• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نظیر اور عوامی شاعری

نظیرؔ، ہندوستان کا بے نظیر شاعر۔ نظیرؔ، عوام کی زبان میں کلام کرنے والا اوّلین تخلیق کار ۔ نظیرؔ، اُردو کے مسلّم الثّبوت دبستانِ دہلی اوردبستانِ لکھنٔو سے بے نیاز شاعر۔ نظیر،ؔ کسی مضبوط علمی پس منظر سے محروم فن کار۔ نظیر، اُردوکا ؔ واحد عوامی شاعر کہ جس کا میلہ یا عُرس منایا جاتا ہے اور بھارت کے مشہور شہر، آگرے میں عوام مذہب و ملّت کے کسی امتیاز کے بغیر اُس میں شرکت کرتے ہیں۔ نظیرؔکا سالِ پیدائش کچھ بیش و کم کے ساتھ 1735ء خیال کیا جاتا ہے۔ جائے پیدائش میں بھی اختلاف ہے، مگر اکثر نے دہلی تسلیم کی ہے۔ تاہم، خود نظیر ؔ کے رگ و پے میں آگرہ بسا ہوا تھا اور نظیرؔ کی زبان اور اُس کا تخلیقی وجدان مسلسل اور متواتر آگرے کی گردان کیے جاتا تھا۔ ؎عاشق کہو،اسیر کہو،آگرے کا ہے…مُلّا کہو، دبیر کہو، آگرے کا ہے…مفلس کہو،فقیر کہو،آگرے کا ہے…شاعر کہو،نظیرؔ کہو،آگرے کا ہے۔

اُردو شاعری کے بے رحم نقّاد، کلیم الدّین احمد نے ’’اُردو شاعری پر ایک نظر‘‘ میں جہاں اکثر شعرا ءکو بہ یک جنبشِ قلم مسترد کر دیا، وہاں نظیرؔ اکبر آبادی کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار اس جملے سے شروع کیا کہ ’’اُردو شاعری کے آسمان پر نظیرؔ اکبر آبادی کی ہستی تنہا ستارے کی طرح درخشاں ہے۔‘‘ اسی کتاب میں وہ نظیرؔ کے بارے میں کچھ اور اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’نظیرؔ کی اہمیت یہ ہے کہ وہ مروّجہ عشقیہ مضامین کو مروّجہ طرز میں بیان نہیں کرتے۔ اُن کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ذاتی واقعات اور مشاہدات کو اپنے مخصوص رنگ میں منعکس کرتے ہیں۔ جس طرزِ معاشرت سے وہ آشنا تھے، جس افتادِ زندگی کے وہ خوگر تھے، اسی کی حَسین نقّاشی کرتے ہیں۔ عام اُردو شعراء کی طرح اُن کی شاعری ماحول سے الگ ہو کر کسی خلا میں سانس نہیں لیتی۔ وہ اپنی نظموں میں اپنے ماحول اور اپنے سماج کے نقش و نگار کھینچتے ہیں۔ اسی لیے نظیرؔ میں کوئی شے بھی مصنوعی، فرضی اور حقیقت و صداقت سے دُور نہیں ہے۔‘‘ گویا یہ بات کافی حد تک دُرست ہے کہ عوام کے لیے، عوام کی زبان اور عوام کے رہن سہن کے عین مطابق کی جانے والی شاعری کی عمارت نظیرؔ اکبر آبادی نے تعمیر کی۔

