• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)
بے کراں آسماں کے نیچے پاکستان کا عام آدمی، انسانی عزت و حقوق کے ترازو میں زیرو ہو کر، بے یارو مددگار تنہا کھڑا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے آج تک یہ عام آدمی اپنی سول اور غیر سول ریاستی فورسز کے تشکیل شدہ مجموعی تاریخی آئینے میں توہین، ذلت، تشدد اور غلامی کا بے بس و بدنصیب چہرہ ہے۔
انسانی عزت و حقوق کے ترازو میں پاکستان کے عام آدمی کو ذلیل کر کے زیرو کرنے کا یہ گنہگارانہ رقص مسلسل جاری ہے، پاکستان کی سول اور غیر سول ریاستی فورسز کی بہت ہی بڑی اکثریت نہایت بے خوفی و بے پردگی کے ساتھ طاقت اور انا کی اس بے ضمیر لذت کوشی کو بلا کسی ذہنی اطمینانی اور الجھن کے انجوائے کرتی ہے۔ چنانچہ اب ہم ریاست پاکستان کی سول، غیر سول فورسز اور پاکستانی عوام کے موضوع کی حساس واقعیت کو آگے بڑھاتے ہیں۔
واقعاتی مثال کے لئے پنجاب پولیس پر ہی فوکس کیا جائے گا، اس پس منظر میں گفتگو زیر بحث موضوع کے قومی سراپے کو مکمل طور پر مکمل کر دے گی۔ 2004میں ٹائون شپ کے 26سالہ نوجوان شمعون کی پنجاب پولیس ٹائون شپ کے ہاتھوں ہلاکت پر ایک مقامی اخبار کے کالم نگار نے اس وقت کے ڈی ایس پی ملک قاسم کو ایک فون کال کی جس کے جواب میں اس کا ایک جملہ یہ بھی تھا ’’ہمارے پاس اس سے بھی زیادہ ضروری کام ہیں‘‘ معلوم نہیں اب یہ شخص کہاں پر پوسٹ ہے تاہم وہ جہاں بھی ہو اس نے اپنے ریاستی طبقے پنجاب پولیس کے طرز عمل کی نہایت دیانتدارانہ نمائندگی کی، یہ طرز عمل طاقت، خود سری، تکبر، جھوٹ، نڈر پن اور بے حجاب لاپرواہی سے مرکب ہے، پنجاب پولیس نےاس زور آوری کو چھپانے کی کبھی کوشش نہیں کی، اسے کبھی کوئی چیلنج بھی نہیں کر سکا۔
پاکستان کے صحافتی دانشوروں کی تحریروں کے اجمالی سے جائزے سے ایک دلدوز المیہ سامنے آتا ہے، یہ کہ گزرے قریباً پینتیس چالیس برسوں میں کراچی کے ایک اردو روزنامے کے مدیر نے ’’پولیس‘‘ کے عنوان سے حقیقی خدوخال اجاگر کرنے کی مہم شروع کی تھی، وہ پاکستان کی صحافتی تاریخ کے اب تک غالباً واحد اخبار نویس ہیں جو پاکستانی ریاست میں پولیس کے ’’ناگزیر کینسر‘‘ کا ادراک کر چکے تھے جس کینسر نے لوگوں کے جذبہ حب الوطنی کو ایک سوالیہ نشان میں بدل دیا ہے، اس ایک شخصیت کے علاوہ ان کے بعد، ان سے پہلے پاکستان کے کسی ایک ایسے قلمکار کا نام ریکارڈ پر نہیں لایا جا سکتا جس نے پاکستان کی اس سول ریاستی فورس میں پوشیدہ قومی تباہی کے عمیق ترین عنصر کا پتا چلایا اور اس پر گرفت کی ہو۔ یعنی یہ ایک ایسا ریاستی ادارہ ہے جس نے پاکستانیوں کے جذبہ حب الوطنی کو پرزے پرزے کرتے ہوئے ان کے دلوں میں اس ملک سے ہجرت کرنے کے جرثوموں کی پرورش کی، پاکستانی ریاست کی اس سول فورس کے ہاتھوں ، خصوصاً پنجاب میں ’’فورس مورال‘‘ کے نام پر ظلم و طبقاتی، شقاوت و بے حیائی اور سنگدلی و جارحیت کی ایسی تفصیلات موجود ہیں جن کے مطابق پنجاب پولیس نے بعض دیہاتوں اور بستیوں پر ایسے چڑھائی کی جیسے ’’بھارتی‘‘ کسی غلام کشمیری آبادی پر چڑھ دوڑے ہوں۔ ناقابل علاج و تلافی ایک اور افسوس ہے، اخبارات اور سول سوسائٹی میں ایسے افراد، صحافی اور گروپس موجود ہیں جو ’’پولیس ملازمین‘‘ کے بدترین حالات کو پنجاب پولیس کی عوام کے ساتھ روا رکھے جانے والے اس تاریخی عریاں بہیمت کے لئے مقدس ترین جواز کے طور پر پیش کرتے ہیں، نتیجتاً قومی یا صوبائی سطح پر پولیس کے نظام کو کبھی ایک ’’ملکی ایشو‘‘ کی شکل اختیار نہیں کرنے دیتے، حقیقت اور سچائی کیا ہے؟
یہ کہ، پاکستان کے ہر عام آدمی سے لے کر دانشور تک نے پولیس ملازمین کے بدترین حالات کار ان کے ساتھ محکمانہ بے انصافیوں کے ہمالیاتی مظالم کے وجود سے کبھی انکار نہیں کیا۔ جس سے جہاں اور جتنا بن پڑا اس نے ان ایشوز پر پولیس ملازمین کی حمایت اور وکالت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ گمراہ کن اور مکارانہ مہم ہے جس کے ذریعہ عوام کا پولیس کے ’’حالات کار‘‘ سے لاتعلق رہنے کا تاثر دیا جاتا ہے، سوال دراصل ہے ہی دوسرا جس کی جان بوجھ کر یا فکری جہالت کے باعث صورت گری کی ہی نہیں جاتی۔
وہ دوسرا سوال ہے، کیا ریاستی فورسز بشمول پولیس فورس کے حالات کار، محکمانہ بے انصافیوں، ادائیگی فرائض کے دوران میں افسروں اور جوانوں کی ’’شہادتیں‘‘ پاکستانی عوام کے لئے ’’غلامی کے پٹے‘‘ کی کوئی دستاویز ہیں؟ کیا حالات کار کی خرابیاں پنجاب پولیس کے سپاہیوں کو، قیام پاکستان سے لے کر آج تک، جب ان کی تنخواہیں ناقابل ذکر اور آج کی ان تنخواہیں اور مراعات اور سہولتیں قابل ذکر سے بھی کہیں آگے ہیں، کوئی بھی موقع ملنے پر سرعام ماں بہن کی گالیاں دینے، بلاکسی جھجک کے بیچ چوراہے شہریوں کو ٹھڈے تھپڑ مار مار کر ان کا حشر کر دینے کی ’’راہداری‘‘ ہیں ؟ کیا مائیں، بہنیں اور بیٹیاں صرف ’’انہی‘‘ کی ہیں جو ڈائرکٹ عرش سے اتری ہیں اور مجھ جیسے عام پاکستانی کی ماں، بہن یا بیٹی سبزی منڈی کے کسی بوسیدہ ریڑھے پر بیٹھا کر اس دنیا میں بھیجی گئی ہیں؟
پولیس فورس کے موجودہ نظام کی، قیام پاکستان کے 71ویں برس، چند جھلکیاں پیش کی جا رہی ہیں یہ مثالیں ہمیں پاکستان کی ’’ریاستی فورسز اور عوام ‘‘کے اس نازک باب میں ہماری نظریاتی صداقت کو تقویت بخشتی ہیں۔ اپریل 2018میں ’’جنگ گروپ‘‘ کے رپورٹر نے لاہور کی ڈیٹ لائن سے پولیس لائن ہیڈ کواٹر ز اسلام آباد لیڈی کانسٹیبلز سے زیادتی کے بھیانک اسیکنڈل کا انکشاف کیا، ویڈیو اور تصاویر بنائے جانے کی ہولناک معلومات ملیں۔ اسلام آباد کی لیڈیز پولیس کانسٹیبل کے مطابق ’’پولیس لائن کا نظام ہی خراب ہے، ڈی ایس پی سے لے کر ایس پی تک کوئی بھی پیشی ہو تو ریڈر اور آپریٹر مخصوص جگہ پر بلاتے ہیں، ہمارے اعمال ناموں کی سماعت ہماری عزت کے بدلے ہوتی ہے۔ تصاویر اور ویڈیوز بھی محفوظ ہیں، چیف جسٹس اور آئی جی کو پیش کریں گی۔ پولیس لائنز میں لیڈیز آفیسر تعینات کی جائیں، خط کا متن، انکوائری رپورٹ میں ریڈر اسحاق، ندیم اور آپریٹر راشد کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا، ریڈر ندیم اکثر رات کو گاڑی پر لڑکیوں کو لائن سے باہر بھی لے جاتا تھا۔ رپورٹ بعد میں جاری کی جائے گی، ترجمان آئی جی!‘‘ اب جون 2018چل رہا ہے، متعلقہ رپورٹ اور ان تین مدعیوں کے علاوہ کوئی بھی حتمی فائنل رپورٹ ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ گفتگو جاری رہے گی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین