• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
26 شامی روڈ (آخری قسط)

لکشمی چوک کے رنگین و شوخ فلمی پوسٹرز اور بورڈز سے بَھرے علاقے میں پہلی مرتبہ چکن روسٹ، طباق ریستوران میں متعارف کروایا گیا۔ یہ چھاؤنی میں راحت کے ہاں پہلی مرتبہ ایک نئی ڈش کے طور پر آیا۔جب کبھی میری ایک پھوپھی، داداجی کے ہاں دوسرے شہر سے آتیں، تو اُن کی خاص فرمائش پر یہ روسٹ منگوایا جاتا۔ساتھ میں خستہ گرم روغنی نان، کتری پیاز، کھٹی چٹنی اور ٹھنڈی ٹھار بوتلیں ہوتیں۔

دوآوازیں اکثر راتوں کو سنائی دیتیں۔ قریب میں کینٹ اسٹیشن تھا۔رات کو جب ہُوکا عالم ہوتا تو ٹرین ایک گرج کے ساتھ پلیٹ فارم میں داخل ہوتی۔ اس کی وسِل کی آواز سے لے کر رکنے اور پھر چھکا چھک چلنے کی آوازیں یوں سنائی دیتیں، گویا ہم پلیٹ فارم ہی پر بستر ڈالے لیٹے ہوں۔میری ایک پھوپھی ساہیوال سے آتیں، تو اُنھیں میں اپنے چچا کے ساتھ لینے وہیں جایا کرتا۔ اس کینٹ اسٹیشن سے میرا رومان آج بھی باقی ہے۔ میں نے اپنی زندگی کی بے شمار شامیں وہاں بینچ پربیٹھے، مسافروں کو آتے، ٹرینوں سے اُترتے، گھروں کو جاتے اور اسٹیشن کو ویران ہوتے دیکھ کر گزاری ہیں۔ رات کی ٹرینوں سے مسافر اسٹیشن پر اُترتے اور رِکشوں پر سوار ہو کر گھروں کو جاتے ۔ میں نے دادا جی کے گھر کے سامنے کے ٹیرس پر پلنگ پر لیٹے ہوئے اُن رِکشوں کی دُور سے قریب آتی اور پھر دُور جاتی آوازوں کو اپنی یادداشت کی تجوری میں قید کررکھاہے۔ مجھے اس ٹیرس یا چھت پر راتیں گزار کر ستاروں سے عشق ہوا۔ اب تو لاہور کی فضا گدلی ہوگئی ہے۔ تب تو ہر سُو خاموشی اور سنّاٹے میں شفّاف کانچ سی فضا میں تیرتے ستارے یوں دمکتے، گویا ابھی ہاتھ بڑھاکر چھولیں گے۔ ایسی شفّاف راتیں آج بھی میرے وطن کے بعض حصّوں پر اُترتی ہیں۔ فیری میڈوز کے خواب ناک میدان اور جھیلیں ہوں یا چولستان کی صحرائی راتیں ،آج بھی وہاں آسمان اُس دور کے لاہور کے آسمان جیسا ہے۔ویسا شفاف اور ویسے ٹوٹتے ستارے اور کہکشاں۔ ہمارے گھر کے سامنے سڑک پار برگد کا ایک درخت تھا۔رات کے اندھیرے میں یا تو چوکیدار کی سیٹی کی آواز آتی یا پھرایک نامعلوم پراسرار سائیکل سوار روز رات کو ایک ہاتھ سے ہینڈل تھامے دوسرے میں بانسری پکڑے بانسری کی پرسوز موسیقی بجاتا گزراکرتا۔ اس بانسری کی مدھر آواز کی یاد آج بھی میرے دل میںگدگدی کرتی ہے۔ایسے میں میرے چچا کہانی سُناتے سُناتے چپ ہوجایا کرتے۔ اُس چھت پر میں دن کو بھی دیر دیر تک نیلے آسمان اور اُن پر مختلف شکلیں اختیار کرتے بادل اور اٹکھیلیاں کرتی بدلیوں کو تکا کرتا۔ ایک سفید دودھیا لکیر چھوڑتا موسمی جہاز مجھے تحیر میں مبتلا کردیتا تھا۔ جب کبھی بارش ہوئی ہوتی، فضا نکھرجاتی اور ہَوا میں تازگی ہوتی تو راتوں کو لاہورکے پرانے ائرپورٹ پر ہونے والی اناؤنسمنٹ ہمارے گھر تک سنائی دیتی۔ بلکہ میں اپنے ماموں کے ساتھ جو قریب میں منتقل ہوچکے تھے، سیر کرتا ائرپورٹ چلا جاتااور جنگلے سے لگ کرسامنے کھڑے جہاز کی کھڑکیوں سے نظر آتے مسافروں کو دیکھ کر خوشی میں ہاتھ ہلا دیتا۔ شہر سے لوگ جہاز دیکھنے آئے ہوتے تھے۔سب کتنے دیسی اور کتنے خوش لگتے تھے۔اپنے اپنے سے۔ چھاؤنی کی بارآورزمین میں وہ درخت بہ کثرت پائے جاتے، جو ہند کی زمین سے مخصوص ہیں۔اونچے برگد کے درخت، نیم،جامن ، سیاہ چھوٹے آویزوں سے شہتوت یا لمبے رس بھرے سفید شہتوت کے درخت، لوکا ٹھوں، سنگتروں، آموں کے درخت۔اور پھر اُن پر کھیلتی گلہریاں، تنوں میں کھوہ کرکے رہنے والے طوطے، اونچے گھونسلوں والی چیلیں اور کہیں کہیں گوہ اور نیولے۔ خاموش دوپہروں میں جامن کے درختوں سے ٹپ ٹپ گرتے جامن سڑکوںکو سیاہ کردیتے۔ایسے میں چند لوگ اونچی لمبی سیڑھیاں لگائے، گلے میں تھیلے ڈالے جامن توڑتے نظر آتے۔شنید ہے کہ بورڈ کی جانب سے درختوں کا ٹھیکا دیا جاتا تھا۔ایسے میں جب زور کی آندھی چلتی اور گرداُڑتی تو اِن درختوں کی شاخیں ٹوٹ کر سڑکوں پر بکھر جاتیں۔گردوغبار کا طوفان گھروں کے کواڑوں کو بجاتا، تو میرے چچا اور پھوپھیاں گھر کے دروازے، کھڑکیاں روشن دان بند کرنے کو دوڑتے۔ اسی دوران گرد کی ایک تہہ گھر کی راہ داریوں میں بچھ ہی جاتی۔گھر والے باہر کو لپکتے کہ باغ کے کنارے پر تنی رسّی سے سُوکھتے کپڑے اُتار لیں۔ اوپر چھت پر لگا ٹی وی کا اینٹینا کڑمڑا جاتا اور اُس کا رخ امرتسر سے،جہاں سے ہفتہ وار چترہار گانوں کا پروگرام آتا تھا، مڑکر کہیں اور ہوجاتا۔ ہر سُوشام کا سااندھیرا چھا جاتا۔چڑھے دن کو گھر میں بتیاں روشن کردی جاتیں۔ کچھ دیر میں یہ طوفانِ بلا تھمتا تو بارش کی چند کڑیاں تھپاک سے صحن میں پڑتیں۔دروازے کھل جاتے، ٹھنڈی ہَوا کمروں سے پھر جاتی۔باہر ٹہنیاں، گھونسلے، پرندوں کے ٹوٹے انڈے، پَر، پتے بکھرے ہوتے۔بارش کی بوندوں کی روانی میں اضافہ ہوتا اور ایک جھڑی لگ جاتی۔ ایسے میں دادا جی باہر ورانڈے میں آن بیٹھتے۔ باورچی خانے میں پکوڑے تلنے کو تیل کڑاھے میں ڈال کر چولھے پر آگ کی لَو تیز کردی جاتی۔ فضا میں سبزے کی تازہ خوشبو، گرم تپتی میٹالی زمین پر ٹھنڈے پانی کی پھوار کے باعث اٹھتی مٹی سے مخصوص مہک گھل مل کر پھیل جاتے۔ ایسے میں دادا جی بہت حسرت سے بادلوں کی جانب دیکھتے، اُن کی آنکھوں میں نمی اُتر آتی اور وہ کہتے۔ ’’نہ جانے آج میرے امبرسر میں کیسا اچھا موسم ہوگا۔‘‘ امبرسر(امرتسر) کے ذکر پر ایسی ہی نمی میں نے اے حمید کی آنکھوں میں بھی اُترتے دیکھی۔ لطیف محبتیں اور مائیں سرحدوں سے ماورا ہوتی ہیں۔ دادا جی کو کہا جاتا کہ امرتسر چالیس میل کے فاصلے ہی پرتو ہے، وہاں بھی ایسا ہی موسم ہوگا۔ اس پر وہ بچکانہ ضد کے ساتھ نفی میں سر ہلا دیتے اور کہتے۔ ’’امبرسَر کے موسم، اُس کے پانی پھراُس کے کیا کہنے۔‘‘ اور یہ بات ہے، ہجرت کے تیس پینتیس برس بعد کی۔

