• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پیرس سے 125کلو میٹر دور ایک گاوٴں میں جس کا نام چارل ولا (Charleville)ہے، میں کسی نے ایک کتے کو نشے کی چیز کھلا کر بے ہوش کر کے ایک جھیل کے کنارے زمین میں گڑھا کھود کر دفنا دیا ۔ خوش قسمتی سے ایک شخص وہاں سے گزرا تو اس نے دیکھا کہ زمین کے اندر کوئی چیز ہل رہی ہے اور زمین کے اندر سے ہلکی ہلکی آوازیں آرہی ہیں۔ اس نے پولیس کو اطلاع دی ، پولیس کی گاڑیاں اور ریسکیو والے حادثے کی جگہ پہنچے اور کھدائی کر کے مٹی ہٹائی تو اس گڑھے سے ایک نیم مردہ کتا نکالا اور فوراً اس پر سے مٹی ہٹا کر گرم پانی سے اس کو نہلایا کتا نیم غنودگی کی حالت میں ٹھنڈا ہو چکا تھا ۔ غالباً وہ باہر نکلنے کے لئے بہت ہاتھ پاوٴں مارنے کی وجہ سے کمزور ہو گیا تھا اس کو جانوروں کے اسپتال لا کر گرمائی دی گئی جس کے بعد کتے کو ہوش میں لایا گیا جو بمشکل سانس لے رہا تھا۔ کچھ دیر بعد کتے نے انگڑائی لی اور اپنے پاوٴں پر کھڑا ہو گیا۔ یہ اس کتے کی اپنی کوشش کام آئی اس نے ہوش میں آنے کے بعد ہاتھ پاوٴں چلائے جس سے گڑھے میں ہلچل دیکھی گئی اور اس کتے کی جان بچ گئی۔ یہاں تک قصہ ختم نہیں ہوا پولیس نے اس کتے کی زنجیر نمبر سے اس کے مالک کا پتہ چلایا اس کے مالک نے بتایا کہ اس نے کتا معمول کے مطابق کھولا تھا مگر وہ واپس نہیں آیا۔ پولیس کو مالک پر شک ہے کہ جب کتا واپس نہیں آیا تو اس نے پولیس کو کیوں اطلاع نہیں دی ۔ اب وہ ضروری معلومات جمع کر رہی ہے کہ کہیں اس کے مالک نے یا پھر کسی نے دشمنی میں اس کو بے ہوش کرکے دفن کر نہ دیا ہو۔ موقع پر موجود لوگوں نے اس کی جان بچ جانے پر بہت خوشی کا اظہار کیا پھر مختلف ٹی وی چینل والوں نے اس کہانی کو اپنے ناظرین کو دکھایا ، انہوں نے پولیس کی کارکردگی کو سراہا ۔ مغرب میں انسانوں کی نہیں جانوروں ، پرندوں حتیٰ کہ درختوں تک کی حفاظت کی جاتی ہے اور خصوصاً ان کی حفاظت کے لئے الگ الگ سخت قوانین بنائے گئے ہیں۔ ان کی سخت سزائیں بھی ہیں کہ اگر ایک درخت کو کاٹ دیں تو پولیس اور انتظامیہ حرکت میں آجاتی ہے اور اس کا باقاعدہ چالان کیا جاتا ہے۔
پچھلے سال راقم ایک رات کینیڈا میں کھانے کے بعد واپس گھر آرہا تھا ، راستے میں چند پولیس کی گاڑیوں نے سڑک بلاک کر رکھی تھی معلوم ہوا کہ کھیتوں سے ایک بڑا ہرن نکل کر سڑک پار کر رہا تھا ایک گاڑی سے ٹکرا کر زخمی ہو گیا۔ گاڑی والے نے پولیس کو موبائل سے اطلاع دی ۔ جانوروں کے ڈاکٹر اس کی جان بچانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے اور پولیس والے اطلاع دینے والے سے پوچھ گچھ کر رہے تھے ۔ کہیں اس کی گاڑی کی رفتار تیز تو نہیں تھی کیونکہ سڑک کے کنارے بورڈ لگا تھا کہ ہرن سڑک پر آسکتا ہے لہٰذا گاڑی آہستہ چلائیں یعنی بورڈ پر ہرن بنا ہوتا ہے۔
میرے ایک دوست نے جو امریکہ میں رہتے ہیں ان کی اہلیہ رات کا بچا کھچا کھانا جمع کر کے گھر کے سامنے پارک میں کبوتروں کو ڈال دیتی تھیں۔ کچھ دن بعد بہت سارے کبوتر جمع ہو گئے ایک دن وہاں سے پولیس کی گاڑی کا گزر ہوا تو پولیس والے اتر کر وہاں پہنچے اور ان کی اہلیہ سے پوچھا کہ یہ کھانا کیوں کھلا رہی ہیں کیا ضمانت ہے کہ اس کو کھا کر کبوتر بیمار یا مر نہ جائیں گے،کون ذمہ دار ہوگا؟ ان کی اہلیہ نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم تھا مگر پولیس مطمئن نہیں ہوئی ان کا چالان کر دیا ۔ ایسا کرنا جرم ہے بعد میں عدالت نے ان کو معمولی جرمانہ کر کے وارننگ دی کہ خبردار آئندہ یہ بچاکھچا کھانا یا پکے ہوئے چاول ڈالنا خلاف قانون ہے۔ صرف وہی کھانا کھلائیں جو سیل پیک ہو اور جانوروں کے لئے بنا ہوا ہو ۔ اسی طرح جھیلوں ، دریاوٴں میں بھی مچھلیوں کو دیگر کھانے ڈالنے کی ممانعت ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر سمندر سے کوئی مچھلی یا جانور نکل آئے اور مرنے لگے تو آپ کو چاہئے کہ فوراً پولیس کو اطلاع کریں ۔ آپ نے اس سے غفلت برتی تو آپ کو سزا ہو سکتی ہے۔ اسی طرح یہاں مچھلی کا شکار بغیر لائسنس کرنا بھی جرم ہے اور آپ ایک لائسنس پر صرف 3مچھلیاں پکڑ سکتے ہیں ۔
اگر آپ زیادہ پکڑیں گے تو آپ کو کانٹے سے نکال کر دریا یا سمندر میں جہاں سے آپ پکڑ رہے ہیں واپس ڈالنا ہو گی۔ گویا مچھلیوں کی نشوونما جاری رکھنا بھی ضروری ہے۔ جرمنی میں میرے ایک دوست نے گھر میں چڑیاں پالی ہوئی تھیں اور ان سب کے الگ الگ نام رکھے ہوئے تھے ۔ وہ جس چڑیا کا نام لیتا وہ پنجرے کے تاروں پر آکر اپنا دانہ کھاتی تھی ۔ اس نے بتایا کہ اس کی بیوی اس کو چھوڑ کر چلی گئی لہٰذا وہ فرصت کے اوقات ان چڑیوں کے ساتھ گزارتا ہے۔ مزے کی بات کہ میں اس جرمن دوست کی اتوار کی دعوت پر مدعو تھا کہ 2چڑیاں آپس میں لڑ پڑیں اور ایک کی چونچ ٹوٹ گئی اس نے کھانا چھوڑا اور کہنے لگا کہ دوست تم گھر پر کھانا کھاوٴ میں اس کو اسپتال لے جاتا ہوں۔ میرے لئے یہ ایک نئی بات تھی میں نے کہا کہ میں بھی چلتا ہوں ۔ گاڑی سے ہم ایک چھوٹے سے پرندوں کے اسپتال اس کو پنجرے میں ہی لے گئے وہاں ڈاکٹر نے باقاعدہ آپریشن کر کے اس کی چونچ لگائی اور الگ پنجرے میں بند کر کے واپس کیا اور آپریشن کی باقاعدہ فیس وصول کی جو کئی ہزار روپوں میں تھی ۔ میں نے اس کو کہا کہ اس چڑیا کو کیوں نہیں اڑا دیا اس رقم سے تو ایک درجن نئی چڑیا مل سکتی تھیں ۔ اس نے منہ بنا کر کہا کہ تم کیسے انسان ہو جو پرندوں کی جان کو جان نہیں سمجھتے میرے پاس اس بات کو کوئی جواب نہیں تھا۔
ہمارے ملک کیا ہورہا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے اس وقت حالت یہ ہے کہ کراچی میں روزانہ 10سے 12افراد دہشت گردی کی نذر ہوجاتے ہیں حالانکہ اسلام مسلمان کی جان کوخانہٴ کعبہ سے بھی بڑھ کر محترم قرار دیتا ہے۔ یہ کون مسلمان ہے جو اس کو کھلونا سمجھ کر توڑ رہا ہے، پولیس صرف تماشائی بن چکی ہے۔ کیا عمران خان ، نواز شریف ، مولانا فضل الرحمن کو کراچی کے باشندوں کا دکھ ، دکھ نہیں لگتا ۔ کیا یہاں کے تاجر لاوارث ہو چکے ہیں ان کی آواز کوئی نہیں سنتا ۔ وہ اپنے اپنے کاروبار بند کرنے پر مجبور ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ عملی طور پر غیر فعال ہیں بھتہ خوری، دہشت گردی ، قتل و غارت گری اپنے عروج پر ہے، سیاستدان صرف کرسی کی جنگ میں مصروف ہیں۔ انہیں اگلے الیکشن کی فکر ہے اس صوبے کے عوام پر کیا گزر رہی ہے اس سے ان کو کوئی سروکار نہیں ہے۔ تاجر نقل مکانی کر رہے ہیں ، صنعت کار ملک سے باہر جارہے ہیں، دیار غیر کے پاکستانی بڑے دکھ و الم کے ساتھ اس ملک کی تباہی کو دیکھ کر کڑھ رہے ہیں ۔ اس کالم کو لکھ کر اپنا غم ہلکا کر رہا ہوں کیونکہ میں بھی دیارِ غیر میں ہوں ۔ یہاں کے پاکستانی مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہمارے ملک کا کیا ہوگا؟
تازہ ترین