکتا ۔ اس سال کے شروع میں سابقہ حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ٹرانسمیشن سسٹم کواتنا ٹھیک کرلیا ہے کہ وہ16500 میگا واٹ بجلی اٹھالے گا ۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا کہ31ہزار میگا واٹ بجلی کے ذخیرے کا کیا فائدہ؟ سابقہ حکومت نے کوشش کی کہ 20ہزار میگا واٹ کی ترسیل کی جائے چنانچہ پنجاب میں دوبڑے پاور (FAILER)فیلیئر سامنے آئے اور آدھے پنجاب میں بجلی غائب ہوگئی ۔ کے پی کے بھی اس کی زد میں رہا ۔گروشی قرضے کم ہونے کے بجائے بڑھتے جارہے ہیں۔ انرجی کے سب سیکٹر کی یہ شدید ناکامی رہی ہے کہ وہ اپنے بل ادا کریں۔ کوئی سیکٹر گیس کمپنی کا نادہندہ، گیس کمپنی کسی اور کی نادہندہ ہے یہ وہ مالیاتی ڈسپلن کی خرابی ہے جس کی ذمہ داری وزارت خزانہ کی ہوتی ہےلیکن عوام تو پریشان ہیں جن کو بجلی دستیاب نہیں بے روزگاری اور مہنگائی کا عذاب الگ نچوڑ رہا ہے ، یہ بھی درست ہے کہ مسلم لیگ(ن) کو480ارب روپے کے گروشی قرضے ورثے میں ملے۔ لیکن انہوں نے بھی وہ کوشش نہیں کی جہاں وصولیاں بہت زیادہ تھیں وصول کرتے۔ اپریل میں گروشی وہ قرضے574ارب روپے تک پہنچ گئے۔ اس میںKEکوبھی ادائیگی کرنی تھی ۔ غیر سرکاری ذرائع کہہ رہے ہیں کہ گروشی قرضے ایک ہزار ارب روپے تک جا پہنچے ہیں۔ جوائنٹ سیکٹری پاور فنانس نے بتلایا کہ جینریشن کی لاگت 8.52روپے فی یونٹ پڑتی ہے لیکن صارف سے11.9روپے فی یونٹ وصول کئے جارہے ہیں۔ ایک لوٹ مچی ہوئی ہے اس لئے کہ مالیاتی نظم وضبط قابو میں نہیں ہے۔ سرکاری ذرائع یہ بھی جانتے ہیں کہ حکومت کو32پیسے فی یونٹ تیکینکی نقصان بھی ہورہے ہے اور یہ سالانہ 157ارب روپے کا نقصان ہےاگر قرضوں پر سود کی ادائیگی بھی اس میں ڈال دی جائے توبجلی کے صارف کا ٹیرف مزید بڑھایا جائے گا ۔ حکومت کی نااہلییوں اور کرپشن کا ازالہ عوام کیوں کرے؟ اکنامسٹ لندن لکھتا ہے ’’ اگلے بیس سال کے لئے رینو ایبل انرجی کے لئے20ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے‘‘۔اکنامسٹ کا خیال ہے کہ بجلی میں منافع زیادہ ہے اس میں سرمایہ کاری ہوسکتی ہے اور گرین انرجی کے بارے میں اکنامسٹ لکھتا ہے یہ بہت خراب راز ہے‘‘۔ کوئلے پلانٹس کی لاگت توکم ہے لیکن کاربن بہت بڑھ جائے گا اس بارے میں پاکستان کے حکمران کبھی نہیں سوچیں گے کیونکہ وہ کتاب دوست ہی نہیں تاکہ ان کو شادابی اور درختوں کی افادیت کے معنی سمجھ آئیں۔ اس لئے صاف توانائی کی فراہمی پرابھی کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ کیونکہ ہمارے فورتھ جینریشن کمپنیاں( ڈس کوز) نہایت نکمی ہیں اور سب نقصان میں جارہی ہیں اب نئی حکومت میں کوئی صاحب بصیرت ہوتو وہ انرجی ایشوز کو گہرائی سے دیکھے اور حل کرے، جو مشکل نظر آتا ہے معاہدے 100روپے میں ہورہے ہیں اور بجلی 60روپے کی اٹھائی جارہی ہے یہ معاہدے بھی عوام کے لئے بوجھ ہیں، کیونکہ باقی رقم40روپے بھی عوام ادا کریں ۔

تازہ ترین