• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی منظرنامہ،نوازشریف کوتاسیسی رہنمائوں کا ساتھ چھوڑنے کا جائزہ لیناچاہئے

اسلام آباد(طاہر خلیل)سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کے بیان پر سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی اور پیپلز پارٹی کے رہنما حاجی نواز کھوکھر کا اظہار تشکر لائق تحسین ہے جس میں چوہدری نثار نےمیاں نواز شریف کو مسلم لیگ(ن) کا صدر بنانے پر حاجی نواز کھوکھر کے کردار کا تذکرہ کیا تھا۔مبصرین کے مطابق دو سیاسی حریفوں کے مابین مثبت مکالمہ آرائی نے سیاست میں شائستگی اور رواداری کی شاندار مثال قائم کی ہے اس کے ساتھ سیاسی تاریخ کے کئی غیر مبہم پہلوئوں کو بھی اجاگر کیا ہے۔1993ء میں اس وقت صدر غلام اسحق خان اور وزیراعظم نواز شریف کے درمیان آٹھویں ترمیم کے خاتمے اور فوجی سربراہوں کی تقرری پرشدید اختلافات پیدا ہوچکے تھے،سیاسی محاذ پر محمد خان جونیجو کی جگہ میاں محمد نواز شریف کو مسلم لیگ کا صدر بنانے کی تجویز سے جونیجو گروپ میں انتشار پیدا ہوگیا تھا۔ ان ہی دنوں جنرل بیگ سپریم کورٹ میں بیان دے چکے تھے کہ سپریم کورٹ میں جونیجو حکومت کی بحالی کا فیصلہ میں نے رکوایا تھا اور وسیم سجاد آرمی چیف کا پیغام لے کر سپریم کورٹ گئے تھے۔ وسیم سجاد نےاس بیان کی تردید کردی تھی لیکن19 مارچ 93 کو محمد خان جونیجو کے انتقال کے ساتھ ان کی تدفین سے پہلے ہی مسلم لیگ کی صدارت کا جھگڑا شروع ہوگیا۔نواز شریف محمد خان جونیجو کےجنازے میں تو شریک نہ ہوسکے تاہم تین روز بعد وہ خصوصی طیارے میں میرپورخاص سے سندھڑی پہنچے۔ میاں نواز شریف کے اس سفر میں کوئی سیاسی شخصیت ہمراہ نہیں تھی۔ صحافتی برادری میں سے صرف مجھے ہی ان کے ہم سفر ہونے کاموقع ملا تھا۔ اس سفر میں میاں صاحب نے اپنے پارٹی صدر انتخاب اور آٹھویں ترمیم کے حوالے سے صدر اسحق سے اختلافات کا پس منظر بیان کیا تھا۔طاقتور ایوان صدر کےدبائو کی وجہ سے اسلام آباد کے کسی بھی ہوٹل نے جنرل کونسل کے اجلاس کی میزبانی سے انکار کردیا۔معاملہ جب نواز شریف تک پہنچا تو وہاں بیٹھے حاجی نواز کھوکھر نے ساتھ ہی پیشکش کی کہ جنرل کونسل ضرور ہوگی اور وہ اپنے گھر پر یہ اجلاس بلائیں گے۔26مارچ 1993 مسلم لیگ(ن) کا تاسیسی دن تھا جب ناظم الدین روڈ پر حاجی نوازکھوکھر نے اپنی رہائش گاہ کےسامنے پارکنگ ایریا پر شامیانے لگواکر جنرل کونسل کا کامیاب اجلاس منعقد کرکے میاں نوازشریف کو پارٹی کا صدر بنوایا تھا۔ 12 افراد نے مسلم لیگ (ن) کی بنیاد رکھی ان میں میاں صاحب کے ساتھ چوہدری شجاعت حسین، حاجی نواز کھوکھر، چوہدری نثار علی خان، جنرل مجید ملک، رانا نذیر احمد خان، صدیق کانجو، میاں عبدالستار لالیکا، گوہر ایوب خان، ملک نعیم خان، غوث علی شاہ، شیخ رشید احمد شامل تھے۔آج ٹھیک جب ربع صدی قبل رونما ہونے والے مسلم لیگ(ن) کے قیام کے واقعے کو دیکھتے ہیں تو چوہدری نثار علی خان کا موقف درست ثابت ہوتا ہے کہ اس پارٹی کے تاسیسی 12 رہنمائوں میں سے آج کوئی بھی میاں صاحب کےساتھ موجود نہیں۔نوازشریف اور ان کی پارٹی کے دیگر قائدین کو لمحہ بھر رک کر سوچنا چاہیے کہ آخر کیا اسباب ہیں کہ بانیان مسلم لیگ(ن) نے 25 برس قبل میاں نوازشریف کی قیادت سونپ کر جس سفر کا آغاز کیا تھا آج ان میں سے ایک بھی ان کا ہم سفر نہیں۔ٹکرائو اور جارحانہ سیاست سے کدورتیں اور نفرتیں قوم کو تقسیم کرتی ہیں، قوم تقسیم ہوتو ووٹ کے ذریعے مینڈیٹ بھی منقسم ہوگا۔
تازہ ترین