• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈالرکےمقابلے میں روپے کی گراوٹ جیسے اقدام سےگریز کیاجائے،مفسرملک

کراچی ( اسٹاف رپورٹر) کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر مفسر عطا ملک نے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے پہلے کہ حالات مزید خراب ہوں حکومت کو ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں گراوٹ جیسے اقدام سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ دوسری صورت میں ہمارے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ کاروبار کے لیے سازگار ماحول مہیا کرنے کے اقدامات کرے جو ملکی معیشت کو بحران سے نکال کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کا واحد راستہ ہے۔ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ منگل کے روز ڈالر 122روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا جسے کنٹرول کرنے کے اشد ضرورت ہے بصورت دیگر اس کے پہلے سے ہی کمزور معیشت پر تباہ کن اثرات ہوں گے ۔ایک بیان میں انہوں نے کہاکہ حکومت نے 6 ماہ کے دوران پاکستانی روپے کی قدر میں تیسری مرتبہ کمی کی ہے اور روپیہ مسلسل گرواٹ کا شکار ہے جس سے خدشہ ہے کہ ملک کو بیل آؤٹ پیکیج کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑسکتا ہے۔انہوں نے کہاکہ ہمیں ڈرہے کہ ملک کے کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستانی روپیہ اگلے چند ماہ میں مزید گراوٹ کا شکار ہو سکتا ہے۔ ماضی میں اس طرح کے روپے کی گراوٹ سے اقتصادی بحران کا سامنا کرنا پڑا جو کئی سال تک جاری رہا لہٰذا ایسے کسی بھی اقدام سے گریز کرنا چاہیے جو ماضی میں ناکام ہوچکے ہوں۔ پاکستان جیسے ملک میں میں کرنسی کی گراوٹ معیشت پر طویل عرصے تک منفی اثرات مرتب کرنے کا باعث بنتی ہے۔مفسر ملک نے مزید کہا کہ اگرچہ ڈالر کی قدر میں اضافے سے برآمدکنندگان وقتی طور پر خوش ہوں گے اور ملکی معاشی اعداد شمار برآمدات میں بہتری ظاہر کریں گے تاہم یہ بہتری صرف ڈالر کی قدر کے باعث ہو گی جبکہ برآمدات کا حجم وہی رہے گا۔حقیقت یہ ہے کہ کاروباری لاگت میں مسلسل اضافے کی وجہ سے دنیا کے کئی حصوں میں ہماری برآمدات تیزی کم ہورہی ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ یہ حقیقت ہے کہ اگر پیٹرولیم قیمتیں جو پہلے ہی بہت زیادہ ہیں ان میں مزید اضافہ ہوا تو فیول پر چلنے والے تھرمل پاور جنریشن پلانٹس سمیت تمام مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ایسے وقت میں جب الیکشن قریب ہیں اور عدم استحکام کی صورتحال ہے۔ملک غریب اور متوسط طبقے کی زندگیوں کو مزید مشکل بنانے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
تازہ ترین