• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
منیراحمدخان پیپلزپارٹی کے ایک معتبر کارکن تو ہیں ہی میاں منظور وٹو سے ان کا بقول شخصے جنم جنم کا ساتھ ہے۔ تحریک ِ استقلال سے دونوں اکٹھے مسلم لیگ میں آئے اور جب وٹو صاحب وزیراعلیٰ بنے تو یہ ان کے میڈیا کوآرڈی نیٹر تھے اور اب جب خاص تلاش اور چھان پھٹک کے بعد آصف علی زرداری نے جناب وٹو کے سر پر پنجاب پیپلزپارٹی کا تاج سجا دیا تو منیر احمد خان اسی جاہ و جلال سے ان کے ساتھ ہیں۔ بدھ کی شام انہوں نے فون پروٹو صاحب کی جانب سے ظہرانہ کی دعوت دی ۔ گزشتہ رات کی بے آرامی کی وجہ سے طبیعت بوجھل تھی لیکن فون پر تاکیدی حکم نے وہاں جانے پر مجبور کردیا۔ خوف بھی تھا کہ اگر نہ گیا تو گلہ ہوگا۔ ”ادھر والے“ بھی اگر کسی تقریب کی دعوت دی جائے اور وہاں نہ جاسکوں تو ”حاجی صاحب“ سے شکایت ملتی ہے۔ ادھربھی ایک عمر کی یادااللہ ہے کہ مجھے جناب وٹو کے ”ہم جماعت“ ہونے کا اعزاز حاصل رہا ہے۔ لاہور کے ایک فائیوسٹار ہوٹل میں پرتکلف چائینیز کھانے کا اہتمام تھا جہاں صرف 11 بزرگ و جوان صحافی مدعو تھے۔ یہ محفل ڈھائی گھنٹے سے زائد جاری رہی جس میں جناب وٹو نے ”کھلے دل“ سے تمام امور پر تبادلہ خیال کیا۔ اول تو انہوں نے اس بات پر انتہائی مسرت کااظہار کیا کہ پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے ہزاروں کی تعداد میں ان کا استقبال کرکے صدر زرداری کے فیصلہ کی توثیق کی ہے اور دوسرا یہ کہ پیپلزپارٹی پنجاب کی تاریخ میں پہلی بارایسا ہوا ہے۔ پارٹی صدر کا اتنا والہانہ اور ”بے مثال“ خیرمقدم کیا گیا جب ان کی توجہ مسلم لیگ (ق) کی جانب سے تحفظات کے اظہار پر دلائی گئی تو انہوں نے یہ کہہ کر کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے سختی سے تردید کی اورکہا کہ اسلام آباد میں ”انتہائی خوشگوار“ ماحول میں چوہدری شجاعت حسین سے میری ملاقات ہوئی ہے۔ ہمارے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ میں اورچودھری پرویز الٰہی ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر انتخابی مہم چلائیں گے اور ن لیگ کو شکست دے کر دکھائیں گے۔ ماضی میں بھی ان کا مقابلہ کیا ہے۔ دو بار نہیں تین بار وزیراعلیٰ رہا ہوں۔ میں ان سے مقابلہ کرنا جانتا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) او ر ہمارا مقابلہ ہوگا تو تحریک ِ انصاف کاامیدوار ہمارے لئے ”نعمت“ یوں ثابت ہوگا کہ مسلم لیگ (ن) کے ہی ووٹ تقسیم ہوں گے۔ میں نے ان کو ٹوکا کہ ”جناب والا یہ خواب کہاں سے آیا؟“ جس پرمجیب الرحمن شامی نے کہا کہ ”خواب دیکھنے سے آپ کیسے روک سکتے ہیں؟“ میرا جواب تھا کہ میں نے روکا نہیں میرا استفسار تو یہ تھا کہ یہ خواب کہاں سے آیا ہے؟ ریٹائرڈ ایئرمارشل اصغر خان کیس کے فیصلے کا ذکر ہوا توجناب نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے اس فیصلے میں صدر زرداری کو سیاست میں حصہ لینے سے روک دیا ہے۔ شامی صاحب کاکہنا تھا کہ صدر مملکت کو اب اس حوالے سے فیصلہ کرنا ہوگا۔ ایوان صدر کو اب پیپلزپارٹی کی سرگرمیوں کا گڑھ نہیں بنایا جاسکتا۔ ایک اور سینئر صحافی کی رائے تھی کہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے صدر مملکت کو جلد فیصلہ کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے اکثریت کا خیال تھا کہ صدر پارٹی عہدہ چھوڑ دیں اور مملکت کے سربراہ کا کردار ادا کریں جبکہ میاں منظور وٹو کا کہنا تھا کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں اور اس پرعمل درآمد کے لئے کوئی تیسرا اور قابل قبول حل نکال لیا جائے گا۔ میاں منظور وٹو نے خبر بھی دی کہ وہ صدرمملکت سے ملاقات کریں گے اور وعدہ کیا کہ اس حوالے سے سینئر صحافیوں کی تجاویز سے انہیں ضرور آگاہ کریں گے۔ تاہم منظوروٹو کا کہنا ہے کہ وہ پنجاب میں پرانے اور ناراض کارکنوں کو فعال بنا کر پارٹی کو متحرک کریں گے اور یہی ان کا اول و آخر مقصد ہے۔ وہ بڑے پرامید ہیں کہ صوبہ پنجاب میں بھٹو دور والی پیپلزپارٹی ”زندہ“ کردیں گے۔ گلی کوچوں سے ”جئے بھٹو“ کی آواز بلند ہوگی۔
میں نے گزارش کی کہ پارٹی کو منظم اور فعال بنانا، جلسے جلوس کرنا آپ کا حق ہے لیکن ایک دیرینہ نیازمند کی حیثیت سے میری ان سے التجا ہے کہ ”گالی گلوچ“ کی سیاست سے گریز کیاجائے۔ وٹو صاحب کا جواب تھا کہ ”مجھے آپ سے اتفا ق ہے۔ میں نے کبھی بھی ذاتیات کی سیاست نہیں کی اور میاں برادران کے بارے میں کبھی بھی نازیبا الفاظ استعمال نہیں کئے“ آپ شہباز شریف کو بھی منع کریں کہ وہ صدر یا پارٹی قیادت کے خلاف تندوتیز الفاظ استعمال نہ کیا کریں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ق اور پیپلزپارٹی کے درمیان سیٹوں کی تقسیم کا فارمولا طے ہوچکا ہے۔ جہاں جہاں سے جو جیتا ہے وہی امیدوار ہوگا اور اس کے بعد دوسرے نمبرپر آنے والا پارٹی ٹکٹ کا حقدار ہوگا۔ آخر میں میاں منظور وٹو نے پنجاب میں پارٹی میڈیا سیل قائم کرنے کے بارے میں رائے لی تو میرا کہنا تھا کہ منیر احمد خان اور میاں منظور وٹو کا پرانا ساتھ ہے اس لئے وہی میڈیا سیل کے لئے سب سے مناسب اور بہتر چوائس ہوسکتے ہیں سب نے میری تائید کی لیکن منیر احمد خان ظاہراً یہ عہدہ قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں اور بات اس سے آگے نہ بڑھ سکی کہ ان کے سیکرٹری نے ان کے کان میں آ کر کسی میٹنگ کے وقت کی اطلاع دی اس طرح یہ پرتکلف ظہرانہ اور بے تکلف محفل اختتام پذیر ہوئی۔
تازہ ترین