• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اس فیصلے کو انتخابات 2018ء میں شفافیت یقینی بنانے کی ایک پیشرفت کے طور پر دیکھا جارہا ہے جس کے تحت عام انتخابات 2018ء میں حصہ لینے والے تمام امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی تفصیلات اور انکے جمع کرائے گئے حلف نامے کمیشن کی سرکاری ویب سائٹ میں ڈالے جائینگے۔ قبل ازیں سیاسی جماعتوں کے تحفظات کے پیش نظر الیکشن کمیشن نہ صرف مذکورہ تفصیلات ویب سائٹ پر ڈالنے میں تذبذب کی کیفیت سے دوچار تھا بلکہ اس نے 2013ء کے الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کی تفصیلات بھی اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دی تھیں۔ گزشتہ پارلیمنٹ میں انتخابی اصلاحات پیکیج پر مشاورت کے دوران مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سمیت تقریباً سب ہی پارٹیوں کی جانب سے الیکشن کمیشن کی ماضی سے جاری پالیسی کی مخالفت کی گئی تھی۔ انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی نے مطالبہ کیا تھا کہ اثاثوں وغیرہ کی تفصیلات الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ سے مٹا دی جائیں۔ ارکان پارلیمان کا موقف تھا کہ اثاثوں کی تفصیلات جاری کرنا نہ صرف نجی زندگی میں مداخلت کے مترادف ہے بلکہ اس میں یہ قباحت بھی ہے کہ جرائم پیشہ افراد کو اغواء سمیت دیگر غیر قانونی ذرائع سے ارکان پارلیمان کو لوٹنے کی ترغیب ہوسکتی ہے۔ چنانچہ ای سی پی نے اپنی ویب سائٹ سے ارکان پارلیمان کے اثاثوں وغیرہ کی تفصیلات مٹا دیں اور ساتھ ہی انتخابات 2013ء کے کاغذات نامزدگی بھی ہٹا دیئے جن میں ہزاروں افراد کے گوشواروں کے ہمراہ ملکی و غیر ملکی پراپرٹی اور بینک کھاتوں کی معلومات درج تھیں۔ یہ معاملہ اس وقت نئے سرے سے ابھر کر سامنے آیا جب انتخابات 2018ء کے کاغذات نامزدگی کے بارے میں یہ بات سامنے آئی کہ ان میں امیدواروں کے غیر ملکی اثاثوں سمیت اہم معلومات حذف کر دی گئیں۔ ان کاغذات نامزدگی کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا تو عدالت عالیہ نے اپنے حکم کے ذریعے ہدایت کی کہ نئے کاغذات نامزدگی کا اجرا روک دیا جائے اور وہ تمام تفصیلات طلب کی جائیں جو پرانے فارمیٹ کا حصہ تھیں۔ اس فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان اور قومی اسمبلی کے اسپیکر نے اپنے اپنے طور پر بعض قانونی و تکنیکی امور کے حوالے سے رہنمائی کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے نامزدگی فارم کو برقرار رکھتے ہوئے وہ تمام کوائف ایک بیان حلفی کے ذریعےطلب کرنے کی ہدایت کی جو الیکشن 2013ء کے لئے سپریم کورٹ کے منظور کردہ نامزدگی فارم کا حصہ تھے اور الیکشن کمیشن کے موقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس افتخار چوہدری نے بعض معلومات تک ووٹروں کی رسائی کی ضرورت تسلیم کی تھی۔ اب یہ بات یقینی معلوم ہوتی ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلی کے کاغذات نامزدگی اور انکے ساتھ جمع کرائے گئے بیان حلفی کے علاوہ اسکروٹنی کے دوران سامنے آنے والے بعض پہلوئوں کے بارے میں تفصیلات تک عام ووٹروں کی رسائی ہوگی۔ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر انتخابات میں حصہ لینے والے تمام امیدواروں کے بارے میں معلومات کی دستیابی سے انتخابی عمل کو زیادہ شفاف بنانے میں مدد ملے گی۔ امیدواروں کی بڑی تعداد پہلے ہی سے یہ امید کررہی تھی کہ ان کی فراہم کردہ اثاثوں اور اکائونٹس کی تفصیلات ویب سائٹ پر ڈالی جاسکتی ہیں۔ چنانچہ اس بار امیدواروں کے ظاہر کئے گئے اثاثوں کی جو تفصیلات مختلف ذرائع سے سامنے آئی ہیں ان میں غربت و افلاس کی وہ صورتحال نظر نہیں آتی جو ماضی میں ظاہر کئے گئے بعض گوشواروں سے ظاہر ہوتی تھی۔ امیدوار جانتے ہیں کہ انہوں نے غلط بیانی سے کام کیا تو ویب سائٹ سے حاصل کردہ تفصیلات کی بنا پر انہیں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح درست بیانی کا رجحان رفتہ رفتہ بڑھے گا تو باہمی شکوک و شبہات کم کرنے میں مدد ملے گی۔ ویسے بھی انتخابی امیدواروں ہی نہیں ہر خاص و عام فرد میں یہ احساس شدت سے اجاگر کیا جانا چاہئے کہ بالآخر اپنے حلفی یا غیر حلفی بیان سمیت ہر عمل پر ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہونا ہے۔
kk

تازہ ترین