• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی کو بجلی دو۔۔۔

سیّد احمد شعیب

مسائل کے دلدل میں دھنسے کراچی کا ایک بڑا مسئلہ، بجلی کی بے مہار لوڈ شیڈنگ بھی ہے کہ جس نے شہریوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ کہنے کو تو یہاں دو بجلی گھر موجود ہیں، لیکن وہ اپنی استعداد سے کم پیداوار دے رہے ہیں، جس کی وجہ سے بجلی کا شارٹ فال مسلسل بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ پھر یہ کہ اس قدر لوڈ شیڈنگ کے باوجود، بجلی کے بلز میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہی ہوا ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک ایک عام متوسّط گھرانے کا اوسط ماہانہ بل 1000روپے سے 1500روپے تک تھا، لیکن آج اسی طرح کے گھرانوں کو ماہانہ 20ہزار روپے تک بل بھرنا پڑتا ہے۔ یوں آمدنی کا ایک بڑا حصّہ تو ان بلز ہی پر خرچ ہو جاتا ہے، جس کے سبب بچّوں کی تعلیم اور خوراک کے لیے بہت کم پیسے بچ پاتے ہیں۔ کراچی میں شدید گرمیوں میں بجلی کی طلب 2700میگا واٹ تک جا پہنچتی ہے، جب کہ یہاں قائم بجلی گھر 2010میگا واٹ بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔ نیز، نیشنل گرڈ اسٹیشن ایک معاہدے کے تحت کراچی کو 1300میگا واٹ بجلی دینے کا پابند ہے۔ یعنی اپنے بجلی گھروں اور نیشنل گرڈ اسٹیشن سے کراچی کے لیے3310 میگا واٹ بجلی حاصل کی جاسکتی ہے، جو اس کی ضرورت سے610میگا واٹ زاید ہے، لیکن حیران کُن اَمر یہ ہے کہ اس کے باوجود شہر میں بجلی کا مسئلہ حل نہیں ہو پا رہا۔ پوش اور درمیانے علاقوں میں دو سے تین، جب کہ دیگر علاقوں میں 4سے 8گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ معمول کی بات ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ آخر یہ زاید بجلی جا کہاں رہی ہے…؟ شہرِ قائد کو بجلی مہیا کرنے والے ادارے کا نام پہلے کے ای ایس سی تھا، جسے اب K-Electric کہتے ہیں۔ اس ادارے کی کہانی بھی بڑی عجیب وغریب ہے۔ یہ سمجھنا کوئی آسان نہیں کہ اسے کیوں بنایا گیا، کیوں بیچا گیا، بار بار نام تبدیل کرنے کی ضرورت کیوں پڑتی ہے۔ اس کے مالکان کون ہیں، کس کس کی شراکت داری ہے، منافع کہاں جاتا ہے اور یہ کہ بجلی اپنی استطاعت کے مطابق کیوں نہیں پیدا کی جاتی۔ دراصل یہ 104 سال پرانی کہانی ہے۔ انگریزوں نے 1839ء میں سندھ پر قبضے کے بعد کراچی کی تعمیر و ترقّی کے لیے جو اہم منصوبے شروع کیے، اس میں بجلی کی فراہمی کا منصوبہ بھی شامل تھا۔ اُس وقت شہر کی آبادی صرف ایک لاکھ اور کچھ ہزار نفوس پر مشتمل تھی، تو ان شہریوں کو بجلی کی فراہمی کے لیے 13ستمبر1913ء کو’’ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن‘‘ کے نام سے ایک کمپنی قائم کی گئی۔ 1952ء میں حکومتِ پاکستان کمپنی کے زیادہ تر شیئرز حاصل کر کے خود اس کی مالک بن گئی اور اس کا نام تبدیل کرکے Karachi Electric Supply Company رکھ دیا۔ پھر16-03-1953 کو اسے ایک لمیٹڈ کمپنی بنا دیا گیا اور اس کا نام تبدیل کرکے "Karachi Electric Supply Corporation Ltd" کر دیا گیا۔2005ء میں اسے سعودی کمپنی Kingdom Holding Companyکو دے دیا گیا، کیوں کہ اُس وقت کمپنی انتہائی خسارے میں جارہی تھی۔پھر 2009ء میں پی پی پی دورِ حکومت میں اسے انتہائی مستحکم، مضبوط اور مال دار سمجھے جانے والے’’ ابراج گروپ‘‘ کو بیچ دیا گیا، جس کا مرکزی دفتر دبئی میں ہے۔ ابراج گروپ نے کے ای ایس سی کے72.58 فی صد شیئرز خرید لیے تھے، لیکن نہ جانے کیوں وہ2009ء سے2017ء تک بجلی کی پیداوار بڑھا سکا اور نہ ہی ترسیل کے نظام میں کوئی بہتری آ سکی۔ بعدازاں، ابراج گروپ نے 66.4 فی صد شیئرز چینی کمپنی’’ شنگھائی الیکٹرک‘‘ کو بیچنے کا معاہدہ کیا، لیکن نواز شریف کے دورِ حکومت میں حکومت اور ابراج گروپ میں کچھ اختلافات پیدا ہو گئے اور اُسے’’ نیشنل سیکوریٹی سرٹیفیکیٹ‘‘ جاری نہیں کیا گیا کہ جس کے بغیر شیئرز بیچے ہی نہیں جا سکتے تھے۔ تاہم 31مارچ 2018ء کو اُس وقت کے وزیر اعظم، شاہد خاقان عباسی کے زیرِ صدارت کابینہ کمیٹی کے اجلاس میں ابراج گروپ کو نیشنل سیکوریٹی سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ یوں ابراج گروپ کی جانب سے شنگھائی الیکٹرک کو66.4 فی صد شیئرز 1.77بلین(کروڑ) ڈالرز کے عوض بیچنے کی راہ ہم وار ہو گئی۔ اس سب کچھ کے باوجود، عوام کو آج تک یہ علم نہیں ہو سکا کہ کراچی الیکٹرک کا حقیقی مالک کون ہے، اس حوالے سے بہت سی باتیں مشہور ہیں مگر اُن کی بنیاد پر کوئی حتمی رائے قائم کرنا ممکن نہیں کہ ریاستی ادارے تو اس حوالے سے کچھ بھی بتانے پر آمادہ نہیں۔

