• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی (تجزیہ:…محمد اسلام) ٹکٹوں کی تقسیم ہمیشہ مسئلہ رہا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا جب سینما گھروں میں فلم دیکھنے والوں کا رش ہوتا تھا اور ہر شخص ٹکٹ کے حصول کا خواہش مند تھا تو اس رش کو کنٹرول کرنے کے لئے کچھ داداگیر قسم کے سینما ملازمین لوگوں پر لاٹھی چارج کیا کرتے تھے۔ تو بھیا! ٹکٹ مانگنے والوں پر لاٹھی چارج ہمارے معاشرے کی پرانی روایت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے ٹکٹوں کی تقسیم پر جوتے، پتھر، گالیاں، توڑ پھوڑ اور لاٹھی چارج کی نوبت آئی ہوئی ہے۔ پہلے سینما گھروں میں شائقین پر اوراب سیاسی کارکنوں پر لاٹھی چارج ہو رہا ہے۔ ٹکٹوں کی تقسیم پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ پارٹی ٹکٹ کا خواب دیکھنے والے کارکن احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ سب کو معلوم ہے ہونا وہی ہے جو ہوتا آیا ہے یعنی نئی بوتل میں پرانی شراب پیش کی جائے گی کیونکہ شکاری وہی ہیں البتہ جال نیا لائے ہیں۔ دلچسپ امر ہے کہ ن لیگ کے ایک سابق رہنماء پارٹی لائن کے مخالفت سمت چلتے رہے لیکن جب ٹکٹوں کی تقسیم کا معاملہ آیا تو پارٹی کی مخالفت کرنے والے بھی ٹکٹ کی آس لگائے بیٹھے تھے۔ ان کا معاملہ بقول سریندر پنڈت سوز کے کچھ یوں ہے کہ ؎
اب تو جلتا ہے وہ نہ بجھتا ہے
بےحسی کا دھواں سا لگتا ہے
جن لوگوں کو پارٹی ٹکٹ نہیں دیئے گئے ان کے احتجاج کے باوجود پارٹی کے سربراہ کا رویہ مسٹر دہلوی کے اس شعر کے مصداق دکھائی دیتا ہے۔
جو مجھ سے متفق نہیں ان کو میں کیا کہوں
غدار اگر نہیں ہیں تو گھامڑ ہیں وہ ضرور
جہاں تک ٹکٹوں کی تقسیم کا معاملہ ہے تو تحریک انصاف پر کھڑکی توڑ رش چل رہا ہے۔ لاٹھی چارج بھی ہو رہا ہے۔ بنی گالا پر مظاہرے بھی ہو رہے ہیں۔ دراصل بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آئندہ پانچ سال تک یہی فلم زیر نمائش رہے گی۔ حکیم شرارتی کا خیال ہے کہ عمران خان کے پارٹی ٹکٹ ہولڈر کو نظر لگ گئی ہے لہٰذا دعا کی جائے کہ پارٹی ٹکٹ ہولڈر کو اللہ نظر بد سے بچائے۔ انہیں احتیاطً دائیں ہاتھ پر کالا دھاگا بھی باندھ لینا چاہئے اور پارٹی کو بھی چاہئے کہ وہ ٹکٹ کےکونے پر کاجل سے سیاہ نشان بنا دے تاکہ نظر بد سے محفوظ رہیں۔ میں تو پارٹی ٹکٹ ہولڈر کے اہل خان سے اپیل کروں گا کہ وہ حفظ ماتقدم کے طور پر مرچیں جلا کر ان کی نظر اتار لیا کریں۔ عمران خان نے کہا ہے کہ ٹکٹ میرٹ پر دیئے گئے ہیں اب کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے انہوں نے تو میرٹ کی بات کر دی ہے۔ حکیم شرارتی کا ردعمل ملاحظہ فرمایئے۔ پارٹی ٹکٹ کی تقسیم اور ہم، ہاہاہا، بہت خوب کہا جناب۔ جس معاشرے میں سب سے زیادہ قتل ہی میرٹ کا ہوتا ہو وہاں ٹکٹ کی تقسیم بھلا کیسے میرٹ پر ہوسکتی ہے۔ انٹرویو، ٹیسٹ، داخلے، ملازمتیں، سلیکشن غرض ہر جگہ میرٹ کا گلا دبایا جا رہا ہے۔ بہرحال اگر میرٹ ہی ہے تو پھر کارکنوں کا احتجاج کیسا۔ دراصل ٹکٹ تو جاگیردار، وڈیرے، سیٹھ اور وہ سرمایہ دار لے گئے ہیں جن کا سرمایہ دائو پرلگا ہے۔ بھیا! میرٹ یہی ہے تو فہرست پر نظرثانی کیجئے۔ چلتے چلتے مسٹر دہلوی کا ایک اور شعر آپ کی نذر کرتا ہوں؎
درس یہ سیاست کا ہم کو پڑھانے آئے
گھر تو ان سے نہ چلا ملک چلانے آئے
تازہ ترین