• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چائنہ کے وزیر اعظم چواین لائی کو 1970کی دہائی کے اوائل میں کینسر کا موذی مرض دریافت ہوا۔ اس رہنما نے اس مہلک بیماری کے بارے میں کھوج لگانے کے لئے سرکاری حکم جاری کیا۔ چین کے امریکہ سے تعلقات پہلی دفعہ یعنی تازہ، تازہ1972 میں قائم ہوئے تھے تو اس عظیم رہنما نے امریکہ کی علمی ترقی اور برتری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک امریکی پروفیسر کی سربراہی میں چین میں کینسر پر ریسرچ کرنے کے پراجیکٹ کا حکم دیا۔ عظیم رہنمائوں کی یہی پہچان ہوتی ہے کہ وہ قوم کا سوچتے ہیں کیونکہ اگر ان کو ذاتی فکر زیادہ ہوتی تو وہ خود علاج کروانے امریکہ روانہ ہوجاتے۔ یہ پراجیکٹ جس کا مقصد کینسر کے مرض کا کھوج لگانا تھا کا ذمہ چائنہ کی میڈیسن اکیڈمی، کارنل یونیورسٹی اور آکسفورڈ یونیورسٹی کو دیا گیا۔ امریکی پروفیسر Cambleاس کے ڈائریکٹر تھے۔ اس پراجیکٹ کے تحت 1973سے1975کے درمیان چین کے 65 مختلف انتظامی علاقوں میں کینسر اور دیگر موذی مرض کا پتہ چلانا تھا۔اس کے تحت پورے چین کے 88 کروڑ لوگوں کا سروے کرکے بالخصوص کینسر اور دیگر امراض کے متعلق ڈیٹا اکٹھا کیا گیا۔ پتا یہ چلا کہ چین کے وہ علاقے جہاں جانوروں سے حاصل ہونے والی خوراک یعنی گوشت زیادہ استعمال ہوتا ہے، وہاں شرح اموات زیادہ نکلی حتیٰ کہ حاصل شدہ اعدادو شمار سے یہ بھی انکشاف ہو اکہ جن علاقوں میں گوشت کا استعمال زیادہ تھا اور لوگوں میں تلی ہوئی مرچ مسالوں والی خوراک کھائی جاتی ہے وہاں بیماریوں کی شرح سوفیصد تک زیادہ نکلی۔ ایک ہی ملک کے مختلف علاقوں میں امراض اور اموات کی شرح میں 100 فیصد تک کے فرق کی موجودگی پر پریشان کن حیرانی کا اظہار کیا گیا اور اس معاملے کی مزید کھوج کی جستجو مزید بڑھ گئی۔ اس جستجو اور تحقیق کے لئے20 سال وقف ہوئے اور تحقیق مکمل ہونے پر 2005 میں کتاب شائع کی گئی جس کا نام The China Study رکھا گیا۔ اب آئیے اس کتاب میں ہونے والی تحقیق کے نتائج پر جس کے بارے میں جاننے کا تجسس آپ میں بڑھ چکا ہوگا مگر آپ کو خوشگوار حیرت بھرا خزانہ جان کر یہ خوشی ہوگی کہ چین کے جن علاقوں میں بیماریوں اور اموات کی شرح80 سے100 فیصد تک کم تھی جبکہ ان کی صحت کا راز صرف یہ نکلا کہ ان علاقوں کے لوگ جو خوراک کھاتے تھے وہ تازہ سبزیاں، سلاد اور پھل ہوتے تھے۔ یعنی ان علاقوں کی غذا مرچ مسالوں سے تلی ہونے اور گوشت کے بجائے تازہ سبزیوں اور پھل اول تو کچی حالت میں کھاتے تھے یا اگر وہ سبزیاں پکا کر بھی کھاتے تو اس میں مرچ مصالحے اور گھی کی مقدار کم ہوتی تھی اور یہی وجہ تھی بلکہ آج بھی ہے کہ ان علاقوں میں شرح امراض بہت زیادہ کم ہے۔ اس کتاب میں خوراک کے متعلق تین ہدایات کی گئی ہیں۔ سب سے پہلی ہدایت یہ ہےEeat Plant, Eeat Rainbow اس کا مطلب یہ ہے کہ کہ پودوں سے حاصل ہونے والی سبزیاں، سلاد اور پھل کھائیں۔ Eat Rainbows کا مطلب یہ ہے کہ پودوں کو اپنے اصلی رنگوں سمیت کھائیں۔ پھلوں اور سبزیوں کے رنگوں میں ایسے قدرتی اجزاء ( antitoxidants) پائے جاتے ہیں جو ہمیں بیماریوں سے بچاتے ہیں۔ اس کی مزید تشریح یہ ہے کہ اگر آپ ہنڈیا بھی پکائیں تو بہت زیادہ درجہ حرارت پر پکا کر یا ان کو اس حد تک نہ تلیں کہ ان کے اصلی رنگ شکل کھو دیں۔ کتاب کا دوسرا نچوڑ یہ ہے کہ جانوروں سے حاصل ہونے والی خوراک بالخصوص گوشت اور گوشت میں بھی گائے، بھینس کا گوشت، میں جسے ہم عرف عام میں بڑا گوشت کہتے ہیں کم سے کم کھائیں۔ بالخصوص اگر آپ کو جسمانی مشقت والا طرزِ زندگی نہیں رکھتے ہیں تو گوشت کا استعمال کم ترین کردیں۔ کتاب کی تیسری بڑی ہدایت یہ ہے کہ Processedفوڈ سے مکمل اجتناب کریں Processed فوڈ سے مراد بالخصوص وہ غذا ہے کہ جو Ready Madeشکل میں نیم یا مکمل تیار شدہ حالت میں ملتی ہے اور لوگ ایسی خوراک کو گھر لاکر گرم کرکے یا گھی میں تل کر کھاتے ہیں۔ واضح رہے کہ گھی میں تلی ہوئی اشیا کو Diesel خود کہا جاتا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ جس طرح زمین سے نکلنے والے تیل کی سب خراب حالت والے تیل کو Dieselکہا جاتاہے اور Dieselپر چلنے والی گاڑی کی زندگی نہ صرف کم ہوتی ہے بلکہ یہ گاڑیاں سب سے زیادہ دھواں اور آلودگی پیدا کرتی ہیں۔ اسی طرح گھی میں تلی ہوئی چیزیں یعنی Food Diesel اول تو ہضم ہونے میں زیادہ وقت لیتی ہیں اور ہضم ہو بھی جائیں تو جسم کے اندر Diesel Oil کی طرح زیادہ بیماریاں پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ اس کتاب کی افادیت کو عام کرنے کے لئے ایک ڈاکیومینٹری Forks Over Knives کے نام سے بنائی گئی ہے جس میں اس تحقیق کے خالق نے خود بھی کام کیا ہے۔ اس فلم کا عنوان بھی تجویز کرتا ہے کہ کھاتے وقت Fork یعنی کانٹے سے کھائی جانے والی چیزوں، سبزیوں اور پھلوں کو Knive چاقو سے کھائی جانے والی چیزوں، گوشت پر ترجیح دیں۔ سابق امریکی صدر کو دل کا عارضہ خطرناک حد تک بڑھا تو آخری حل کے طور پر چائنا اسٹڈی کے نسخے کو آزمایا گیا اور وہ صحت یاب ہوگئے جبکہ بات شروع ہوئی تھی۔ چین کے وزیر اعظم کو کینسر کا مرض لاحق ہونے سے تو ذہن میں آتا ہے کہ ہماری قوم کو کرپشن کے کینسر نے بری طرح جکڑ رکھا ہے اور کرپشن کے کینسر میں سیاسی، سرکاری مشینری، کاروباری حضرات گویا پوری قوم شکار نظر آتی ہے۔ پاکستان میں کرپشن کے کینسر پر ہر طرح کے مکمل سروے تو ہو چکے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کیا کوئی ایسا لیڈر بھی آئے گا جو قومی سطح پر نسلوں سے جاری اور نس نس میں لاحق کرپشن کے کینسر سے نجات دلاتا ہے یا نہیں۔ ہاں یاد رہے چین میں بڑی کرپشن کی سزا موت ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین