اہلیہ کو خوش رکھنا گو کہ ہے تو بہت مشکل کام مگر اس مشکل کو آسان کرنے کے لیے سیانوںکی جانب سے 10 رہنما طریقے بتائے گئے ہیں جن پر عمل کرکے ایک خوشگوار ازدواجی زندگی بسر کی جاسکتی ہے۔
ان 10 آسان طریقوں میں سے سب سے پہلا یہ ہے کہ اہلیہ کا موڈ خوشگوار رکھنے کے لیے مہینے میں کم از کم ایک مرتبہ کسی بھی قسم کا تحفہ ضرور دیا جائے ۔
دوسرے نمبر پر آتا ہے بیوی کی باتوں کو اہمیت دینا، آپ کی اہلیہ جب بھی آپ سے کوئی بات کریں تو اپنی تمام تر توجہ ان کی جانب مرکوز رکھیں اور ان کی بات کو غور سے سنیں تاکہ ان کی بات کو ٹھیک سے سمجھا جا سکے۔
اس کے بعد باری آتی ہے اہلیہ کی آپ سے اور گھر سے متعلق خدمات کو سرہانے کی، مطلب یہ کہ اپنی اہلیہ کی دن بھر کی مصروفیات سے متعلق کام پر حوصلہ افزائی کی جائے اور ان کی جانب سے پیش کی گئی خدمات کو اچھے لفظوں میں سراہایا جائے۔
چوتھا آزمودہ طریقہ ہے کہ اپنی اہلیہ کو اس بات کا بار بار احساس دلایا جائے کہ ان کی اہمیت آپ کی زندکی میں بہت زیادہ معنی رکھتی ہےاور آپ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہو چکے ہیں۔
پانچواں طریقہ گو کہ تھوڑا سا مشکل ہے مگر یہ بہت ضروری بھی ہے ، طریقہ یہ ہے کہ اپنی اہلیہ کو وقت نکال کر تھوڑی دیر کے لیے کہیں گھمانے ضرور لے کر جائیں۔ اس سے آپ کو ان کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع بھی میسر آئے گا اور ذہنی طور پر وہ تر و تازہ بھی محسوس کریں گی۔
اس کے بعد باری آتی ہے تجدید عہد وفا کی۔ اس چھٹے طریقے کے مطابق آپ دن میں کم از کم ایک بار اہلیہ سے اپنی محبت کا اظہار لفظوں میں ضرور کریں، کیونکہ پیار بھرے لفظوں کی زندگی میں بہت اہمیت ہوتی ہے۔
ساتویں طریقے کے مطابق مہینے میں ایک دن اپنی اہلیہ کو آرام کے لیے ایک مکمل دن دیں اور اس دن آپ گھر اور بچوں کی ذمے داری خود سنبھالیں ۔ اس سے آپ کو بہت کچھ ایسے مسئلوں کا بھی پتہ لگے گا جو آپ کی اہلیہ کو عموماًگھر داری میں پیش آتے ہوں گے۔
بیوی کی خوشی آپ کے گھر کے ساتھ ساتھ اپنے والدین اوربہن بھائیوں سے بھی منسلک ہوتی ہے لہذا آٹھویں طریقے پر عمل کرتے ہوئے آپ اہلیہ کو مہینے میں ایک مرتبہ میکے ضرور بھیجا کریں۔
نویں طریقے کے مطابق ان عادات سے اجتناب کریں جو آپ کی اہلیہ کو نا پسند ہیں کیونکہ اپنی بری عادتو ں پر ڈٹے رہنا اور اہلیہ کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے زندگی گزارنا بالکل ایسا ہے جیسے ایک رویہ سڑک پر آمنے سامنے گاڑیوں کا آجانا۔
دسویں طریقے کے مطابق ہمیشہ بیوی سے آرام سے بات کریں اور ان کی غلطیوں پر ڈانٹنے کے بجائے پیار سے سمجھائیں کیونکہ سخت لہجہ اور بلند آواز کا استعمال سب کر سکتے ہیں مگر اصل کمال کی بات ہے کہ مدبرانہ انداز اپنا کر تصیح کی جائے۔