بیان کیا جاتا ہے کہ نظیرؔ کی پیدائش سے پیش تر اُن کے 12بہن بھائی فوت ہو چُکے تھے۔ والد، محمد فاروق ریاست الور میں ملازم تھے اور الور کے بعد عظیم آباد میں ملازم رہے۔ شرفاء میں شمار کیے جاتے تھے۔ اُن کا نام پٹنہ(عظیم آباد)کے کسی نواب کی ترتیب دی ہوئی فہرستِ مشاہیر میں بھی شامل تھا۔ شاید یہ ہی دیکھتے ہوئے اُن کی شادی ایک نواب خاندان کی لڑکی سے ہوئی۔ نظیرؔ کی والدہ آگرے کے نواب کی دُختر تھیں۔ نظیرؔ کی ماں اور نانی اولاد کے لیے کوئی جتن اُٹھا نہ رکھتی تھیں۔ ایسے ہی کسی موقعے پر کسی بزرگ کی بارگاہ میں اپنی ملازمہ کو بھیجا تھا کہ انہوں نے نظیرؔ کی نانی کو پیغام دیا کہ داماد کو بھیجو۔ محمد فاروق وہاں پہنچے، تو بزرگ نے پانچ پُھول اس ہدایت کے ساتھ اُن کی نذر کیے کہ انہیں سونگھ کر دریا میں ڈال دو اور جو کچھ بھی پھولوں کے ساتھ ہو، مجھ سے آ کر بیان کرو۔ محمد فاروق بھاگم بھاگ جمنا کنارے گئے اور حسبِ ہدایت پُھول نذرِ دریا کر دیے۔ چار پھول اُلٹ گئے ،جب کہ پانچواں دریا پر سیدھا تیرتا رہا۔ محمد فاروق نے سارا ماجرا بزرگ کو سنایا، تو انہوں نے کہا کہ ’’خوش ہو جا، نہ صرف تیرا بچّہ حیات رہے گا، بلکہ تیرے لیے نام وَری اور نیک نامی کا بھی باعث بنے گا۔‘‘ بزرگ کے کہنے کے عین مطابق بچّہ بچ گیا۔ نام، ولی محمد رکھا گیا۔ جب نادر شاہ نے 1739ء میں دِلّی پر حملہ کیا، تو محمد فاروق اُس سے ملحقہ ریاست، الور میں موجود تھے۔ چُوں کہ وہ قبل ازیں اپنے 12بچّوں سے محروم ہو چُکے تھے، لہٰذا یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں کوئی اور آفت نہ رونما ہو جائے۔ چناں چہ بچّے کو ماں اور نانی کی ہم راہی میں آگرے بھیج دیا گیا اور کچھ عرصے کے بعد خود بھی وہیں چلے گئے۔

ماں باپ نے بچّے کی آسائش و راحت کا ہر ممکن خیال رکھا۔ باپ خود بچّے کو میلوں ٹھیلوں اور کھیل تماشوں میں لے جاتا۔ ہندوؤں، مسلمانوں، سکّھوں اور دیگر مذاہب کی تقاریب کو بچّہ بہت دِل چسپی سے دیکھتا اور اُن میں شریک رہتا۔ یوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بچّے کی طبیعت میں اُن چیزوں سے لگاؤ بڑھتا چلا گیا۔ کچھ اور وقت گزرا تو پتنگ بازی، کبوتر بازی اور جسمانی کسرت سے بھی لُطف لینے لگا۔ اسی کے ساتھ باپ نے تعلیم کا بندوبست بھی کر دیا۔ ابتدا قرآن شریف پڑھنے سے ہوئی۔ پھر فارسی اور عربی اسباق کا سلسلہ شروع ہوا۔ نظیر ؔکو عربی کے مقابلے میں فارسی زیادہ پسند آتی۔ اُردو سے بھی خُوب دِل لگتا۔ دھیرے دھیرے ہندی، پوربی، مارواڑی اور پنجابی سے بھی واقفیت پیدا ہونے لگی۔ نظیرؔ گھر سے باہر رہتا، تو سب میں گُھلا مِلا رہتا اور لوگوں کی حرکات وسکنات کا مشاہدہ کرتا۔ لوگوں میں گُھلنے ملنے کی وجہ سے اُس کے دِل میں سب کے لیے محبّت اور احترام کا جذبہ پیدا ہو گیا۔ اسلامی تعلیمات کے ساتھ ہندو دھرم کی رسوم و رواج سے بھی دِلی عقیدت پیدا ہو گئی اور اُسے محسوس ہونے لگا کہ پیار و محبّت ہی اصل سرمایۂ حیات ہے۔ نظیرؔ کی طبیعت میں حد سے زیادہ خوش مزاجی اور قلندرانہ پن تھا۔ درویشوں کی صحبت اُسے بہت راس آتی۔ ان باتوں کی وجہ سے اُس کے اندر لالچ، طمع، حرص، حسد، نفرت اور موقع پرستی جیسی قبیح عادات پنپ ہی نہ سکیں۔ خوش نویسی اور سپاہ گری میں بھی مہارت حاصل کر لی۔ رفتہ رفتہ نوجوانی کا زمانہ آیا۔ اُس دَور میں آگرے میں جگہ جگہ کوئی نہ کوئی مشغلہ جاری رہتا۔ کہیں شطرنج، تو کہیں کبڈی، تو کہیں دریا میں پیراکی کی مہارت۔ کہیں کنکوے بازی، تو کہیں کبوتر بازی اور نظیرؔ ہر جگہ موجود رہتا۔ بچپن ہی سے میلوں ٹھیلوں کی شوقین طبیعت، مشاہدے کی صلاحیت اور تخیّل کی قوّت نے نظیرؔ کو ہر اچّھی بات کو نظم کرنے کی طاقت عطا کر دی۔ شاعری میں نظیرؔ کے دو استاد رہے۔ ایک فطرت اور دوسرے زورِ طبیعت۔ وقت گزرنے کے ساتھ نظیرؔ کی مسلسل محنت نے اُن کی لگ بھگ 8زبانوں سے گہری شناسائی پیدا کر دی۔ مختلف علوم و فنون سے دِل چسپی پیدا ہونا شروع ہوئی، جس کے تحت علمِ ہندسہ، نجوم، رمل، منطق ،تاریخ اور موسیقی سے کچھ نہ کچھ شُد بُد حاصل ہو گئی۔ اب نظیرؔ نے معلّم کا رُوپ اختیار کیا۔ تدریس نظیرؔ کے من کو ایسی راس آئی کہ کسی اور ملازمت کی طرف رُخ بھی نہ کیا۔ گرچہ مختلف درباروں سے مختلف طرح کی پیش کش بھی کی جاتی رہی، تاہم وہ خود کو درباری آداب سے ہم آہنگ نہ کر سکا، چناں چہ اپنی وضع کی ہوئی راہ پر چلتا رہا۔ نہ زندگی غربت میں تھی اور نہ امارت میں، بلکہ اوسط درجے کی شمار کی جا سکتی تھی۔ اب صورت یہ تھی کہ معلّمی بھی جاری تھی اور شاعری بھی۔ نظیرؔ گزشتہ شاعروں کی نسبت زمین سے اور سماج سے جُڑا شاعر تھا۔ اُس کے موضوعات سامنے نظر آنے والے تھے اور اُس کے خیالات دِکھائی دینے والے تھے۔ وہ جو بات کرتا، وہ عوام کے دل کی آواز ہوتی۔ اٹھارویں صدی کا ادبی روایت پرست سماج، غزل سے عبارت تھا۔ شاعری میں غزل مسلّمات میں شامل تھی۔ میرؔ، سوداؔ، دردؔ کے آگے سب گرد تھے۔ گرچہ قلی قطبؔ شاہ اور ولی نے عوامی موضوعات پر بہت کچھ کہا تھا، تاہم اُس کی اختصاصی حیثیت نہ تھی، بلکہ عمومی طور پر کہا گیا کلام تھا۔ بادشاہوں کی شان میں قصیدے کہنے کا رُجحان عام تھا۔ نظیرؔ نے مسلّمات شکنی کا ارتکاب کیا اور نظموں کا ڈول ڈالا اور نظمیں بھی موضوعاتی اور عوامی۔ لوگ اُس سے نظموں کی فرمائش کرتے اور نظیر ؔ اُن کی خواہش کے احترام میں کلام کہتا۔ کسی نے فرمائش کی کہ کوئی نظم ککڑی پر ہونی چاہیے۔ نظیرؔ کا مشّاق قلم چل پڑا۔؎لیتے ہیں مول اِس کو گُل کی طرح سے کِھل کے …معشوق اور عاشق کھاتے ہیں دونوں مل کے…عاشق تو ہیں بجھاتے شعلوں کو اپنے دل کے… معشوق ہیں لگاتے ماتھے پہ اپنے چھلکے…کیا خوب نرم ونازک اس آگرے کی ککڑی…اور جس میں خاص کافر اسکندرے کی ککڑی۔

کوئی فقیردرِ نظیرؔ پر حاضر ہوا کہ ہمیں بھی کچھ عطا ہو کہ وہ صدا بن کر سدا ہماری روزی کا ذریعہ بن جائے۔ نظیرؔ نے فوری قلم سنبھال لیا۔؎بٹ مار اَجل کا آ پہنچا ،ٹُک اُس کو دیکھ ڈرو بابا…اب اشک بہاؤ آنکھوں سے،اور آہیں سَرد بھرو بابا…دل، ہاتھ اُٹھا اس جینے سے،لے بس ،من مار مَرو بابا…جب باپ کی خاطر روتے تھے، اب اپنی خاطر رو بابا…تن سوکھا، کُبڑی پیٹھ ہوئی،گھوڑے پر زین دھرو بابا…اب موت نقارہ باج چکا، چلنے کی فکر کرو بابا۔ فقیروں میں یہ نظم اتنی مشہور ہوئی کہ اُس طبقے میں ’’کُبڑی نامہ‘‘ کے نام سے پڑھی جانے لگی۔ برسات کا موسم آیا، تو نظیرؔ کا من آپ ہی آپ جھومنے لگا اور ’’برسات کی بہاریں‘‘ کے عنوان سے مخمّس کی صورت ایسی نظم کہی کہ لوگ آج بھی اسے پڑھ کر جُھوم اٹھیں۔ ہندوستانی رنگ میں رنگی یہ نظم نظیرؔ کی قوّتِ مشاہدہ اور طاقتِ بیانیہ کا ایک شاہ کار تھی۔؎کوئی پکارتا ہے،لویہ مکان ٹپکا…گرتی ہے چھت کی مٹّی ،اور سائبان ٹپکا…چھلنی ہوئی اٹاری،کوٹھا ندان ٹپکا…باقی تھا اِک اُسارا،سووہ بھی آن ٹپکا…کیا کیا مچی ہیں یارو ،برسات کی بہاریں…سبزوں پہ بیر بہوٹی،ٹیلوں اُپر دھتورے…پسّو سے،مچھروں سے،روئے کوئی بسورے… بچّھوکسی کوکاٹے، کیڑا کسی کو گھورے…آنگن میں کن سلائی،کونوں میں کنکھجورے…کیا کیا مَچی ہیں یارو،برسات کی بہاریں۔جب نظیرؔ جیسے قلندر اور درویش شاعر نے اللہ کی کبریائی کو قلم بند کیا، تو اُس میں بھی انوکھے اسلوب سے کام لیا۔ ’’اسرارِ قدرت‘‘ کے عنوان سے نظیرؔ کی نظم کا ایک ایک بند الوہیت کی شان بیان کرتا نظر آتا ہے۔؎جہاں میں کیا کیا خِرَد کے اپنی ،ہر اِک بجاتا ہے شادیانے…کوئی حکیم اور کوئی مہندّس، کوئی ہو پنڈت، کتھا بکھانے… کوئی ہے عاقل، کوئی ہے فاضل، کوئی نجومی، لگا کہانے… جو چاہو، کوئی یہ بھید کھولے، یہ سب ہیں حیلے، یہ سب بہانے… پڑے بھٹکتے ہیں ،لاکھوں دانا، کروڑوں پنڈت، ہزاروں سیانے…جو خوب دیکھا تو یار آخر ، خدا کی باتیں ، خدا ہی جانے۔

نظیر ؔ کا اندازِ شاعری سراسر تجربہ اور مشاہدہ تھا۔ اپنے زمانے پر اور اپنے زمانے کے رسوم و رواج پر بھر پور نظر رکھی۔ رئوساء کے محلوں کی بہ جائے غریبوں کے محلّوں کو موضوعِ گفتگو بناتا رہا۔ عام آدمی کے شوق کو قلم بند کرتا رہا۔ جومعاشرت دیکھی، بلاِ تکلّف و تصنّع بیان کر دی۔ اپنے گرد و پیش کو بیان کرنے کا جو ملکہ نظیرؔ کو حاصل تھا، وہ نظیرؔ سے قبل اور خود نظیرؔ کے عہد میں کسی دوسرے کو نصیب نہ ہو سکا۔ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ نظیرؔ کے بعد بھی شاید ہی کسی شاعر نے اپنے عہد کی معاشرت کو اتنی باریک بینی سے بیان کیا ہو۔ یوں یہ رائے قائم کی جا سکتی ہے کہ نظیرؔ عوامی طرزِ معاشرت کے اظہار کا سب سے مستند نام ہے۔ مشاہدے کی قوّت نے نظیرؔ کی طبیعت کو اس حد تک موزوں کر دیا کہ وہ محض معمولی سے معمولی باتوں اور سادہ مناظر کو بھی اس کیفیت اور جذبے سے ادا کرنے پر قادر ہو گیا کہ اُس کی کہی ہوئی بات سُننے والے کے دِل کو چُھو جاتی۔ اب نظیرؔ نے اپنی نظموں میں نصیحتوں کا ڈول ڈالا۔ سادہ اور سچّے پیرائے میں پڑھنے والوں کو اچّھی اچھی باتوں کی طرف متوجّہ کیا جاتا۔ نظیرؔ نے انسانی زندگی کو ’’بنجارے ‘‘ یا خانہ بدوش کی زندگی کے مماثل قرار دیا۔ تمثیلی پیرائے میں کہی گئی اس نظم کو بے مثال مقبولیت حاصل ہوئی ۔؎ٹُک حرص و ہوا کو چھوڑمیاں،مت دیس بدیس پھرے مارا…قزاق اجل کالوٹے ہے،دن رات بجا کر نقّارا…کیا بدھیا،بھینسا، بیل، شُتر،کیا گوئیں،پلّا،سربھارا…کیا گیہوں،چاول،موٹھ،مٹر،کیا آگ،دھواں،کیا انگارا…سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا ،جب لاد چلے گا بنجارہ۔

’’آدمی نامہ‘‘ نظیرؔ کی ایسی نظم ثابت ہوئی کہ تحریر کیے جانے کے بعد سے ہر گزرتے دن اُس کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ بچّوں کو بھی یہ نظم یاد ہو گئی۔ آدمی کے مختلف روپ کو مختلف انداز میں بیان کرنا نظیرؔ کے کمالِ سخن کی معراج ہے۔دُنیا میں بادشہ ہے، سوہے وہ بھی آدمی …اور مفلس و گدا ہے ،سو ہے وہ بھی آدمی… زردار بے نوا ہے ،سو ہے وہ بھی آدمی …نعمت جو کھا رہا ہے ،سو ہے وہ بھی آدمی …ٹکڑے چبا رہا ہے ،سوہے وہ بھی آدمی۔ نہ جانے کتنے شاعروں نے نظیرؔ کی اس نظم کی نقّالی کی۔ جدید اُردو تنقید کے بانیوں میں سے ایک، ممتاز نقّاد، آلِ احمد سرور نے ’’کچھ خطبے کچھ مقالے‘‘ میں ’’آدمی نامہ ‘‘ کو نظیرؔ کی شاہ کار نظم قرار دیا ہے۔ دراصل، ایسی ہی نظموں کی بنیاد پر نظیرؔ کو ’’عوامی شاعر ‘‘کہا گیا کہ جو عوام کی نفسیات کو سمجھنے کا غیر معمولی وصف رکھتا تھا۔’’ہنس نامہ‘‘ بھی نظیرؔ کی ناقابلِ فراموش نظموں میں سے ایک ہے، جس میں تمثیلی پیرایہ اختیار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انسان کی عارضی زندگی جب اختتام پزیر ہوتی ہے، تو اُس کا قریب ترین ہم درد اور غم گُسار بھی اُس کو تنہا چھوڑ دیتا ہے۔ انسانی زندگی جس چیز کے گرد گھوم رہی ہے ،وہ روٹی ہے۔ ہر دَور میں اقتصادیات نے سماجیات کے انداز و اطوار کو تبدیل کیا ہے، مگر ’’روٹی‘‘ آج بھی پہلی ترجیح ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ ’’روٹیاں‘‘نظیرؔ کی ایسی لافانی نظم ہے کہ جو روٹی کا مسئلہ حل ہونے تک ہمیشہ تازہ رہے گی۔؎ پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے …یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کس لیے…وہ سُن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دے… ہم تو نہ چاند سمجھے نہ سورج ہیں جانتے…بابا ہمیں تو سب نظر آتی ہیں روٹیاں۔

نظیرؔ کی پوری شاعری انسان اور اُس کے طرزِ معاشرت کا بیان ہے۔ وہ انسان کو ہر رُوپ میں اور ہر رنگ میں دیکھتا ہے اور اُسے یہ انسان ہر رُوپ اور ہر رنگ میں بھاتا ہے۔ اب یہ انسان ہندوستان میں بسنے والا مسلمان بھی ہے اور ہندو بھی۔ سکھ بھی ہے اور عیسائی بھی۔ اور دراصل نظیرؔ کو اسی انسان سے پیار ہے اور یہی انسان اُس کا دِل دار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نظیرؔ کے کلام میں ہولی، دیوالی اور بسنت بھی ہے اور عید اور شبِ برات بھی۔ کرشن، کنہیا جی، بلدیو جی پر بھی نظمیں ہیں تو حمدِ باری تعالیٰ، ذکرِ احمدِ مرسلؐ اور شیرِ کردگار حضرت علی مُرتضیٰؓ پر بھی نظمیں ہیں۔ اسی وجہ سے رواداری نظیرؔ کے کلام کی رُوح بن کر سامنے آتی ہے۔ نظیر کے موضوعات تو بے پناہ ہیں۔ مناظرِ فطرت، موسم، انسانی کیفیات، نفسیات، انسانی حالتیں، انسان دوستی، جانوروں سے پیار، صوفیانہ افکار، سماجی معاملات، دُنیا کی ناپائے داری،عیش و عشرت کا بیان اور اس کے علاوہ بھی اَن گِنت معاملات۔ نظیرؔ نے گرچہ زندگی کے مصائب و آلام کا سامنا بھی کیا، مگر زندگی کا المیہ نہیں بیان کیا۔ ایک زندہ دِل انسان اور رجائیت پسند شاعر ہونے کے ناتے نظیرؔ نے زندگی کو طربیہ انداز میں بسر کیا۔ میر تقی میرؔ نے کہا تھاکہ؎شعر میرے ہیں گو خواص پسند…پر مُجھے گفتگو عوام سے ہے۔

میرؔ کے کہنے کی غرض یہ تھی کہ مَیں جو سُخن کرتا ہوں، اُس کی داد سُخن وَروں سے پاتا ہوں، گرچہ مَیں جو بات کرتا ہوں، اُس کے مخاطب عام لوگ ہیں۔ مگر وقت نے ثابت یہ کیا کہ میرؔ کا کلام عوام و خواص دونوں میں مقبول ہوا۔ نظیرؔ اکبر آبادی نے جب شعر گوئی کا آغازکیا، تو اُس زمانے کے اہلِ سُخن یا خواص نے اُن کے کلام کو رد کر دیا۔ وجہ یہ تھی کہ اہلِ ذوق افراد کا کہنا تھا کہ نظیرؔ کا کلام بازاری ہے۔ اس رائے کو مستحکم تر بنانے کا سہرا نام وَر شاعر، نقّاد اور صاحبِ’’ گلشنِ بیخار‘‘ نواب مصطفیٰ خاں شیفتہؔ کے سَر جاتا ہے۔ نظیرؔ کے موضوعات کو عوامی، سوقیانہ اور بازاری قرار دے کر اُس وقت کے طبقۂ خواص نے اُس کے کلام کو قابلِ ذکر نہ جانا، البتہ عوام نظیرؔ کے کلام پر سر دُھنتے رہے اور یوں نظیرؔ کا کلام عوام کی زبان پرجاری رہا۔ تاہم، جیسے جیسے وقت گزرتا رہا، صُورت کچھ یوں بنی کہ عوام تو شاید آج نظیرؔ کے کلام کے بہت سے گوشوں سے ناواقف ہیں، جب کہ خواص آج نظیرؔ کے کلام کے ایک ایک رُخ سے واقفیت رکھتے ہیں۔

لگ بھگ ایک صدی کی عُمر پانے والا عوامی شاعر، جب دُنیا سے کُوچ کر گیا، تو اُس کا غم مسلمانوں اور ہندوئوں دونوں نے منایا۔ نظیرؔ کی تدفین کے موقعے پر مسلمانوں اور ہندوئوں دونوں نے دعویٰ کیا کہ اُن کے جنازے پر اُن کا حق ہے۔ یہی نہیں، بلکہ ممتاز مزاح نگار، مرزا فرحت اللہ بیگ نے ’’دیوانِ نظیر ؔاکبر آبادی‘‘ مرتّب کرتے ہوئے کتاب کے مقدّمے میں یہ جملہ بھی تحریر کیا کہ ’’یکم اگست 1830ء کو اُن کا انتقال ہوا، تو شیعہ سنّی دونوں نے اپنے اپنے طریقے پر علیٰحدہ علیٰحدہ اُن کی نمازِ جنازہ پڑھی اور جنازے کی چادر ہندو احباب لے گئے۔‘‘یہ عمل اس بات کا ثبوت فراہم کرتا ہے کہ شاعر پر مسلمانوں اور ہندوئوں دونوں کا بلا شرکتِ غیرے اتّفاق تھا۔ نظیرؔ کا کلام پڑھتے ہوئے مسلسل یہ خیال آتا ہے کہ نظیرؔ اور عوامی شاعری ’’لازم و ملزوم‘‘ ہیں۔

تازہ ترین