• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کل جتنے دانشور ہم نے اپنے اخبارات اور ٹی وی چینلز میں اکٹھے کر لئے ہیں ،اتنے پورے ہند سندھ میں نہیں پائے جاتے۔کون کہتا ہے کہ اس ملک میں قحط الرجال ہے،یہاں تو ”اِٹ پّٹو “ تو دانشور نکلتا آتا ہے۔ اور دانشور بھی ایسا جس کی پٹاری میں ہر مسئلے کا حل موجود ہے اور جو یہ بڑھک مارنے سے بھی نہیں چوکتا کہ موجودہ بحران کے بارے میں تو اس نے آج سے دس سال قبل اس وقت پیش گوئی کر دی تھی جب فلاں اینکر فیڈر میں دودھ پیتا تھا۔کچھ دانشوروں کو توروحانی پیشوا ؤں کی امامت بھی میسرہے جو انہیں چپکے سے کان میں آ کر بتا جاتے ہیں کہ آئندہ ملک کی باگ دوڑ نوجوانوں کے ہاتھ میں ہوگی۔ واضح رہے کہ یہ پیش گوئی پانچ سال سے مارکیٹ میں رُل رہی ہے اور اب تو اس کی داڑھی بھی سفید ہو چکی ہے۔ ان تمام دانشوروں کی افادیت سے مجھے انکار نہیں لیکن جس قسم کے دانشور کی مجھے تلاش ہے اس جیسا ایک بھی اپنے ہاں نہیں پایا جاتا۔بد قسمتی سے ہمارے ملک میں کوئی دانشوریالکھاری ایسا نہیں ہے جس نے زندگی کی بے ترتیبی (randomness)، مستقبل شناسی، امکانات (probability) یا بے یقینی کے بارے میں کوئی سنجیدہ (یا غیر سنجیدہ)کام کیا ہو۔شاید ہمیں ایسا کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ ہم سب ہی ماشاء اللہ عقل کل ہیں اورکسی بھی واقعے کے رونما ہونے کے فوراً بعد اس کی وجوہات اور درپردہ سازش کو بے نقاب کرنے میں جُت جاتے ہیں۔ ایسی صورتحال کو ایک غیر ملکی ذہین دانشور نے Black Swanکا نام دیا ہے ۔بلیک سوان تھیوری کیا ہے ؟اس تھیوری کے مطابق تاریخ میں جب بھی کوئی غیر معمولی واقعہ رونما ہوتا ہے ،اس کی تین نشانیاں ہوتی ہیں ۔پہلی نشانی یہ کہ اس واقعے کا مشاہدہ کرنے والوں کے لئے وہ واقعہ انتہائی درجے حیرت انگیز ہوتا ہے، دوسری نشانی،اس واقعے کے لوگوں کی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور تیسری دلچسپ نشانی یہ ہے کہ اس واقعے کے فوراً بعد لوگ اس کی تاویلیں ڈھونڈنا شروع کر دیتے ہیں اور کچھ ایسا ماحول بن جاتا ہے جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ اس واقعے کی نشانیاں تو ظاہر ہونا شروع ہو گئی تھیں ،اعداد و شمار اور حقائق بھی اس کی نشاندہی کر رہے تھے مگر ہم نے توجہ نہیں دی،وغیرہ وغیرہ۔ اس حیرت انگیز تھیوری کا خالق، نسیم نکولس طالب، ایک لبنانی امریکن دانشور ہے ،جس نے سب سے پہلے 2004 میں اپنی کتاب”Fooled by Randomness“ میں یہ تھیوری پیش کی ۔یہ کتا ب Fortuneکی ”75ذہین ترین کتابوں کی فہرست“ میں شامل ہے۔بعد ازاں 2007میں اس کی کتاب ”The Black Swan“ منظر عام پر آئی جسے سنڈے ٹائمز نے دوسری جنگ عظیم کے بعد شائع ہونے والی 12پُر اثر ترین کتابوں میں سے ایک قرار دیا۔
اس ذہین دانشور کے خیالات جس قدر چونکا دینے والے ہیں اسی قدر دلچسپ اور سادہ بھی ہیں۔طالب کے خیال میں تاریخ کی زیادہ تر اہم سائنسی ایجادات اور دریافتیں،تاریخی واقعات اورفنون لطیفہ کے میدان کی بڑی کامیابیاں در حقیقت اچانک رونما ہوئیں جن کی پہلے سے کوئی پیش گوئی نہیں کی گئی تھی۔ مثلاً انٹرنیٹ کا عروج، کمپیوٹر،پہلی جنگ عظیم،9/11کے واقعات …یہ تمام ”بلیک سوان“ کی مثالیں ہیں جنہوں نے نہ صرف دنیا کو حیران کر دیا بلکہ دنیا کی ایک بڑی آبادی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی ۔طالب کے مطابق زندگی probability theory پر نہیں چلتی۔دنیا کے تما م بڑے واقعات جنہوں نے دنیا کا نقشہ بدلہ probability کے خلاف رونما ہوئے ۔زندگی دو جمع دو چار نہیں ہوتی۔ زندگی کی پیش گوئیاں probability کے مطابق نہیں کی جا سکتیں کیونکہ probability زندگی کے امکانات کا تعین کرتے ہوئے محدود دائرے کے عوامل کو ہی گنتی میں لاتی ہے جبکہ زندگی پر جو عوامل اثر انداز ہو سکتے ہیں وہ محدود نہیں ہوتے اور نہ ہم کلی طور پر ان کا علم رکھتے ہیں ۔”بات تو مشکل ہے پر بات ہے سچائی کی!“نسیم طالب کا کہنا ہے کہ ہمیں بقراط بن کر واقعات کی پیش گوئی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں البتہ جب کوئی واقعہ رونما ہو جائے تواس کے مضمرات سے خود کو بچانا کی کوشش کرنی ہے ۔مثلاً کسی بکرے کے لئے بڑی عید کے موقع پر ذبح ہونا بکرے کے تناظر میں تو ”بلیک سوان “ ہے مگر قصائی کے لئے نہیں ،لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ”بلیک سوان“ واقعے کے نتیجے میں کسی قصائی کے ہتھے نہ چڑھ جائیں اور بقول طالب اس ”بلیک سوان“ کو اپنے فائدے کے لئے ”وہائٹ سوان“ بنا لیں۔
ویسے ذہانت میں ہم بھی کسی نسیم طالب سے کم نہیں۔ ہمارے ملک میں ایک سے بڑھ کر ایک کالا ہنس راج موجود ہے جسے ہر بڑے واقعے کے پس پردہ ہونے والی سازش ،اس کے قدرتی عوامل حتیٰ کہ خدا کی مرضی اور منشا کا بھی ادراک ہو جاتا ہے ۔لیکن یہ سب کچھ واقعہ ہونے کے بعد القا ہوتا ہے ۔تازہ ترین مثال سینڈی عذاب کی لے لیں ۔اس امریکی طوفان کے برپا ہونے کے بعد ہمارے چند بزرجمہروں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ یہ خداکا عذاب ہے جو آنا ہی تھا۔اگر سینڈی خدا کا عذاب تھا تو یہ بات سینڈی طوفان سے پہلے کیوں نہ بتائی گئی ؟ یہ پیش گوئی اسی وقت کیوں نہ کی گئی جب امریکہ میں وہ بیہودہ فلم بنائی گئی تھی،کیوں اسی وقت نہیں بتا دیا گیا کہ اب بہت جلد خدا امریکہ پر اپنا عذاب نازل کرے گا! مگر نہیں ۔طوفان آیا اور ”جنگ“ کے نمائندے عظیم ایم میاں کی ایک خبر کے مطابق بروکلین کی چار مساجد کو شدید نقصان پہنچانے کے علاوہ سو سے زائد پاکستانی مسلمانوں کے گھروں کو بھی مکمل طور پر تباہ کر گیا ۔اس بیہودہ فلم اور اس کے ملعون خالق کا تو کچھ بھی نہیں بگڑا ،مساجد البتہ شہید ہو گئیں ،کیا یہ عذاب تھا ؟ ہر گز نہیں ۔کیونکہ خدا نے خود قرآن میں جا بجا ہمیں بتایا ہے کہ جب وہ کسی بستی پر عذاب نازل کرتا ہے تو پہلے نیک بندوں کو وہاں سے نکال لیتا ہے ۔
بلیک سوان کی ایک اور پاکستانی مثال ،ہمارے عام انتخابات ہیں۔ اس وقت کسی مائی کے لعل کو نہیں پتہ کہ آئندہ الیکشن کے نتائج کیا ہوں گے ،سب تیر تکوں سے کام چلا رہے ہیں ،مگر جونہی نتائج کا اعلان ہوگا ،تجزیئے شروع ہو جائیں گے اور ہر شخص ان نتائج کو عقلی دلائل سے ثابت کرنے کی کوشش کرے گا کہ یہ تو نوشتہ دیوار تھا ،نہ جانے لوگوں سے کیوں نہیں پڑھا گیا !اسی دانشور نسیم طالب کا ایک تھیسس کامیابی سے متعلق بھی ہے اور وہ بھی اتنا ہی دلچسپ ہے ۔طالب کا کہنا ہے کہ ہم دنیامیں کامیاب لوگوں سے متاثر ہوتے ہیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ایسا کرنے میں یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کامیاب لوگوں کے علاوہ دنیا میں ناکام لوگ ان سے بھی زیادہ تعداد میں تھے جنہوں نے وہی کام کرنا چاہا مگر ناکام رہے ۔چونکہ وہ ناکامیاں ریکارڈ نہیں کی جاتیں اس لئے ان کی وجوہات بھی سامنے نہیں آتیں اور یوں لوگ کامیاب ہونے کی بجائے ناکام ہو جاتے ہیں۔ہمارے ہاں نسیم طالب جیسے دانشور تو نہیں خیر دور دور تک نہیں پائے جاتے البتہ ایسے دانشور ضرور مل جاتے ہیں جو غیر محسوس طریقے سے یہ دعویٰ کرتے ہیں انہیں مستقبل کے بارے میں القا ہوتا ہے ۔ان کا یہ القا بالکل اس مراثی کی طرح ہے جس کی بیٹی گھر سے بھاگ گئی تھی۔جب لوگ اس کے گھر افسوس کرنے آئے تو مراثی نے آہ بھر کے کہا ”میری بیٹی بہت پہنچی ہوئی تھی ،اس نے ایک ہفتہ پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اس گھر میں سے ایک بندہ کم ہو جائے گا۔“
تازہ ترین