• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اپنی تاریخ کا ایک قابل فخر باب رقم کرنے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ اس کے لئے صرف چند ماہ باقی ہیں۔ جب 2013ء میں عام انتخابات کا انعقاد ہوگا۔ اگر یہ انتخابات پُرامن ماحول میں کسی رکاوٹ کے بغیر ہو جاتے ہیں اور ان کے نتیجے میں نئی حکومت تشکیل پا جاتی ہے تو یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کو انتقال اقتدار ہوگا۔ اس سے پہلے 1947ء سے اب تک اس طرح کا انتقال اقتدار کبھی نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی تاریخ کو قابل فخر قرار نہیں دے سکتے۔ گزشتہ حکومت نے بھی اگرچہ اپنے پانچ سال مکمل کئے تھے اور اُس کے بعد ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں نئی حکومت وجود میں آئی تھی لیکن گزشتہ حکومت کو جمہوری نہیں کہا جاسکتا۔ یہ حکومت ایک فوجی آمر کی پیداوار تھی اور 2002ء کے عام انتخابات میں ملک کی بڑی اور مقبول سیاسی جماعتوں کو انتخابات لڑنے سے روکنے کے لئے نہ صرف ہتھکنڈے استعمال کئے گئے بلکہ محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف جیسے سیاسی قائدین کو جبری طور پر جلاوطن کردیا گیا۔ اس طرح 2002ء کے عام انتخابات جمہوری تقاضوں کے مطابق نہیں تھے جبکہ 2008ء کے عام انتخابات بھی پُرامن نہیں تھے۔ ان انتخابات میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے لئے انتخابی مہم چلانے کے حالات سازگار نہیں تھے۔ یہ حالات پیدا ہی اس لئے کئے گئے تھے کہ ملک کی حقیقی جمہوری قوتیں عوام سے رابطہ نہ کرسکیں۔ ان حالات میں سانحہ 27 دسمبر 2007ء رونما ہوا اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید ہوگئیں۔ 2008ء کے انتقال اقتدار کو ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کو انتقال اقتدار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس سے پہلے بھی پُرامن جمہوری انتقال اقتدار کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
اس وقت پاکستان کی تمام سیاسی قوتوں‘ ریاستی اداروں اور سول سوسائٹی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پاکستان کی تاریخ کا ایک نیا اور قابل فخر باب رقم کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ بہت سی قوتیں اب بھی اس کوشش میں لگی ہوئی ہیں کہ پُرامن جمہوری انتقال اقتدار نہ ہو۔ سیاسی اور جمہوری قوتیں بھی زبردست خدشات کا شکار ہیں۔ حروں کے روحانی پیشوا اور پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کے سربراہ پیر پگارا سید صبغت اللہ شاہ راشدی بھی اپنے مرحوم اور پیر پگارا سید شاہ مردان شاہ کی طرح سیاسی پیش گوئیاں کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انہیں آئندہ عام انتخابات ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ حکمران پاکستان پیپلز پارٹی کے لوگوں میں بھی اپنے اندرونی حلقوں میں بعض وسوسوں کا اظہار کیا جارہا ہے ان کے پاس کچھ اطلاعات بھی ہیں۔ انہیں خطرہ ہے کہ عبوری حکومت قائم ہوتے ہی بعض لوگوں سے عدالت میں درخواست دائر کرائی جاسکتی ہے۔ اس درخواست میں یہ استدعا کی جا سکتی ہے کہ پاکستان کے حالات انتخابات کے لئے سازگار نہیں ہیں لہٰذا عبوری حکومت کی مدت میں توسیع کی جائے اور اسے حالات ٹھیک کرنے کا ٹاسک دیا جائے۔ پاکستان میں بنگلہ دیش ماڈل کے نفاذ کی باتیں بھی ہورہی ہیں۔ دوسری طرف بعض سیاستدانوں سے بھی یہ باتیں کہلوائی جارہی ہیں کہ پاکستان میں امن وامان کی صورت حال خراب ہے اور معاشی بحران بھی ہے۔ اس صورت حال میں انتخابات کا پُرامن انعقاد ممکن نہیں۔ بلوچستان میں آگ لگی ہوئی ہے،کراچی جل رہا ہے،خیبرپختونخوا اور شمالی علاقہ جات جنگ کی لپیٹ میں ہیں۔ ایسی بہت سی باتیں کی جارہی ہیں اور آئندہ بہت سی باتیں کی جائیں گی یا کرائی جائیں گی۔ اب تک پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ غیر سیاسی اور غیر مرئی قوتوں کی حالات پر مکمل گرفت ہے۔ وہ اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنی مرضی کا پروپیگنڈہ کراکے رائے عامہ ہموار کراسکتی ہیں اور اپنی مرضی کے حالات بھی پیدا کرسکتی ہیں۔ ان خدشات کا بھی اظہار کیا جارہا ہے کہ عام انتخابات سے پہلے بدامنی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ پاکستان میں بدامنی کا ریموٹ کنٹرول بھی مخصوص ہاتھوں میں ہے۔