ہم سائے کے گھرانوں میں اُن کے مراسم، نجم الدین مرزا صاحب کے ساتھ سب سے زیادہ گہرے تھے۔ نجم الدین مرزا ایک انتہائی دل چسپ آدمی تھے، جو ابھی برطانوی دور ہی میں زندہ تھے۔ وہ فوج سے ریٹائر ہوئے تھے، پینٹ شرٹ اور ہیٹ پہنتے تھے، عوامی سواری میں سفر کو معیوب جانتے تھے۔ مرزا صاحب نے برطانوی دور میں فوج میں کمیشن لیا تھا، نوابی آدمی تھے، نواب لوہارو کی اولاد میں سے تھے، لیاقت علی خان کے اے ڈی سی، ضیاء الحق کے کمانڈنگ آفیسر، صاحب زادہ یعقوب علی خان کے کزن، مرزا غالب کی بیگم سے نسبت ،بَلی ماراں کے محلے میں دہلی میں پیدائش اور پاکستان ٹائمز کے باقاعدہ کالم نگار تھے۔اُن کے گھر اور داداجی کے گھر کے درمیان ایک پلاٹ بھر کا فاصلہ تھا۔مرزا صاحب کے گھر کے باہر کوئی گھنٹی نہ تھی بلکہ چھوٹا سا گیٹ کھول کر باغیچے کے فوارے کے ساتھ سے گزر کر بھاری بھرکم منقش لکڑی کے دروازے پر لٹکتے آہنی کڑے کو بجانا پڑتا تھا۔دروازہ کھلتا تو اندر اورہی دنیا کا دَر وا ہوتا۔ خوب صورت ایرانی قالینوں کے اوپر دَھری آبنوسی میزوں پر باریک کام والے لیمپ رکھےہوتے۔ایک جانب شیر کی کھال کے ساتھ سجاوٹ کا سامان، سامنے دیوار پر نواب لوہارو خاندان کی تصاویر اور محلّات اور قلعے کی پینٹنگز کے ساتھ سونے کے کام والے غلافوں اور میانوں میں دَھری چاندی کے دستوں والی تلواریں اور شیشے کی مکمل دیوار کے ساتھ پڑی راکنگ چیئر کے ساتھ پڑے بٹر کوکیز، پنیر اور چاکلیٹیں۔ مرزا صاحب کی بیگم فوت ہوچکی تھیں اور وہ اپنی ایک بیٹی کے ساتھ رہتے تھے۔ خاصی پختہ عمر بیٹی سلائی پکڑے سوئیٹر بنتی نظر آتی۔ مرزا صاحب، دادا جی سے مل کر کِھل اٹھتے اور مجھے ایک چاکلیٹ تھما دیتے۔ اُن کی زیادہ گفتگو انگریزی میں ہوتی۔ وہ ٹوسٹ اور پنیر کھاتے اور چپاتی کو دیسی شئے سمجھتے ہوئے اس سے گریز ہی کرتے۔ ہاں، کبھی کبھار اُن سے ملنے ان کے چھوٹے بھائی بھی، جنھیں ہم چھوٹے نواب صاحب کہتے تھے، آئے ہوتے تھے۔ چھوٹے نواب صاحب معمولی ذہنی عارضے کا شکار تھے۔ گوکہ دادا جی اور مرزا صاحب میں دوستی کا مضبوط رشتہ موجود تھا اور دمِ آخریں تک برقرار رہا، لیکن ایک زیریں مہین سی لہر ناموافقت کی بھی نظر آہی جاتی۔ مرزا صاحب اونچے نوابی آدمی تھے اور میری کوئی نامعلوم حِس یہ بتاتی رہتی کہ کبھی کبھار وہ دادا جی کو اپنا ہم مرتبہ نہ جانتے۔ نوابی آدمی تھے اور آخیر میں معاشی آزمائش کا بھی شکار ہوگئے، اسی لیے داداجی سے کبھی کبھار قرضہ لے لیا کرتے، جو جلد لوٹا دیتے۔ اِدھرداداجی بھی غالباً ایک قرض خواہ اور مقروض کے مخصوص رشتے کے باعث مرزا صاحب کو زیادہ خاطر میں نہ لاتے۔ بہرطور، مرزاصاحب ہمارے خاندان کا حصّہ بن چکے تھے۔ کوئی خاندانی دعوت اُن کی شرکت کے بغیر ممکن نہ تھی۔جب تک وہ آنہ جاتے، کھانا شروع نہ ہوتا۔ عجب دَورتھا۔ اِدھر دادا جی نے پلاؤ کی دیگ تیار کروائی ہے، جو اُن کا مخصوص نائی گھر آن کر تیار کررہا ہے اور پکنے پر بڑے تھال میں مرزا صاحب کے ہاں بھجوائی جارہی ہے۔ جب تھال لوٹتا ہے، تو خوب صورت رومال سے ڈھکا ہے۔رومال جو اُٹھایا تو پیسٹریاں یا کوئی میٹھا دھرا ہے۔ مجھے نہیں یاد کہ انھیں بھجوایا گیا کوئی برتن کبھی خالی واپس لوٹا ہو۔ دادی کے ہاتھ میں خاص ذائقہ تھا۔داداجی کہتے کہ اگر یہ برتن کو چھو لے تو اس میں خاص ذائقہ آجاتا ہے۔ خاص مواقع پر دیگیں تیار کرواتے، جس کے لیے ان کا مخصوص نائی بلایا جاتا۔وہ سب سامان اپنے سامنے تیار کرواتے۔ پیاز کترنے سے، لونگ، دار چینی، کالی مرچ اور دیگر مسالا جات کا تناسب تک اپنے زیرنگرانی طے کرواتے۔ پھر پچھلے پلاٹ میں دیگوں کو چڑھایا جاتا اور تیار ہونے کے بعد ان کو چکھا کر منظوری حاصل کی جاتی۔ کوٹھی سے ملحقہ پچھلا پلاٹ مخصوص ہوچکا تھا۔اسے خریدا تو سرمایہ کاری کے لیے گیا تھا، لیکن بعدازاں وہاں سبزیاں وغیرہ کاشت کرلی گئیں۔ ضروری نوعیت کی سبزیاں وہیں سے حاصل کی جاتیں۔ اپنے پوتے، پوتیوں اور نواسے، نواسیوں کی صحت کے حوالے سے وہ بہت فکر مند رہا کرتے۔ کافی عرصہ اُن کا خیال رہا بچّوں کے لیے بھینسیں پال لی جائیں تاکہ اُنھیں خالص دودھ، مکھن ملتا رہے، لیکن پھر انھوں نے دوسرا طریقہ اپنایا۔انھوں نے گھر آنے والے گوالے کو سیاسی چال چلتے ہوئے اپنا منہ بولا بیٹا بنالیا۔ وہ اسے اپنا پانچواں بیٹا کہتے تھے۔درحقیقت ان کی خواہش تھی کہ اس طرح گھر کے بچّوں کو خالص دودھ ملتا رہے۔ گوالا بھی بھلا مانس تھا۔ بہت سعادت مندی سے سرجھکائے دادا جی کی عزت کرتا۔ دادا جی بھی اکثر و بیشتر اُس کی امداد کردیتے، کبھی مٹھائی کھلا کر روانہ کرتے تو کبھی چھوٹا موٹا تحفہ دے دیتے۔ یہ تعلق تب تک قائم رہا، جب تک دادا جی نے گوالے کو گھر کے باہر لگے نلکے سے پانی دودھ میں ملاتے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیا۔ دادا جی کا پختہ نظریہ تھا کہ خوراک کے معیار پر سمجھوتا نہیں ہونا چاہیے۔ انھوں نے کوٹھی کے ایک کونے میں تنور بنوالیا۔ اِدھر تازہ بھاپ اڑاتا کھانا میز پر دھرا جاتا، اُدھر تازہ خستہ تنوری روٹیاں آنا شروع ہوجاتیں۔ لیکن یہ سلسلہ بھی بہت عرصہ نہ چلا۔ دودھ، گھی، مکھن کے وہ اتنے شوقین تھے کہ اکثر انھیں دودھ اُبالنے کے بعد بالائی ایک طشتری میں پیش کی جاتی، پھر گھر کے روایتی کھچڑ پر وہ دیسی گھی کا تڑکا ضرور لگواتے۔ یہ کھچڑ خاص مواقع پر تیار کیا جاتا۔روزانہ شہد کا ایک چمچ اور خمیرہ گاؤ زبان بھی استعمال میں لاتے۔ کشمیری گھرانوں کی مانند دادا جی کے گھر میں بھی چند لوازم زندگی کے معمول کا حصّہ بن گئے۔ وہ خستہ باقرخانیاں اورکلچے کشمیری چائے کے ساتھ بہت شوق سے صبح سویرے کھاتے۔ کبھی کبھار بیرونی ورانڈے میں بیٹھ کرگرم پانی وہیں منگواتے اور شیو کرلیتے۔آفٹر شیو لوشن کی مہک ان کے قریب سے آتی رہتی۔ غسل کے بعد کبھی وہیں ناشتا منگوالیتے اور سامنے سڑک سے گزرنے والے احباب سے صاحب سلامت جاری رہتی۔ لوگ باگ کم ہی گزرتے کہ آبادی کم تھی۔ سامنے ایک دودھ والے نے درخت کے نیچے اسٹال لگا لیا تھا۔ وہ پولی تھین کے لفافوں میں دودھ بیچتا تھا۔ کچھ ہی عرصے میں وہ دُکان بڑھاگیا۔ رات کے کھانے میں چاول ایک لازمی جزو رہے ہیں۔رات کو چاولوں کے ساتھ کبھی شلجم تو کبھی کدّو گوشت ڈال کر تیار ہوتے۔ دوپہر میں بھی کبھی قلفے کا ساگ تو کبھی کچنار تیار ہوتی تو کبھی بڑیاں(وڑیاں)۔ میرے والد صاحب کی بسلسلۂ ملازمت مختلف شہروں میں تعیناتی ہوتی رہی ہے۔ جب کبھی لاہور آنا ہوتا، تو دِل بے طرح مسرور اوربے چین ہوجاتا۔ لاہور میں داخل ہوتے ہی شہر کی خاص مہک اس کا پتا دیتی۔اس مخصوص مہک کی گواہی خالد حسن، اے حمید اور چاچا ایف ای چوہدری دے سکتے تھے ۔ یہ راوی کا پُل عبور کیا اور وہ سامنے بادشاہی مسجد کے گنبدوں پر نظر پڑی۔ خیر، جب گاڑی چھاؤنی میں داخل ہوتی تو گویا گھر کی حدود شروع ہوجاتیں۔شامی روڈ پر گھر کے سامنے ابھی گاڑی کا ہارن بجا بھی نہ ہوتا کہ گیٹ کھل جاتا۔ سامنے دادا جی دمکتے منتظر چہرے کے ساتھ سب کو گلے لگا لیتے۔

