• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
موجودہ پارلیمنٹ کی مدت مارچ 2013ء میں ختم ہورہی ہے اور آئین کے مطابق تین ماہ کے اندر اندر نئے انتخابات کا انعقاد کرانا ضروری ہوتا ہے تاہم زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ کسی نہ کسی بہانے سے انہیں معرض ِ التوا میں ڈال دیا جائے گا۔ اس وقت سازش کی کئی ایک تھیوریاں گردش میں ہیں ۔ ان کی وجہ سے ہر کوئی انجانی تشویش میں مبتلا ہو رہا ہے۔ ایک تھیوری یہ کہتی ہے کہ صدر زرداری کا اگلے ستمبر، جب اُن کی مدت ِ صدارت ختم ہوگی، میں بھی ایوان ِ صدر چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے کیونکہ اُنہیں اپنے خلاف بنائے گئے بدعنوانی کے بہت سے مقدمات ، جو این آر او کے تحت بند کئے گئے تھے مگر ان کو سپریم کورٹ نے دوبارہ کھول دیا ہے، سے تحفظ کے لئے صدارتی استثنیٰ کی ضرورت ہے۔چنانچہ لوگوں کو خدشہ ہے کہ وہ ایمرجنسی کا کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کرتے ہوئے انتخابات کو ملتوی کر دیں گے کیونکہ آئین میں اس کا جواز موجود ہے۔ جنرل مشرف نے بھی یہی راستہ اختیار کیا تھا جب انہوں نے 2002ء کے انتخابات سے بننے والی پارلیمنٹ سے خود کو2007ء تک کی مدت کے لئے صدر منتخب کروایا۔ تاہم ایک آزاد اور متحرک سپریم کورٹ کی موجودگی میں اس تھیوری میں کوئی جان نظر نہیں آتی ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ عدالت ِ عالیہ کسی نہ کسی معاملے میں زرداری صاحب کے تعاقب میں ہے۔ اس نے صدر صاحب کو مجبور کیا کہ وہ اپنے خلاف مقدمات کی بحالی کے لئے سوئس حکام کو خط لکھیں۔
سپریم کورٹ اس بات پر زور دے رہی ہے کہ ”ایوان ِ صدر“سیاسی سرگرمیوں کی سرپرستی نہ کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زرداری صاحب اب بیک وقت صدر اور پی پی پی کے شریک چیئرمین نہیں رہ سکیں گے۔ تاہم خدشہ ہے کہ اس مسئلے پر ایوان ِ صدر اور سپریم کورٹ میں محاذ آرائی میں شدت آجائے گی۔ اس صورت میں دفاعی ادارے جو بہت سی وجوہات کی بنا پر زرداری صاحب سے نالاں ہیں،اُن کے خلاف اپوزیشن کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیں گے۔
دوسری تھیوری اس سے بھی بھیانک نتائج کی حامل ہے۔ اس کے مطابق مقتدر حلقوں میں یہ خدشہ شدت سے محسوس کیا جارہا ہے کہ اگلے انتخابات کے نتیجے میں مرکز میں ایسی حکومت وجود میں آجائے گی جو ماضی کی طرح اپنی بدعنوانی اور نااہلی کی وجہ سے پاکستان کے لئے نقصان دہ ثابت ہو گی۔ اس مصیبت سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ انتخابا ت کا انعقاد التوا میں ڈال کر ”ماہرین “ پر مبنی ایک حکومت قائم کی جائے اور اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اس میں پی پی پی کو نمائندگی نہ دی جائے۔ وہ قائم کردہ حکومت اس قابل ہو گی کہ پاکستانی معیشت اور سیاست کو مختلف مسائل سے بچانے کیلئے سخت مگر ضروری فیصلے کر سکے۔ ابھی یہ بات واضح نہیں ہے کہ ایسا کس طرح ہوگا مگر حکومتی معاملات میں سپریم کورٹ اور فوج کی بڑھتی ہوئی مداخلت اس کے کچھ خدوخال کا پتہ دیتی ہے۔ نظر یہ آتا ہے کہ کسی نہ کسی بہانے سے زرداری صاحب کو چلتا کیا جائے گا اور ایک نگران سیٹ اپ قائم کرتے ہوئے اگلے سال انتخابات کا عندیہ دیا جائے گا۔ پھر وقت آنے پر ریاست کے دو طاقتور ترین اداروں کی عملی معاونت سے اس مدت میں اضافہ کیا جائے گا۔ بظاہر اس تھیوری میں خاصی جان نظر آتی ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں بننے والا سیٹ اپ موجودہ آرمی چیف اور چیف جسٹس صاحب ، جو اگلے سال بالترتیب نومبر اور دسمبر میں ریٹائر ہونے والے ہیں، کے عہدے کی مدت میں توسیع کیلئے ضروری ہے… اور یہ دونوں صاحبان پاکستان کے موجودہ انتظامی ڈھانچے میں ناگزیر ہو چکے ہیں۔ یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ دونوں چیف صاحبان کچھ عرصہ سے ایسے اقدامات اٹھا رہے ہیں جن سے ان کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہو… آرمی چیف کا کہنا ہے کہ قومی اتفاق ِ رائے کے بغیر طالبان کے خلاف آپریشن نہیں ہوگا ۔ ان کے کچھ بیانات یہ تاثر بھی دیتے ہیں کہ وہ امریکہ کے سامنے سرجھکانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ دوسری طرف چیف جسٹس صاحب بدعنوانی اور جرائم کے اژدھوں کے خلاف جہاد کرنے کے علاوہ اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں کمی لانے جیسے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ حال ہی میں نااہلی کی بنا پر بلوچستان حکومت کو بھی برطرف کر دیا گیا ہے۔ ان حالات میں ہر کوئی یہ توقع کر رہا ہے کہ کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔
وفاقی وزیر ِ اطلاعات قمر الزماں کائرہ کی طرف سے آنے والا بیان کہ اگلے انتخابات مئی میں ہوں گے، بھی حوصلہ افزا نہیں ہے کیونکہ مئی میں درجہ حرارت سیاسی سرگرمیوں اور انتخابات کے لئے موزوں نہیں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ گرمی بڑھنے کی وجہ سے لوڈشیڈنگ میں بھی لامحالہ اضافہ ہو گا۔ اس سے عوام کو تکلیف ہو گی اور اُن کا غصہ پی پی پی کے نمائندوں پر نکلے گا۔ اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان نے جنوری کے آخر میں آئی ایم ایف کو دو بلین ڈالر کی قسط واپس کرنی ہے۔ اس سے زر ِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی واقع ہو گی اور روپیہ شدید دباؤ کا شکارہو جائے گا۔ اس کے نتیجے میں مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہو گا۔ بہتر ہے کہ اس آفت کا سامنا نگران حکومت کو کرنے دیا جائے کیونکہ اسے عوام کے شدید ردعمل سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
اگر سازش کی تھیوریوں سے جان چھڑانی ہے تو بہتر ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ کوآئی ایم ایف کی قسط، مہنگائی کے طوفان اور گرمی اورلوڈشیڈنگ کے عذاب سے قبل یعنی جنوری کے وسط میں تحلیل کر دیا جائے اور مارچ میں انتخابات کا انعقاد ہو جائے تاہم اس کام کے لئے صرف دوماہ کا وقت بچا ہے جبکہ ہم نے چیف الیکشن کمشنر کی نامزدگی میں بھی چھ ماہ لگا دیئے تھے۔ ایک نگران وزیر اعظم اور چار وزرائے اعلیٰ کے ناموں پر اتفاق کے لئے تو کہیں زیادہ لمبا عرصہ درکار ہو گا۔ اگر سیاسی جماعتوں میں جان بوجھ کر یا اتفاقاً کسی نام پر اتفاق نہیں ہوتا تو پھر سپریم کورٹ کی حمایت سے چیف الیکشن کمشنر کے پاس اختیار ہو گا کہ وہ فیصلہ کر سکیں۔ سازش کی دوسری تھیوری کا آغاز اسی اقدام سے ہوتا ہے۔
تازہ ترین