• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ادبِ عالیہ کی تخلیق اور انسانی شعور

سید ریاض حسین زیدی

جب جذبے کی آنچ، احساس کے حلقے، سوچ کی لکیر اور تخیل کی پرواز کو فنی عظمت سے ہم کناری نصیب ہوتی ہے تو ادبِ عالیہ کی تخلیق سے انسانی شعور میں بالیدگی جنم لیتی ہے، فکری تسلسل کوجلا نصیب ہوتی ہے اور دل کی دھڑکن میں حسن ورعنائی کے عناصر جاگزیں ہوجاتے ہیں، ادب ذہن کی پاکیزگی اور جذبے کی نفاست سے ظہور پذیر ہوتا ہے، جب سوچ کے وسیع سمندر میں جوار بھاٹا پیدا ہوتا ہے، جب جذبے کی آنچ شعلہ وار کا روپ دھارتی ہے اور جب فکر کی رفعتیں آسمان کی وسعتوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہیں تو ادب کا لافانی حسن منصۂ شہود پر ابھرتا ہے، ادب کی معراج سے دلوں کو کشادگی اور ذہنوں کو وسعت کی لازوال دولت نصیب ہوتی ہے۔

اچھا ادیب، احساسِ شکست سے نا آشانا ہوتا ہے، وہ زندگی کے لئے بے ڈھب، بدوضع اور غلط رویوں سے سمجھوتا نہیں کرتا.... وہ خیر کا داعی اور ہنر وری کا مداح ہوتا ہے، وہ بہتری کی تخلیق اور برائیوں کی تکذیب پر کار بند رہتا ہے، انصاف کا پرچم بلند رکھنا، اس کا نصب العین ہوتا ہے، حق اور سچائی کی دائمی رفاقت اس کا توشۂ آخرت ہے، غلط کاری سے ذہنی ہم آہنگی ایک اعلیٰ ادیب اور حساس تخلیق کار کے کبھی شایانِ شان نہیں رہی .... جب کبھی حقائق کا منہ چڑایا جاتا ہے، ناحق کو ’’طرۂ فضیلت‘‘ پہنایا جاتا ہے، اور نا انصافی اور تشکیک کو’’روحِ عصر‘‘ قرار دیا جاتا ہے، جب لایعنیات کو سر آنکھوں پر بٹھانے کا چلن عام ہوتا ہے، سچا ادیب اس رواج کی خبر لیتا ہے اور اسے ہر اعتبار سے بے وقعت قرار دینے کی عملی تدابیر اختیار کرتا ہے، یعنی خود بے معنی اور تشکیک آمیز ادب تخلیق نہیں کرتا، اس کے اندر کا انسان جاگتا رہتا ہے اور اس کا قلم ضمیر کی پاکیزگیوں کو آشکار کرنے اور غلط کاریوں کو سرنگوں کرنے کے لئے جہدِ مسلسل کرتا ہے، ہر دور نے اعلیٰ ادیبوں کو جنم دیا ہے، وجہ ظاہر ہے کہ ضمیر کی کسک اور فکر کی خلش کبھی موت سے ہم آغوش نہیں ہوتے، جو لوگ ضمیر کی چھبن اور فکر کی آب داری سے مجروح ہوجائیں، وہ اور تو سب کچھ ہوسکتے ہیں، ادیب اور فن کار نہیں ہوسکتے، جن لوگوں کا ادب سے والہانہ لگائو ہوتا ہے، وہ راست باز ہوتے ہیں، ان کے افکار میں کوئی جھول نہیں ہوتا .... وہ طمع اور حرص کی چمک سے اپنی آنکھوں کو خیرہ نہیں ہونے دیتے، ملکی سیاست پر ان کا ایمان کسی شک و شبہ سے بالا ہوتا ہے، مملکت کی نظریاتی اساس ان کا محور فکر ونظر رہتی ہے، وہ مصلحت کے نخچیر نہیں بنتے، زمانہ سازی ان کا ذہنی سرمایہ اور قلبی سکون غارت نہیں کرتی، وہ کردار کی پختگی کے جاوداں نقوش جریدۂ عالم پر ثبت کرتے ہیں، فکر آمیز متانت اور خیال افروز جذبے کی ضوفشانی ان کا مقصد ہوتا ہے، کسی بیرونی شکست وریخت سے ہم نوائی ان کو راس نہیں آتی، کیوں کہ وہ سلامت روی کی متاعِ فکر ونظر بناتے ہیں اور شرافت سے ناتا جوڑتے ہیں، توازن، اعتدال، میانہ روی اور وضع داری کے اوصافِ حمیدہ ان کے ذہنی وقلبی خدوخال کو نکھارتے ہیں، قلم کا دھنی کسی منفی اکھاڑ پچھاڑ میں حصہ دار نہیں بنتا، گروہ بندی میں اپنے آپ کو نہیں جکڑتا، منافرت کی گفتگو میں اپنی زبان کو آلودہ نہیں ہونے دیتا، وہ توڑ پھوڑ پر نفرین بھیجتا ہے، وہ اول و آخر دیانت، احساس اور شرافتِ فکر ونظر کا پاس دار ہوتا ہے، اور ان سے دست برداری کا خیال کرنا بھی اپنی توہین گردانتا ہے، جن لوگوں نے قلم کی آبرو کو تاخت وتاراج کیا ہے اور زمانے کی غلط کاریوں سے سمجھوتہ کرنے میں عافیت سمجھی ہے، وہ قلم کاروں کے قافلۂ سخت جان کے کبھی ارکان نہیں رہے، وہ اصل میں غلط کاریوں کی اونچی دکان کے بیوپاری ہیں، جن کا تقدیسِ قلم سے دُور کا بھی واسطہ نہیں رہا۔

