• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کا ہر بوڑھا شخص کبھی منّا سا بچہ ہوا کرتا تھا۔ پھر اس پر لڑکپن آتا تھا۔ اس کے بعد اس پر نوجوانی آتی تھی۔ ادھیڑ عمر آنے کے بعد اس کا ماتھا ٹھنکتا تھا اور پھر اس پر بڑھاپا آتا ہے۔ عمر کا ہر دور آنے کے بعد چلا جاتا ہے۔ بڑھاپا عمر کا ایسا نادیدہ دور ہے جو آنے کے بعد کبھی واپس نہیں جاتا۔ وہ جب جاتا ہے تب ہمیں اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ کتنی زبردست بات بتائی ہے میں نے آپ کو! ہے نا؟ یہ زبردست بات میرے علاوہ صرف افلاطون جانتا تھا۔ آپ بجا طور پر اپنا سر فخر سے بلند کرسکتے ہیں کہ افلاطون کے بعد یہ دانش مندانہ بات آپ کو ایک پاکستانی نے سنائی ہے۔ اگر پاکستانی اتنی بڑی عاقلانہ بات سے واقف ہوتے تو پھر ایسے لوگوں کو ووٹ دے کر بار بار اسمبلیوں میں کبھی نہیں بٹھاتے جو لوگ ہر بار منتخب ہونے کے بعد ووٹ دینے والوں کو مایوس کرتے ہیں۔ اپنے ووٹروں کو دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیتے۔ بار بار آزمائے ہوئے کو دوبارہ آزمانا تصدیق کرتا ہے کہ ہم پاکستانی نہیں جانتے کہ ہر بوڑھا شخص کبھی بچہ ہوا کرتا تھا۔ کبھی لڑکا ہوا کرتا تھا۔ لاکھوں برسوں پر پھیلی ہوئی انسانی تاریخ میں آج تک کسی شخص نے بوڑھا ہونے کے بعد پھر سے جنم نہیں لیا ہے۔
میں بھی بوڑھا پیدا نہیں ہوا تھا۔ میں بھی کبھی چھوٹا بچہ تھا۔ مجھ پر بھی لڑکپن آیا تھا اور لڑکپن کے بعد مجھ پر جوانی آئی تھی۔ تب بھی رمضان کا مہینہ آتا تھا۔ جنریشن گیپ پر یقین رکھنے والے یہ مت سوچیں کہ ہم بوڑھے جب لڑکے ہوا کرتے تھے تب رمضان کا مہینہ نہیں آتا تھا۔ تب بھی رمضان کا مہینہ آتا تھا، مگر سادگی سے آتا تھا۔ ہم احترام سے رمضان کے مہینے کو خوش آمدید کہتے تھے۔ ماہ رمضان کو ہم دیوالی اور کرسمس کی طرح نہیں مناتے تھے۔ رمضان کے حوالے سے جب بھی باتیں ہوتی تھیں تب رحمت رمضان کی باتیں ہوتی تھیں۔ تب برکت رمضان کی باتیں ہوتی تھیں۔ تب حرمت رمضان کی باتیں ہوتی تھیں۔ تب لذت رمضان کی باتیں نہیں ہوتی تھیں۔ روزہ رکھنے کے بعد لوگ دن بھر طرح طرح کے طعام پکانے کی باتیں نہیں کرتے تھے۔ مزیدار اور چٹ پٹے کھانے بنانے کی ترکیبیں انٹرنیٹ پر شیئر نہیں کرتے تھے۔ وہ اس لئے کہ ہم جب لڑکے تھے تب فیس بک نہیں تھی۔ تب ٹوئٹر نہیں تھا۔ واٹس ایپ نہیں تھا۔ انسٹاگرام نہیں تھا۔ ہمارے بچپن کے دور میں کمپیوٹر سرے سے تھا ہی نہیں۔ اس کو کہتے ہیں جنریشن گیپ۔ اب ہم رحمت رمضان یا برکت رمضان نہیں کہتے۔ اب ہم لذت رمضان کہتے ہیں۔ خوب ڈٹ کر کھائو پیو اور موج کرو۔
میں نے لذت رمضان کے خوب مزے اڑائے۔ خوب ٹھونس ٹھونس کر لذیذ کھانے کھائے۔ خوب مزے لے لے کر ریشمی کباب، دھاگہ کباب، کھدر کباب، کاٹن کباب، شامی کباب، دکنی کباب، عربی کباب، ترکی کباب، ایرانی کباب، چینی کباب اور امریکی کباب کھائے۔
سندھی بریانی، پنجابی بریانی، بلوچی بریانی اور پختون بریانی نوش جان کرنے کے علاوہ میں نے سنگاپوری بریانی، برمی بریانی، کورین بریانی، رشین بریانی، اور چائنز بریانی بار بار تناول کی یعنی کھائی۔ آج کل لوگ کھانا کھاتے ہیں۔ کھانا تناول نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ میں نے نمونے نمونے کی ڈیپ فرائیڈ چیزیں کھائیں۔ رج کے کھائیں۔ میٹھی چیزوں کا میں بچپن سے شیدائی ہوں۔ طرح طرح کے کھانے کھانے کے بعد میں سوئٹ ڈشز پر ٹوٹ پڑتا تھا۔ سینکڑوں قسم کی آئس کریمیں، طرح طرح کی پڈنگ، شاہی ٹکڑے، فیرنی، فالودہ، اور مٹھائیوں سے صحیح معنوں میں لذت رمضان کے مزے اٹھاتا رہا۔ بابرکت رمضان کے مہینے میں شاید ہی ایسا دن گزرا ہو جب مجھے افطار ڈنر پارٹی کے لئے دعوت نہ ملی ہو۔ میری پبلک ریلیشنگ کمال کی ہے۔ ویسے بھی سال بھر میری شامیں دعوتوں میں آتے جاتے گزر جاتی ہیں۔ خاص طور پر رمضان مقدس کے مہینے میں میرے پاس افطار ڈنر کے بیشمار دعوت نامے آتے ہیں۔ کبھی کبھی تو افطار ڈنر کے لئے انتخاب کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ کس کی دعوت میں جائیں، کس سے معذرت کرلیں! یہ دشوار مرحلہ ہوتا ہے۔ کوئی وجہ تو ہے کہ ٹیلیوژن والوں نے حرمت اور برکت رمضان کو لذت رمضان کا نام د ے دیا ہے۔
عام طور پر لوگ لذت رمضان کے نام پر اس قدر ڈٹ کر کھاتے پیتے ہیں، بلکہ اوور ایٹنگ کرتے ہیں کہ ماہ رمضان کے وداع ہونے کے بعد بیمار پڑ جاتے ہیں۔ لوگ ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ بدہضمی ، پیٹ میں مروڑ، سینے کی جلن، قے ، دست وغیرہ کثرت سے لوگوں کو جکڑ لیتے ہیں۔ رخصت رمضان کے بعد لذت رمضان کے مزے صحیح معنوں میں ڈاکٹر لوٹ لیتے ہیں۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بے تحاشہ کھانے پینے کے باوجود رخصت رمضان کے بعد میں بیمار کیوں نہیں پڑا؟ میرے پیٹ میں مروڑ کیوں نہیں اٹھے؟ میرا دل بار بار ڈوبنے کے بعد تیزی سے کیوں نہیں دھڑکتا؟ اس قدر بے رحمی سے تلی ہوئی چیزیں کھانے کے باوجود میرے جگر اور گردوں میں خرابی کیوں نہیں پیدا ہوئی؟ لذت رمضان کے بھرپور مزے اٹھانے کے بعد میں اب تک سانس کیسے لے رہا ہوں؟ اصولاً مجھے دنیا سے رخصت ہوجانا چاہئے تھا۔ وہ خوش نصیب ہوتے ہیں جو ماہ رمضان میں گناہوں اور بدکاریوں سے بھرپور یہ غلیظ دنیا چھوڑ دیتے ہیں۔ لذت رمضان کے مزے اٹھانے کے بعد میں اب تک زندہ اور صحت مند کیسے ہوں؟
اس میں میرا کوئی کمال نہیں۔ اس میں سارا کمال ادویات بنانے والی فارماسیوٹیکل کمپنیز کا ہے۔ فارماسیوٹیکل کمپنیز نے ایسی ایسی ادویات بنائیں کہ سحری کے بعد ایک دو گولیاں پھانکنے سے دن بھر مجھے پتہ نہیں چلتا تھا کہ میں نے روزہ رکھا ہے۔ بھوک لگتی تھی نہ پیاس لگتی تھی۔ کسی قسم کی کمزوری محسوس نہیں ہوتی تھی۔ افطار کے بعد دوچار لکڑ ہضم پتھر ہضم، سیمنٹ ہضم، سریا ہضم قسم کی ادویات کھانے کے بعد میں اپنے آپ کو زیادہ ہشاش بشاش محسوس کرتا تھا۔ اپنے آپ کو تازہ توانا محسوس کرتا تھا۔ اب میں پھر سے اگلے سال لذت رمضان کے مزے لوٹنے کا منتظر ہوں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین