• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ووٹرز ڈیٹا شیئرنگ ایشو، سیاسی جماعتوں کی جانب سے الفاظ کا توڑ مروڑ

ووٹرز ڈیٹا شیئرنگ ایشو، سیاسی جماعتوں کی جانب سے الفاظ کا توڑ مروڑ

اسلام آباد (انصار عباسی) آج سیاسی جماعتیں جبکہ ’’ووٹرز ڈیٹا‘‘ کے بیرونی عناصر کے لئے افشاء پر شور مچارہی ہیں۔ دی نیوز نے 27اپریل 2018 ہی کو انکشاف کردیا تھا کہ کس طرح پارلیمنٹ نے خود ہی نادرا کی مخالفت کے باوجود الیکشن ایکٹ 2017 منظور کیا جس میں ڈیٹا کی شیئرنگ سے متعلق قانون بھی شامل ہے۔ نادرا اور الیکشن کمیشن کے حکام نے انتخابی اصلا حا ت کے لئے قائم پارلیمانی کمیٹی کو خبردار کیا تھا کہ وہ 10کروڑ سے زائد ووٹرز کا ڈیٹا یبس افشاء نہ کرے۔ جس سے اس کے ہیکرز اور مجرمانہ ذہنیت کے حامل عناصر کی جانب سے ممکنہ غلط استعمال کے خدشات ہیں۔ لیکن ارکان پارلیمنٹ نے نادرا اور الیکشن کمیشن کے سنگین تحفظات اور خدشات کو نظرانداز کردیا۔ الیکشن ایکٹ 2017کی دفعہ۔79(3) کو ان دونوں اداروں کے ماہرین نے بڑی سنجیدگی سے مشکل اور مشتبہ سمجھا ۔ لیکن سیاسی جماعتوں نے ووٹرز تک دسترس کے لئے انہیں نظر انداز کردیا۔ دفعہ (79) کے تحت حتمی ووٹرز فہرستوں کی فراہمی اور (1) الیکشن کمیشن ہر انتخابی حلقے میں ریٹرننگ افسر کو اندرون حلقہ انتخابی علاقوں میں حتمی انتخابی فہرستوں کی نقول فراہم کرے گا۔ (2) ریٹرننگ افسران ہر پولنگ اسٹیشن کے پریزائیڈنگ افسر کو یہ حتمی انتخابی فہرستیں فراہم کریں گے۔ (3) امیدوار یا اس کے انتخابی ایجنٹ کی درخواست پر ڈسٹر کٹ الیکشن کمشنر یا الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی مجاز افسر امیدوار یا اس کے الیکشن ایجنٹ کو ہارڈ کاپی اور یونیورسل سیریل بس (یو ایس بی) پر سوفٹ کاپی پورٹیبل ڈاکیومنٹ فورمیٹ (پی ڈی ایف) میں یا دیگر کسی ٹیمپرپروف فورمیٹ میں ووٹرز کی تصاویر کے ساتھ حتمی انتخابی فہرستیں فراہم کرے۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ فراہم کردہ نقل ریٹرننگ اور پریزائڈنگ افسران کے پاس حتمی انتخابی فہرستوں کی نقول یکساں ہو۔ گزشتہ اپریل میں اخبار نے خبردار کردیا تھا کہ ایکٹ میں اس حوالے سے قانون ووٹرز ڈیٹا کو غیر محفوظ کردے گا۔ ایک سائبر سیکورٹی ماہر کے مطابق 10کروڑ (4)لاکھ ووٹرز کے ڈیٹا بیس کی دستیابی جو دراصل نادرا کے سٹیزنز ڈیٹا بیس سے اخذ ہے۔ وہ ہر پاکستانی شہری کی تصاویر کے ساتھ شناخت کی پرائیویسی کے حوالے سے تباہ کن ہے۔ جس کے نتیجے میں اس کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ ووٹرز ڈیٹا کی سوفٹ کاپی کوفوری طور پر نقل اور ایک بٹن دباکر منتقل کیا جاسکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں سول رجسٹری اور ووٹرز ڈیٹا بیس جیسے قومی اثاثے کو بھاری نقصان پہنچ سکتا ہے۔ گوکہ کچھ سیاسی جماعتیں اعداد وشمار کے افشاء پر چیئرمین نادرا کو ہدف تنقید بنارہی ہیں۔ سرکاری دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ نادرا اور الیکشن کمیشن دونوں ہی نے انتخابی اصلاحات پر پارلیمانی کمیٹی کو خبردار کردیا تھا کہ وہ مذکورہ عمل سے باز رہیں۔ تاہم باخبر ذرائع کے مطابق کمیٹی نے نہ صرف الیکشن کمیشن اور نادرا کی تشویش کو مسترد کردیا بلکہ اپنے حکام کو بھی نظرانداز کیا۔ انتخابی اصلاحات پر پارلیمانی کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کے (88) ویں اجلاس کی تفصیلات کے مطابق نادرا کے نمائندوں کے جو تحفظات تھے، ذیلی کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ یہ تحفظات تحریری شکل میں انتخابی اصلاحات کمیٹی کو دیئے جائیں۔ جس نے اپنے گزشتہ اجلاس میں اس ایشو کے بارے میں فیصلہ کیا تھا۔ ذرائع کے مطابق نادرا اور الیکشن کمیشن نے یہ قومی ڈیٹا ملکی وغیر ملکی ہیکرز ، ملک دشمن عناصر اور دیگر مجرمانہ ذہنیت کے حامل افراد کے ہاتھوں لگ جانے کا بھی خدشہ ظاہر کیا تھا۔ تاہم جب معاملہ انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی میں آیا تو خدشات کو مسترد کردیا گیا اور کمیٹی نے اسے انتخابی ایکٹ 2017کے لئے تجاویز کا جزو بنانے کا فیصلہ کیا۔ 

تازہ ترین