میری یادداشت کی اسکرین پر وہ مناظر اسی طرح تازہ ہیں، گویا ابھی قلم اُٹھانے سے پہلے کی بات ہو۔ اُنھوں نے سب کو گلے لگایا ہے۔سبھی چچا، پھوپھیاں بھاگے چلے آئے ہیں۔دادا جی سیاسی ہوشیاری سے سب سے علیحدہ کان میں سرگوشی کررہے ہیں۔’’مجھے تم ہی سب سے عزیز ہو!‘‘اور سبھی اس پر یقین کرتے ہیں۔دو قدم سیڑھیاں چڑھ کر ورانڈے سے ہوتے ہوئے سب ڈرائنگ روم اور پھر کھانے کے کمرے تک چلے آئے ہیں، جہاں بھاپ اُڑاتا پلاؤ، قورما، شامی کباب، سبزی، رائتہ وغیرہ رکھے جارہے ہیں۔دادی صدقے واری ہورہی ہیں۔ حقیقت بھی یہ تھی کہ جہاں وہ بیٹوں کے لیے سخت باپ تھے، وہیں بیٹیوں اور بہوؤں کے لیے انتہائی شفیق بزرگ۔ بڑی بہو گھر بیاہ کر لائے تو اُس کے نام کی مناسبت سے گھر کے باغ میں نرگس کے پھول لگوا دیئے۔ بیٹیوں کو کبھی بیٹی نہ کہا ’’بہنا‘‘ کہا۔ کبھی کہا، بہنا یہ کردو تو کبھی کچھ اور معذرت خواہانہ اور درخواست کے انداز میں کہا۔ پس یہ اُن کی زندگی کا درد انگیز پہلو تھا۔ بیٹیاں دِل کے جتنا قریب رہیں، اُن کے مقدر اُن کے لیے اُتنا ہی امتحان کا باعث رہے۔جہاں انھیں باغ بانی اور درختوں سے پیار تھا، وہیں جانوروں سے بھی بہت محبت کرتے تھے۔گھر میں قلمی سیاہ گلاب کے پودے، انار، آم، کھجور اور سنگترے کے درخت اور انگور کی بیلیں لگوا کر ان کی ذاتی طور پر نگہداشت کرتے۔ ایک روسی کتیا کو پالا تو اس بے طرح اُس پر نچھاور ہوگئے کہ اُس کی خوراک کے لیے پریشان رہتے بلکہ آخری دنوں میں تو کمرے میں خون کے رشتوں کے علاوہ ڈاکٹر کے منع کرنے کے باوجود صرف اُس کتیا اور دیرینہ ملازم بابا اقبال کو جانے کی اجازت تھی۔ جب کتیا کو دیکھتے، تو کِھل اُٹھتے۔ میں نے زندگی میں پالتو جانوروں اور درختوں سے محبت کرنے والے لوگوں کو عموماً اچھے دل کا مالک پایا ہے، ایسے ہی جیسے منہ کھول کرحلق سے قہقہہ لگانے والوں کو۔

دیرینہ ملازم بابا اقبال بھی ایک عجیب کردار تھا۔بہت مختلف اور بہت انوکھا۔ ہندو سے عیسائی اور پھر مسلمان ہوا تھا۔گورومکھی پڑھتا تھا اور بانسری کمال کی بجاتا تھا۔ ایک مرتبہ انکشاف ہوا کہ گھر کے پچھواڑے میںپلاٹ کے پوشیدہ گوشے میں بھنگ اُگا رکھی ہے، تو دادا جی نے شفقت آمیز انداز میں نظر انداز کردیا۔ وہ بہت سے امور پر ٹھہراؤ اور دانش مندی سے فیصلہ کرتے۔انھی میں سے ایک اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے نام اپنی آبائی کوٹھی کے گردونواح میںرہائشی زمین لے دینے کا فیصلہ تھا کہ آج پانچ گھرانے بالشت بھر کے فاصلے پرآباد ہیں۔ اولاد نے بھی اُن کی محبت اور عزت میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی۔ جب وہ کمرے میں داخل ہوتے تو سبھی اُن کے احترام میں کھڑے ہوجاتے۔وہ بے وجہ بھی ڈانٹتے تو کوئی چوں تک نہ کرتا۔ بزرگوں کی عزت، معاشرے کے بنیادی معیاروں میں سے ایک تھی۔جب وہ صاحب فراش تھے، تو میرے وہ چچا، جن کو انھوں نے کتابوں کا ناکام کاروبار کروایا تھا، انھی کے کمرے میں مستقل طور پر منتقل ہوگئے۔چچا شادی شدہ تھے لیکن وہ راتیں دادا جی کے ساتھ گزارتے، مبادا اُنھیں کسی دوا کی یا پینے کے پانی وغیرہ کی ضرورت پڑجائے۔ اسی طرح ڈاکٹر پھوپھی کا معمول بن گیا کہ وہ روزانہ شام کو دادا جی کا چیک اپ اور عیادت کرنے چلی آتیں۔دادا جی اُن کو دیکھ کر نہال ہوجاتے اور پھوپھی بھی پیار کے شیرے میں لتھڑی اُن سے لپٹ جاتیں۔ میرے والد تو ان کے بیٹے سے زیادہ ہمدم دیرینہ تھے۔دادا جی کی علالت کے دوران وہ رات رات بھر ٹہلتے رہتے۔ آخری دنوں میں اُن کی زبان بند ہوگئی۔یہ سب آناًفاناً ہوا۔لقوہ اُن پر حملہ آور ہوا اور اُن کی سب سے قیمتی متاع اُن کی زبان، جس پر اُنھیں مان تھا، اُن سے چھین لی، لیکن اس کے باوجود اُن کا دماغ بھرپور طریقے سے مستعد رہا اور وہ اشاروں سے اپنے فعال وجود کا بھرپور احساس دلاتے رہے۔ دادا جی نہ تو بڑے لیڈر تھے اور نہ ہی انھوں نے غیر معمولی معرکے سرانجام دیئے۔ وہ اپنی طرز کے ایک خاندانی آدمی تھے، جنھوں نے خاندان کی اہمیت کو سمجھا اور اسے اینٹ اینٹ تعمیر کیا۔وہ عام ہوتے ہوئے بھی بہت خاص تھے۔وہ ایسے باضمیر، محنتی اور باصلاحیت انسان تھے، جو کسی بھی باضمیر معاشرے کا اصل چہرہ بنتے ہیں۔یہ لوگ زندہ دھڑکتے بستے معاشروں کا حُسن ہوتے ہیں۔ اُن معاشروں کا جہاں ہر عام آدمی، خاص آدمی ہے۔یہ سچّے، کھرے، مخلص اور جذباتی لوگ کہیں شفیق باپ ہوتے ہیں، تو کہیں فرماں بردار بیٹے اورکہیں رقیق القلب بھائی۔یہ لوگ اِس زمین کے سچے وارث ہیں۔ماں کے اصل بچّے۔ چند مناظر ہیں جو میرے حافظے پر یوں دستک دیتے ہیں، جیسے کوئی خشک کنویں کی گہرائی سے آواز دیتا ہو، یہ چند مناظر، کچھ آوازیں، بعض خوشبوئیں اور مختلف رنگ ہیں، جو میرے وجود کا حصہ بنتے ہیں۔جو من وتُو کاپردہ چاک کرتے ہیں۔ ایک منظر اسپتال کا ہے۔ڈیٹول اوراسپرٹ کی بوُہے۔میں سات برس کا ہوں اور بیماری کے باعث کئی ہفتوں سے اسپتال کے ایک کمرے میں زیرِ علاج ہوں۔ ڈاکٹر میری صحت کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہیں۔ مجھے سب کچھ خواب میں تیرتا نظر آتا ہے۔میرے والد، دادا جی کو کوئی بھی پریشانی کی خبر سنانے سے حتی الوسع اجتناب کرتے ہیں۔ میری صحت کے حوالے سے پریشانی دادا جی سے بانٹتے ہیں۔چار گھنٹے کے مختصر وقت میں دادا جی کو میں لاہور سے پنڈی پہنچ کر اسپتال کے کمرے میں تیرتے اپنی جانب لپکتے دیکھتا ہوں اوراُن کے بوسے کا نمکین نم لمس اپنے ماتھے پر محسوس کرتا ہوں۔ میں اُن کے گھر میں پیدا ہونے والا پہلا پوتا ہوں۔پہلوٹھی کا بیٹا۔مجھے وہ پیار سے ’’ولی عہد‘‘ بھی کہتے ہیں۔ ویسے تو عُرفی کے گھریلونام سے مجھے آج بھی پکارا جاتا ہے۔شاید فارسی شاعر عُرفی کی مناسبت سے۔ ایک مخصوص بُو گھر کے باغ کے ایک گوشے میں بنے دو کمروں کی ہے۔ کمرے کتابوں سے اٹے ہوئے ہیں۔ انھوں نے ایک چچا کو کتابوں کا کاروبار کروایا تھا جو چل نہ پایا۔ سو، کتابیں، کاپیاں اس اسٹور میں ڈھیر ہیں۔ کمروں میں بوسیدہ کاغذوں کی پیلی بوُ پھیلی ہے۔ ایسی ہی بوُ کوٹھی کی بالائی منزل کے ایک کمرے میں مَیں نے ایک مرتبہ سونگھی تھی۔اس کمرے سے بچپن کی پراسراریت وابستہ رہی۔ ہمیشہ وہاں تالا لگا ہوتا تھا۔پس ایک مرتبہ تالا کھلا تو میں نے اندر جھانکا تھا۔ وہاں بھی کاغذوں کے ڈھیر اور بڑے بڑے صندوقوں پر لگے بھاری تالے جھولتے نظر آئے تھے۔ایسی پراسراریت میں نے بہت بعد میں کارلوس زافون کے ناول ’’شیڈو آف دی ونڈ‘‘ میں پڑھی ، دیکھی تھی۔ کھڑکی کی درز سے آتی روشنی کی پیلی چمکتی دھار، اس میں تیرتے گرد کے ذرّات اور کمرے میں پھیلی اہراموں کی سی بوسیدہ لیکن جانی پہچانی مہک۔ موت کی یا فنا کی ، مکڑی کھائی لکڑی کی سی ریزہ ریزہ بوُ جو انسان کے نتھنوں میں شروع سے یوں اُڑس دی جاتی ہے، جیسے مردے کے نتھنوں میں روئی۔ چچا نے جو کاپیاں چھپوائی تھیں، وہ بعد میں خاندان بھر کے بچّوں کے استعمال میں آتی رہیں۔ مجھے آج بھی اُن میں شوخ سبز رنگ میں بنے طوطے اورفیروزی، کاسنی رنگوں میں ڈھلی تتلیاں یاد ہیں۔ تتلیوں سے یاد آیا کہ وہ علاقہ، چوں کہ ایک باغ کی طرح تھا، سو بہت سی جگہوں پر جنگلی پھول اُگ آتے، جن کے گرد تتلیاں منڈلایا کرتیں۔ میں نے اپنے ننّھے ڈولتے قدموں سے بہت تتلیوں کا پیچھا کیا اور چند ایک پکڑ کر چھوڑ بھی دیں۔ بالکل اسی طرح، جس طرح جگنوؤں کو ماچس کی ڈبیوںمیں قید کیا اور باغیچوں میں منڈلانے، اڑنے والے لمبی پونچھ کے پروانہ نماؤں کی دُموں میں دھاگے ڈال کر ہیلی کاپٹر بنا کر اُڑایا۔ بچپن کی یادیں اور نورانی صبحیں، روشن دوپہریں،ٹھنڈی شامیں اور کانچ سی راتیں جنت کے مناظر ہیں۔ میں اُن کو یاد کرتا ہوں، تو یادداشت یوں چندھیا جاتی ہے، جیسے کسی اندھے کی آنکھیں عطیے کے بعد دنیا کو پہلی مرتبہ دیکھتے کھولتے چندھیاتی ہوں۔ ایک منظر اور بھی ہے۔چھوٹی پھوپھی نے فوت ہونے سے پہلے مجھے ایک لفافہ دیا اور کہا کہ میرے لیے سنبھالا ہوا تھا۔اس بیٹی کوبھی باپ سے لازوال عشق تھا۔ میں نے لفافہ کھولا تو اندر ایک خط تھا، جوکبھی دادا جی نے سعودی عرب سے لکھا تھا۔پیشانی پر چچا کا نام لکھا ہے۔وہ چچا رہے، جن کے بارے میں دادا جی بہت فکر مند رہے اور نہ ہی پھوپھی رہیں۔ نہ فکر مند ہونے والا رہا نہ دوسرے رہے۔خط کے مندرجات میں سے چند سطریں ہیں۔’’یہاں آکر میںنے محسوس کیا ہے کہ اللہ کی ذات بے نیاز ہے۔ میں اپنی ذات میں کوئی ایسی خوبی محسوس نہیں کرتا کہ اُس کی رحیم و کریم ذات اپنی تمام نعمتوں کے سُحاب مجھ پر متواتر برساتی رہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں اور دِل میں سخت شرم سار ہوتا ہوں کہ اُس کی رحمتوں کے بحرِ بے پایاں میرے لیے موجزن ہیں۔ کیا اُس نے میرے عصیاں کو بھی میرے اعمالِ صالح شمار کرلیا ہے۔’’جائے کہ فضلِ تُست چہ باشد گناہِ ما۔‘‘ عمر بھر جن اقل و شرب کی نعمتوں کے تصور سے میرا ذہن خالی رہا ہے اور میرے کام ودہن نا آشنا رہے ہیں، وہ میری میز پر چنے ہوتے ہیں۔اے اللہ کریم میری کون سی خطاتیری درگاہ میں ایک پسندیدہ ادا سمجھی گئی ہے۔ ورنہ میں تو اس لائق نہیں۔‘‘

ایک جھما کا ہوتا ہے اور ایک اورمنظر آنکھوں کے سامنے آتا ہے۔ میں نے دادا جی سے شکایت کی ہے۔ ان کا گھر بھر پر اتنا رعب ہے کہ جب خواب گاہ میں سوئے ہوتے ہیں تو باہر سے کسی کو دبے پاؤں گزرنے کی بھی اجازت نہیں۔ میری شکایت پر وہ میری اُنگلی تھامے غصّے میں چلے جارہے ہیں۔ ایک اور منظر ہے۔ان پر دل کا دورہ آسمانی بجلی کی طرح گرتا ہے اور فالج بھی حملہ آور ہوتا ہے۔ اُن کی حالت خاصی بگڑچکی ہے۔ وہ اسپتال میں داخل ہیں۔ ایک عزیز عیادت کرنے جاتے ہیں اور لوٹ آتے ہیں کہ وہاں دادا جی تو نہیں تھے، البتہ ایک بوڑھا نحیف بابا بستر پر گٹھری بنا سو رہاتھا۔ اس منظر کے ساتھ میرے حلق میں کچھ نمکین سا پانی بھی اُترتا ہے۔ آخری منظر میں نجم الدین مرزا صاحب ہیں۔ وہ پینٹ شرٹ پہنے، سیاہ چشمہ لگائے چھڑی گھماتے آتے ہیں۔ میّت کے چہرے سے کپڑا ہٹاتے ہیں۔ بدحواس ہو کر کچھ قدم پیچھے ہٹتے ہیں۔انگریزی میں کچھ بڑبڑاتے ہیں۔ اور ایک کونے میں جاکر سکتے کے عالم میں بیٹھ جاتے ہیں۔ مَیں اپنی یادداشت پر بہت زور دیتا ہوں، تو بھی مجھے دادا جی کا آخری مرتبہ دیکھا گیا چہرہ یاد نہیں آتا۔ شاید میرے تحت الّشعور میں ان کی زندگی کی شدید خواہش نے میرے یادداشت سے اُن کی میّت کا چہرہ غائب کردیا ہے۔ڈیلیٹ! جب کبھی وقت یاد داشت پر ایڑیاں رگڑتا ہے، تو اندر سے درد کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں۔جب مجھے عدم تحفظ کا خوں خوار احساس ہوتا ہے، تو اپنے بچپن میں لوٹ کر دادا جی کی گود میں چھپ جانے کی شدید خواہش بے دار ہوجاتی ہے۔

اب تو چھاؤنی میں ہزاروں لوگ شامی روڈ سے گزرتے ہیں۔وہیں پردادا جی کا گھر بھی ہے۔ کچھ حصّہ بیچ دیا گیا ہے، بقیہ عمارت خستہ حالت میں کھڑی ہے۔مکیں نہ رہے تو مکاں کیا معانی۔ راہ گیر کیا جانتے ہیں کہ کبھی اس گھر میں کیا رونق تھی، کیا محفل آرائی تھی اور کیا زندگی تھی۔ بڑے بڑے محل اُجڑ گئے، وقت کا گھڑیال فنا کی خبر ہر لمحے دیتا ہے۔ وہ تو پھر ایک عام پاکستانی گھرانہ تھا۔ وقت کا طوفان بھی کیا طوفانِ بلا ہے۔سب خس و خاشاک ہوئے۔ جب کبھی آندھی آتی ہے، مینہ برستا ہے، خوانچہ فروش باقرخانیوں کی صدا لگاتا ہے یا کوئی پوتا اپنے دادا کی اُنگلی تھامے چلا جاتا ہے تو دادا جی بے تحاشا یاد آتے ہیں۔وہ تو اس سب کے سوا بھی بے طرح یاد آتے ہیں۔جب درد حد سے گزرنے لگتا ہے تو میں ان سے مخصوص آفٹر شیو لوشن لگاتا ہوں، کشمیری چائے پیتا ہوں اور اَن دیکھے امبرسر کو یاد کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔اس طرح دادا جی کو قریب میں محسوس کرنے کی بے معنی کوشش کرتا ہوں۔ جب یہ سب لاحاصل ہوجاتا ہے اور دل آنسوؤں سے بھیگ جاتا ہے، تو ان کی قبر پر چلا جاتا ہوں اور اُن سے باتیں کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔شروع میں مجھے یوں لگتا تھا کہ اُن کی جانب سے جواب آتا ہے، مگر اب بہت عرصے سے اُدھر سے خاموشی ہے۔خدا کرے، وہ اُدھر خوش ہوں۔

تازہ ترین