اب ذرا بجلی بلز پر بھی ایک نظر ڈالتے جائیے۔ کے ای ایس سی بیس سال پہلے، جب وہ ایک حقیقی پاکستانی کمپنی تھی، کچھ نہ کچھ رقم فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں لیتی تھی۔ بل پر علیٰحدہ سے درج ہوتا تھا کہ آپ کی بجلی اتنے روپے کی ہے اور فیول ایڈجسٹمنٹ کی اتنی رقم بنتی ہے۔ پھر لاہور کے کوئی صاحب یہ مقدمہ لے کر ہائی کورٹ پہنچ گئے کہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی رقم صارفین سے کیوں لی جاتی ہے۔ سو، ہائی کورٹ نے فیول ایڈجسٹمنٹ کی رقم عوام سے نہ لینے کا فیصلہ دے دیا، جس کے بعد کے ای ایس سی اور واپڈا نے فیول ایڈجسٹمنٹ کی رقم تو لینا بند نہیں کی، البتہ عوام کو دھوکا دینے کے لیے اس رقم کا بلز پر اندراج بند کردیا۔ بجلی کے بلز پر دوسرا سب سے بڑا ڈاکا شیخ رشید کے دور میں ڈالا گیا، جب وہ وزیرِ ثقافت تھے۔ اُنہوں نے ہی حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ پی ٹی وی لائسنس فیس کو، جو کہ اُس وقت صرف250روپے تھی، بڑھا کر 300روپے کر دیا جائے اور اسے بجلی کے بلز میں شامل کر دیا جائے۔ اس طرح ہر صارف پر ماہانہ صرف25روپے اضافی بوجھ پڑے گا، تو دوسری طرف قریب المرگ پی ٹی وی بھی اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے گا۔ یہ جگّا ٹیکس بلا امتیاز لگایا گیا اور اس کی زَد میں لاکھوں مساجد بھی آگئیں۔ بیش تر مساجد کمیٹیز نے تو درخواستیں جمع کروا دیں کہ’’ یہ مساجد کے میٹر ہیں، جہاں ٹی وی نہیں دیکھا جاتا‘‘، لیکن لاکھوں پاکستانی گھرانے ایسے بھی ہیں، جو پی ٹی وی نہیں دیکھتے، لیکن لائسنس فیس دینے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح فلیٹس میں مقیم لاکھوں افراد بھی اس ٹیکس سے متاثر ہوئے کہ اُنھیں پانی کے میٹرز پر بھی پی ٹی وی لائسنس فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔ چند برسوں تک تو بجلی بلز پر پی ٹی وی لائسنس فیس وصولی باقاعدہ درج ہوتی تھی، مگر اب اس فیس کا بل میں ذکر تو نہیں ہوتا، لیکن وصولی اب بھی جاری ہے۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ وفاقی اور سندھ حکومت کے- الیکٹرک کے معاملات میں شفّافیت لاتے ہوئے عوام کو اصل حقائق سے آگاہ کرے تاکہ اس حوالے سے زیرِ گردش افواہوں کا خاتمہ ہوسکے۔ نیز، دو کروڑ شہریوں کو افسر شاہی کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے انھیں بجلی کی بلاتعطّل فراہمی یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔

تازہ ترین