ہمیں ایسے ادب کی ضرورت ہے، جو لکھنے اور پڑھنے والوں کو ضمیر دار بنائے، حقائق کی پرکھ اور سچائی کی پہچان کا سلیقہ عطا کرے، نیکی کا خوگر بنائے اور فساد ونظر کی بجائے طمانیتِ قلب وجگر کے جوہر سے مالا مال کرے، ظاہرہے کہ ایسا ادب سچائی سے تعلقِ خاطر جوڑنے اور اس کو اوڑھنا بچھونا بنانے سے ہی معرضِ وجود میں آسکتا ہے، ہم جس آفاقی اور بین الاقوامی ادب کے بلند بانگ نعرے سنتے رہتےہیں اور جن عالمی انسانی تحریروں کی آوازیں ہمارے کان میں پڑی رہتی ہیں، ان کا وجود سچائی سے مکمل اور غیر مشروط ہم آہنگی کامرہونِ منت ہے، ہمیں ادب کو مفروضوں اور نام نہاد بیرونی چمک دمک سے محفوظ رکھنا ہے، نظم ہویا نثر، ہر ذریعۂ ابلاغ یہ طرۂ امتیاز اپنے سرپر سجائے رکھے کہ اس سے اقدار خیر کی ترویج ہو، اعلیٰ ترین اخلاقی رویوں کی پرورش وپرداخت ہو، لیکن ایسا ادب محض تبلیغ کا خشک اور بے روح گورکھ دھندہ بھی نہ بن جائے .... ضرورت ہے کہ ہماری قلم کاری کسی مثبت نصب العین کی غماز ہو، محض لفظوں کے طومار باندھنا اور مدعا سے برات کلی اختیار کرنا ادب کی قلم رو سے کوسوں دور بسنے کے مترادف ہے، لہذا ایسا ادب تخلیق ہونا چاہے جوہمیں سچائی، اخلاص اور دروں بینی کا خوگر بنائے۔

تازہ ترین