معروضی حالات‘امکانات اور خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی اُن سیاسی اور جمہوری قوتوں کو‘ جو ہر حال میں پُرامن انتقال اقتدار کی حامی ہیں ایک ایسی حکمت عملی تشکیل دینی چاہئے جس سے ان قوتوں کے عزائم خاک میں مل جائیں جو ایک حقیقی جمہوری پاکستان نہیں دیکھنا چاہتی ہیں۔ انتخابات سے پہلے عبوری حکومت کے قیام کے لئے آئین میں دیئے گئے طریق کار کے مطابق حکومت اور اپوزیشن کو مشاورت کا عمل کسی غیر سیاسی مداخلت کے بغیر اور جلد مکمل کرلینا چاہئے۔ مشاورت کے اس عمل میں بہت سی ایسی قوتیں بھی کود پڑتی ہیں۔ 18 ویں آئینی ترمیم کے تحت عبوری حکومت کی تشکیل‘ چیف الیکشن کمیشن کی تقرری اور ججوں کی تقرری سمیت کئی معاملات کو طے کرنے کے بہتر فارمولے بنالئے گئے ہیں۔ کوشش ہونی چاہئے کہ ان معاملات میں غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت کو کم سے کم بلکہ ختم کیا جائے۔ پاکستان کی سیاسی قوتوں کو ایک اور بات پر بھی سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے، وہ بات یہ ہے کہ غیر جانبدار اور ایماندار لوگوں کی تلاش میں احتیاط سے کام لیا جائے۔ پاکستان میں ایک منصوبہ بندی کے تحت کچھ شخصیات کو آگے لایا جاتا ہے اور اُن کے غیر جانبدار ہونے کا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے اُن کی نام نہاد غیر جانبداری اور ایمانداری کا منظم پرچار کیا جاتا ہے حالانکہ وہ سب سے زیادہ جانبدار ہوتے ہیں۔ یہاں کسی کا نام لینا مناسب نہیں ہے لیکن پاکستان کی سیاسی جماعتیں جانتی ہیں کہ ایجنسیاں کس طرح مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو پالتی ہیں اور اُن کا امیج بناتی ہیں۔ اس وقت سیاسی جماعتیں جن ناموں پر غور کررہی ہیں یا جن شخصیات سے متاثر ہیں‘ اُن کی چھان بین کرلینی چاہئے کیونکہ یہ پاکستان کی تاریخ کا انتہائی نازک مرحلہ ہے۔ کہیں عبوری حکومت کے ”دیانتدار اور ایماندار لوگ“ بے ایمان نہ ہو جائیں۔ اس وقت ایسے لوگ بہت کم ہیں جن کی شہرت بھی ہو اور وہ غیر سیاسی قوتوں کے ڈسپلن میں نہ ہوں۔ بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔ اب تک حکومت اور اپوزیشن نے جو غلطیاں کی ہیں وہ جلد اپنے نتائج کے ساتھ سامنے آنے والی ہیں۔ اس مرحلے پر ان غلطیوں کی کسی اور طرف سے نشاندہی مناسب نہیں ہوگی۔ خود بڑی سیاسی جماعتوں کو اس کا پتہ چل جائے گا۔ اب مزید غلطیوں کی گنجائش نہیں ہے۔ عبوری حکومت کے قیام میں زیادہ کھینچاتانی اور عدم اتفاق تمام سیاسی قوتوں کے لئے نقصان دہ ہوگا۔
اس مرحلے پر حکومت کو امن وامان پر بھی بہت زیادہ توجہ دینا ہوگی۔ خاص طور پر بلوچستان‘ کراچی اور شمالی قبائلی علاقہ جات میں کم از کم ایسے حالات پیدا کرنا ہوں گے کہ وہاں عام انتخابات کا پُرامن انعقاد ہوسکے۔ تمام سیاسی قوتوں کو امن خراب کرنے والی قوتوں کے خلاف انتخابات سے قبل ایسا واضح موٴقف اپنانا ہوگا جو پہلے نہیں اپنایا گیا۔ ایسے موٴقف امن خراب کرنے والی قوتیں کی جارحانہ حکمت عملی کے خلاف ”ڈیٹرنٹ“ ہوگا۔ ہماری عدلیہ اور دیگر تمام ریاستی اداروں کو بھی صورت حال کو وسیع تر تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ اگر پاکستان میں پُرامن جمہوری انتقال اقتدار کا سنگ میل عبور ہوجاتا ہے تو اس کا کریڈٹ انہیں بھی جائے گا۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کو بھی پاکستان کو ایک جمہوری معاشرہ بنانے کے لئے اپنا کردار پہلے سے زیادہ ادا کرنا ہوگا۔ پوری قوم کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ پاکستان کی تاریخ کا ایک قابل فخر باب رقم ہو۔
تازہ ترین