• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدالت ِ عظمیٰ نے خواجہ سرائوں کے تحفظ کیلئے خصوصی عدالتیں قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عید کے تیسرےدن ازخود نوٹسوں کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے خواجہ سرائوں کے قومی شناختی کارڈ 7دن میں بنانے سے متعلق کمیٹی کی سفارشات پرعملدرآمد کی رپورٹ طلب کرلی۔ انہوں نےواضح کیاکہ خواجہ سرائوں سے کسی قسم کی بدتمیزی اور چھیڑچھاڑ برداشت نہیں کی جائے گی، جب تک ان کوقانونی تحفظ نہیںملےگا،ان کےمعاملات حل نہیںہوسکتے۔ خواجہ سرائوں نے چیف جسٹس کو اپنے لئے روشنی کی کرن قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب وہ ناچیں گے نہ بھیک مانگیں گے بلکہ معاشرے میں باعزت زندگی گزاریں گے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ خواجہ سراہمارے سماج کا ایک ایسا مظلوم طبقہ ہے جسے والدین بھی اپنا نام دینا پسند نہیں کرتے، بدترین سلوک ان سے روا رکھاجاتا ہے اور ایک طرح سے انہیں تفنن طبع اور فحاشی کا استعارہ بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ ان سے سماجی تعلقات رکھنا محال ہے،جب ان میں سےکوئی دنیاکو خیر بادکہتا ہےتورات کی تاریکی میں اسے سپردخاک کردیاجاتا ہے۔ شاید ہی ایسا کوئی ہو جس نے ان کی تدفین میں شرکت کی ہو۔ ذمہ دار لوگ چاہتے تو اس رجحان کی حوصلہ شکنی ممکن تھی لیکن ایسا نہ ہوا۔ یوں خواجہ سرا ساری عمر ایک’’ناکردہ گناہ‘‘ کی سزا بھگتتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ مسلمان سماج میں خواجہ سرائوں کے ساتھ یہ رویہ اختیار نہ کیا گیا۔ مغلوں نے انہیں اپنے محلات میں اہم ذمہ داریاں دیں۔ خلافت ِ عثمانیہ میں مساجد کے امور ان کےہاتھوں میں تھے۔ یہ انگریز تھے جنہوں نےکریمنل ٹرائبز ایکٹ میں انہیں بھی شامل کرکے سماج سے الگ کر دیا۔ سپریم کورٹ کی طرف سے خواجہ سرائوں کے حقوق کے تحفظ کے اقدامات لائق صد ستائش ہیں۔ اب یہ ہمارا فریضہ ہے کہ اپنے رویے میںمثبت تبدیلی لائیں۔ ریاست، اساتذہ، علما کرام اور سماج کی دیگر بااثر شخصیات عوام کی رہنمائی کریں تاکہ یہ حقیقی معنوں میں باعزت زندگی گزار سکیں۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین