• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ن لیگی قیادت کا، چوہدری نثار علی خان کی ناقدری اور جاوید ہاشمی کو شایان شان قدرو منزلت سے محروم رکھنا، قبیح زیادتی، اپنا ناقابل تلافی نقصان ہی۔ کیا ملکی سیاست بڑی کروٹ لے سکتی ہے؟ کیا خلائی مخلوق ملک کی مقبول ترین پارٹی کو خاطر میں لانے کا بھی سوچے گی؟ سیاسی انجینئرنگ اپنے جوبن پر، کامیابی یقینی بنانا ہو گی، سیاسی اُکھاڑ پچھاڑ میں ن لیگ کو پچھاڑنا ہوگا۔ کیا خاطر خواہ نتائج مل پائیں گے؟ بظاہر تدبیریں قوی التاثیر دکھائی نہیں دے رہیں۔ دعا اتنی کہ مسلم لیگ ن سے معاملہ فہمی ہوجائے یا پھر جلد از جلد شکست فاش مسلم لیگ ن کا مقدر بنے کہ برسوں سے جاری سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں ملک کا ستیاناس ہوچکا، سوا ستیاناس ہونے کو۔ ریاست پاکستان عام انتخابات کی طرف گامزن شکوک و شبہات، تشکیک، خدشات، افواہیں، خطرات دن دونے، رات چوگنے۔ اگر اداروں کے ن لیگی قیادت سے معاملات طے پا گئے یا ن لیگ کی شکست چشم یقین سے دیکھ پائے تو الیکشن کا انعقاد یقینی، وگرنہ ہنوز دلی دور است۔ 2014 سے شروع ارتعاش، ایمپائرز کا تحریک انصاف کے در دولت پر سب کچھ حاضر رکھنے کے باوجود تحریک انصاف کا کمال کہ پے در پے مایوس کیا۔
اپریل 2014میں اچانک پہلی دفعہ عقدہ کھلا کہ ریاست پاکستان، سیاست نواز شریف کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ایسا زمانہ جب راوی ریاست کی سیاسی تاریخ کا بہترین چین رقم کر رہا تھا۔ سیاسی میل ملاپ عروج پر تھے۔ 2014 میں ریاست بچانے کے لیے سیاست کو بھینٹ چڑھانے کی حد بندی تو ہوئی مگر سیاست دھرنوں کو چکمہ دے کر بچ نکلی، ناکامی کا ملبہ تحریک انصاف پر ڈال دیا گیا۔ حالانکہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا دھرنا وعدہ ایفا نہ کرنا، جاوید ہاشمی کا لنکا ڈھانا، سیاست کو بچانے میں بنیادی کردار تھے۔ بھائی لوگوں کا پیپلز پارٹی اور ایم کیو یم پر غصہ ضروری اور فطری تھا۔ دونوں کو زیر عتاب لانے، سلجھانے الجھانے، چھانٹنے کے مراحل طے کر لیے گئے۔ 2015میں سندھ پر یلغار نظر آئی۔ دونوں پارٹیوں کی اینٹ سے اینٹ بجتے دیکھی۔ صدر زرداری خم ٹھونک کر اکڑے، ایسے گرجے برسے کہ میرے جیسے کمزور دل دہل گئے۔ زرداری کا کھلے عام اداروں کی تضحیک کرنا پھر راہ فرار اختیار کرنا، نہتے ساتھیوں کو اداروں کے رحم و کرم پر اکیلا چھوڑ نا، سب رقم رہا۔ سال 2015 کا نشری پیغام، میرے عزیز ہم وطنو ’’پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پر عرصہ حیات تنگ رہنا ہے‘‘۔2014 کے سیاسی ارتعاش پر ن لیگ جاں بلب ضرور رہی، پلک جھپکتے جانبر ہوگئی۔ ایک طرف 2015 میں ن لیگ مرکز اور پنجاب میں معاشی، بجلی، گیس، سی پیک، میگا پروجیکٹ وغیرہ پر اندھا دھند عملدرآمد، خصوصاً پنجاب میں تعلیم، صحت، نئی یونیورسٹیاں، کالجز، اسکولز، اسپتال، سیف سٹی پروجیکٹ، فرانزک لیبارٹریاں، شہر خاموشاں، ہیومن ڈویلپمنٹ برائے خواتین پروگرام، دوسری طرف پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پر عرصہ حیات کی تنگی تیسری جانب تحریک انصاف پر اپنا دھرنا بھاری پڑنا، ن لیگ حکومت کو غیر معمولی استحکام دے گیا، میدان میں اکیلی دندنا رہی تھی۔ ایمپائرز نے ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ منصوبے کا بانیوں کے اپنے سر ٹوٹ پڑنے کا سارا ملبہ عمران خان کے سر ڈال دیا ۔ موثر سیاسی اپوزیشن کی غیر موجودگی میں نواز شریف کو اقتدار سے علیحدہ کرنا، خواہش بدرجہ اُتم موجود، عملاً ناممکن بن گیا۔ ایسے میں پانامہ لیکس نے بجھے چراغ جلا دیئے۔ منصوبہ سازوں کو نئی تحریک دی، ریاست کو بچانے کا ایک اور نادر موقع ہاتھ آچکا، جانے دینا بنتا نہیں تھا۔ وقت کی ستم ظریفی، زیر عتاب پیپلز پارٹی کی مدد ناگزیر جانی گئی اور مانگی گئی۔ قبل ازیں کہ عمران خان 100 فیصد میڈیا سپورٹ، جنرل اسد درانی اور یونس حبیب جیسے کئی گنا بڑے مالی وسائل کی موجودگی میں شاندار ناکامی رقم کر چکے تھے۔ سیاسی کاریگر زرداری سے رجوع کیے بغیر موافقِ حال موقع سے فائدہ اٹھانا، مشکل رہتا۔ چونکہ عمران خان آزمودہ ناکام، زرداری جیسے بھاری سیاہ پتھر کوچوم کر اُٹھانا پڑا۔ اس بار عمران، زرداری، قادری، ق لیگ مع بغل بچہ شیخ رشید اورکئی دوسرے ہمنواؤں سے نیا معجون تیار ہوا کہ اب کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرنا تھا۔ بالآخر پانامہ کی آڑ میں اقامہ پر کامیابی مل بھی گئی، نواز شریف وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ خیال تھا کہ نا اہلی کے بعد مسلم لیگ تتر بتر ہوجائے گی۔ اپنی مرضی کی پارٹی بصورت ق لیگ یا کنونشن لیگ مشکل نہ تھی۔ نواز شریف کو نااہلی پر عوام خصوصاً اپنے ووٹر سپورٹر نے ہاتھوں ہاتھ لیا، مزہ کرکرا، ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔ چشم تصور میں پارٹی صدارت حائل، سپریم کورٹ کو اسمبلی کا بنایا قانون اسٹرائیک ڈاؤن کرنا پڑا، نواز شریف سے صدارت بھی چھین لی گئی۔ ن لیگ کی عوامی پذیرائی اور ممبران، ٹس نہ مس۔ حوصلہ امید ادھر بھی نہ ٹوٹا کہ 31مئی کو ن لیگی حکومت کے اختتام پر پارٹی کا ٹکڑے ٹکڑے ہونا بہرحال دیوار پر کندہ تھا۔ حکومت اختتام پذیر ضرور ہوئی مگر اب یہ عالم ہے کہ پارٹی ٹوٹی نہ نواز مقبولیت میں کمی،کنفیوژن بڑھ چکا ہے۔ معجون میں عمران خان واحد لیڈر جس کے پاس مقبولیت کا دال دلیا جبکہ سیاسی استعداد ساری زرداری کے پاس ہے۔ دونوں کو اکٹھا رکھنا، عمران خان کے بلنڈرز کی روک تھام، جوئے شیر لانا ہی۔ سونے پر سہاگا، عین نازک اور فیصلہ کن موڑ پر تحریک انصاف اندرونی بحران اور افراتفری کا شکار۔ خالی ٹکٹوں کی تقسیم، تحریک انصاف کو نگل چکی۔ چاہنے والے ماننے والے اصلی تحریک انصاف کی تلاش میں در بدر ہوچکے۔ پچھلے کئی مہینوں سے طمطراق سے ایک ہی نعرہ ’’میں خود‘‘ ٹکٹ دوں گا۔ ٹکٹ خود ہی تو دیئے کہ آج تحریک انصاف گم شدہ ہے۔ عمران خان بذریعہ مرغوب محبوب سوشل میڈیا دلاسہ دیتے ہوئے پر اعتماد کہ ’’شکایات میں خود سنوں گا اور سمری ٹرائل پر فوری فیصلے صادر کروں گا‘‘۔
میر کیا سادہ ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
جب سے ٹکٹس اناؤنس کیے، گھر کے باہر افراتفری، نفسا نفسی کا عالم ہے۔ کل اپنے بندگیٹ کے اندر سے کارکنان کو طفل تسلیاں، عمران خان کی بے چارگی کا سماں باندھ رہی تھیں۔ ایسے درجنوں واقعات ہی کہ آج مہربان بھی پریشان ہیں۔ ان پر اندرون خانہ دباؤ الگ ’’بیرونی خطرات کی موجودگی میں ابتر سیاسی صورتحال وطن عزیز کے لیے جان لیوا رہے گی‘‘۔
2016 میں پانامہ لیکس، جس میں نواز شریف کا نام نہیں تھا، ٹارگٹ کر کے، آڑ میں پھر سے یلغار شروع کر دی گئی۔ ہر دفعہ نواز شریف کو زمین بوس کرنا اب ممکنات میں تھا۔ پچھلے سالوں سے تسلسل سے تاثر عام کہ ’’اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کو نہیں آنے دے گی‘‘۔ وزارت عظمیٰ، پارٹی صدارت سے معزولی، اختتام حکومت پر پھر شریف خاندان کوسزا کاجب تڑکا لگے گا تو ن لیگی امیدوار، جوق در جوق خیرباد کہہ کر فرشتے پی ٹی آئی کی نصرت میں قطار اندر قطار اب بھی، عمران خان سے مال سنبھالا نہیں جائے گا۔ ہتھے کیا آیا؟ جہانگیر ترین، علیم خان کے بعد فواد چوہدری،بابر اعوان، فردوس عاشق اعوان گوندل وغیرہ وغیرہ وغیرہ، اللہ! اللہ!۔ وائے ناکامی کہ مسلم لیگ ن کے اپنے بندے مزید چپک گئے۔ نواز شریف کے بیانیے کی پذیرائی، دیدنی ہے۔ سارے سروے اندرون ملک، بیرون ملک ایک ہی کہ نواز شریف کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کیفیت نے آخری عمل، بمطابق اسکرپٹ جس میں نواز شریف اور مریم نے جیل جانا ہے اور شہباز شریف کو نیب اور سپریم کورٹ سے نبٹنا الجھنا تھا پر عملدرآمد مشکل، آج تدبیریں، منصوبے متزلزل نظر آ رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سارے سوموٹو، فیصلے، نیب کارروائیاں، شیخ رشید کی اہلیت پر آخری فیصلہ، سب کچھ COUNTER PRODUCTIVE سیاسی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جس طرح سینیٹ کے الیکشن سبوتاژ کرنے کی اسکیم، اللہ کی اسکیم کے سامنے ڈھیر رہی۔ الیکشن کو ملتوی کروانے کی شروع بھونڈی مہم بھی ملیامیٹ رہنی ہے۔ پاکستان اپنی تاریخ کے نازک دور میں، دشمن قوتیں ضرب کاری لگانے کی تاک میں ہیں۔ بین الاقوامی میڈیا کھل کر سامنے آرہا ہے۔ پر ی پول رگنگ کا ڈھنڈورہ ابھی سے پیٹا جا رہا ہے۔ میری دلی دعا، کہ نواز شریف 2018 کا الیکشن ہار جائیں تا کہ کسی کی انا اور طاقت کو ٹھیس نہ پہنچے اور مشرقی پاکستان والی صورت حال سے بچا جا سکے۔
امریکہ بہادر پچھلے کئی مہینوں سے سرحد پار خشمگیں نگاہیں گاڑے موجودہ وطنی صورتحال پر رالیں ٹپکا رہا ہے۔ موقع آگیا کہ امریکہ اپنا حصہ ڈالنے کو تیار ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ مہربان اپنے ڈرائنگ بورڈ پر دوبارہ بیٹھیں، جاری انجینئرنگ کو ریورس کریں؟ جس سطح کے اہلکار ملوث ہو چکے، آنے والے وقتوں میں ادارے کی صلاحیتیں ہی متاثر ہوں گی۔ وطن عزیز متحمل نہیں ہو پائے گا۔ کاش ریورس سیاسی انجینئرنگ کی کوئی صورت بن پاتی۔ معاملہ فہمی وقت کا تقاضا ہے۔ مشکل کی اس گھڑی میں اقتدار کی جنگ جیتنے کی بجائے، پاکستان کے لیے جنگ کی تیاری ممکن ہو پاتی، قوم متحد رہتی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین