• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں پانی کا ایک گھونٹ پیتے وقت،وضو کرتے،غسل لیتے کانپ رہا ہوں کہ میں اپنے پوتے پوتیوں نواسوں نواسیوں کے حصّے کا پانی استعمال کررہا ہوں۔ آٹھ دس سال بعد وہ میری اس لا پروائی کا خمیازہ پانی کی راشن بندی کی شکل میں بھگت رہے ہوں گے۔
25جولائی میں ایک ماہ چار دن رہ گئے ہیں۔
پاکستان کی ہنگاموں۔ زخموں۔ المیوں بھری تاریخ میں ایک اور اہم دن جب عوام کو یہ طے کرنا ہے کہ 2023تک یعنی آئندہ پانچ سال کے لئے ملک کا نظم و نسق کس پارٹی کے پاس ہوگا۔ نظم و نسق سے مراد یہ ہے کہ 20کروڑ زندگیوں سے متعلق بنیادی مسائل حل کرنے کا لائحہ عمل کس کے پاس ہے۔ 5سال ۔ 60سال۔ 1800دن۔ واہگہ سے خیبر ۔ واہگہ سے دالبندین۔ واہگہ سے گوادر تک کیسے گزریں گے۔ اب تو فاٹا بھی شامل ہوگیا ہے۔ گلگت بلتستان۔ آزاد جموں و کشمیر کی پالیسیاں بھی انہی منتخب حکمرانوں کو طے کرنا ہوتی ہیں۔
مہذب جمہوری ملکوں میں ریاست کو یعنی جیتے جاگتے انسانوں کو ہر معاملے میں اولیں ترجیح دی جاتی ہے۔ ہر سوچ کا محور یہ جمہور،یہ بے بس افرادہوتے ہیں۔ آئندہ الیکشن کے تجزیوں۔ جائزوں۔ پیشں گوئیوں کی کسوٹی بھی یہی ہوتی ہے کہ ریاست کو درپیش مسائل کس طرح حل ہوسکتے ہیں۔ ان کے لئے کس پارٹی کا منشور بہتر ہے۔ کس پارٹی کا سابقہ ریکارڈ اس سلسلے میں اچھا ہے۔ کس سیاسی جماعت کے پاس ایسے ماہرین ہیں جو متعلقہ مسائل سے منسلک پیچیدگیوں پر عبور رکھتے ہیں۔ پاکستان کو اس وقت جن چیلنجوں کا سامنا ہے ان میں سر فہرست قرضوں کی ادائیگی ہے۔ پبلک کارپوریشنوں کا 700ارب ڈالر سے زیادہ کا خسارہ ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے یا نہیں۔ قرضہ کیسے اتارنا ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ پانی کی شدید قلّت ہے۔ عالمی ادارے اس کی طرف بار بار توجہ دلارہے ہیں۔ پانی کے ذخیرے تعمیر نہیں کئے جارہے ۔ کالا باغ ڈیم کا نام لیتے ہی خطرے کی گھنٹیاں زور زور سے بجنے لگ جاتی ہیں۔ ان دو بڑے مسائل کے ساتھ ساتھ خوراک۔ رہائش۔ ٹرانسپورٹ کے الجھے ہوئے امور ہیں۔ ان شعبوں میں اکیسویں صدی میں انسانوں کو جو آسانیاں میسر ہیں ہم ان سے صدیوں دور ہیں۔ ان میں سے بہت سے مسائل سی پیک سے حل بھی ہوسکتے ہیں۔ مزید الجھ بھی سکتے ہیں۔اس پر بھی بات نہیں ہورہی۔ کوئی پارٹی اس پر موقف ظاہر نہیں کررہی۔
حقیقت پسندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ پورے ملک میں اخبارات میں۔ ریڈیو۔ ٹی وی اور سوشل میڈیا میں ان خطرناک مسائل کے حوالے سے بات ہورہی ہوتی کہ اس وقت ہم کہاں کھڑے ہیں۔ کہاں ہونا چاہئے تھا۔سیاسی جماعتیں بھی اپنے پروگرام لارہی ہوتیں کہ ہم قرضہ ایسے اتاریں گے۔ پانی کے لئے کہاں کہاں ڈیم بنائیں گے۔ 6کروڑ نوجوانوں کے دست و بازو ملکی معیشت بہتر کرنے میں کیسے استعمال کریں گے۔
لیکن اس فیصلہ کن دن سے صرف 34دن پہلے ایسے تجزیے سننے میں آرہے ہیں، نہ پارٹیوں کی طرف سے امیدواروں کی جانب سے کوئی معروضی پروگرام سامنے آرہے ہیں۔ اس سارے منظر نامے سے جو پیغام ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں ان انتہائی سنگین مسائل کے حوالے سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ قرضے سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔ یہ تو ممکن ہے ہماری کسی خدمت کسی چاکری کے عوض معاف بھی ہوجائیں لیکن پانی کی قلّت کا ہم کیسے مقابلہ کریں گے۔ گزشتہ 40برس میں ہم نے کوئی بڑا تو کیا چھوٹا ڈیم بھی نہیں بنایا۔ لاکھوں کیوسک پانی آسمان سے اترتا ہے۔ لیکن ہم محفوظ نہیں کرپاتے وہ سمندر کے کھارے پانی کی نذر ہوجاتا ہے۔ پانی سے متعلق ہی ہندوستان کی پالیسی ہے۔ ہندوستان اپنے حصّے کے ڈیم بلکہ اس سے زیادہ بنائے جارہا ہے۔ ہم نے سندھ طاس معاہدے کے تحت جو ڈیم بنانے تھے وہ بھی نہیں بنائے۔جتنے ڈیم ہیں وہ متحدہ پاکستان میں بنے۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد کوئی بڑا ڈیم نہیں بنا۔ ماضی میں جھانکیں تو یہ منگلا۔ تربیلا۔ فوجی حکومتوں کے دور میں ہی بنے۔ میرانی ڈیم 2006میں مشرف دور میں تعمیر ہوا۔مقامی حکومتوں سے جس طرح سیاسی حکومتیں گریزاں رہیں۔ وہی رُجحان ان کا آبی ذخیروں کی تعمیر سے متعلق رہا ہے۔
اس وقت منظر نامہ کیا ہے ۔ ہر طرف سے آوازیں یہی آرہی ہیں۔ فلاں پارٹی جیتے گی۔ فلاں پارٹی اس بار بری طرح شکست کھائے گی۔ سروے بھی اسی کسوٹی پر کئےجاتے ہیں۔ وفاق میں کونسی پارٹی کتنی سیٹیں لے گی۔ پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کا کیا بنے گا۔ پی ٹی آئی کتنی سیٹیں نکالے گی۔ پی پی پی کو پنجاب میں امیدوار نہیں مل رہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم پہلے کی طرح سیٹیں نہیں لے سکے گی۔ سندھ میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس پی پی پی کے لئے چیلنج ہوگا۔ عمران خان وزیر اعظم بن سکیں گے یا نہیں۔ حکومت کوئی ایک پارٹی بنائے گی یا مخلوط ہوگی۔
اس سے آگے یہ تجزئیے کہ پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت کس کو ملے گی۔معلّق پارلیمنٹ ہوگی ۔ میرا مقابلہ خلائی مخلوق سے ہے۔ بنی گالا اور بلاول ہائوس کے باہر مظاہرے بھی امیدواروں کے حوالے سے ہیں۔ فلاں کو ٹکٹ غلط دیا گیا۔ فلاں کو دیا جائے۔
شخصیت پرستی ہماری گھٹی میں داخل ہوچکی ہے۔ ہمارے ہاں معیار یہی رہا ہے کہ فلاں پاکستان کی آخری اُمید ہے۔ فلاں پاکستان کیلئے سیکورٹی رسک ہے۔ نوابزادہ نصر اللہ خان یاد آتے ہیں۔ وہ آخر میں تنگ آکر کہا کرتے تھے۔ نہیں جی فلاں اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ ہم ہمیشہ ہیرو ڈھونڈتے ہیں یا ولین۔ کہانی کے باقی کرداروں کی ہمیں فکر نہیں ہوتی۔ نہ ہی کہانی کے اصل موضوع اور پلاٹ کی ۔ اسی لئے ہماری کہانی 1947سے اُدھوری چلی آرہی ہے کیونکہ شخصیات کوئی بھی ہوں۔ سب فانی ہوتی ہیں۔ انہیں ایک روز چلے جانا ہوتا ہے۔ ملک باقی رہتے ہیں۔ معاشرے دائمی ہیں۔
شخصیات فانی ہیں۔ مسائل دائمی۔ مسائل کے حل کے لئے مبسوط پروگرام سوچنے پڑتے ہیں۔ہمارے اہداف کیا ہیں۔ عمران خان کو وزیر اعظم بنانا ہے۔ بلاول بھٹو کو وزیرا عظم بنانا ہے۔ نا اہل سابق وزیرا عظم اپنے بیانیے کے ذریعے یہ ٹارگٹ دے رہے ہیں کہ مجھے اتنے ووٹ دو اتنے امیدواروں کو جتائو کہ یہ سب فیصلے الٹ دئیے جائیں۔ میں چوتھی بار وزیر اعظم بن جائوں۔ ایم ایم اے کہتی ہے ملک کو سیکولر ازم کی طرف لے جایا جارہاہے۔ ہم یہاں اسلامی نظام نافذ کریں گے۔
20کروڑ انسان اس وقت جن بیماریوں میں مبتلا ہیں جن سہولتوں کی قلت سے دوچار ہیں ان پر کوئی مباحثہ نہیں ہورہا ۔ سیاسی پارٹیاں کوئی ہندوستان پالیسی نہیں دے ر ہیں۔ پانی کی فراہمی کاکوئی لائحہ عمل نہیں۔ میڈیا پر ماہرین معیشت۔ یونیورسٹی اساتذہ۔ بینکرز کو نہیں بلایا جارہا نہ ہی وہ خود بول رہے ہیں۔ 18ویں ترمیم کے بعد صوبے کیا تعلیم۔ صحت۔ مقامی حکومتوں۔ زراعت۔ معدنی وسائل میں کچھ پیش رفت دکھا سکے ہیں۔ صوبے اپنی خود مختاری استعمال کرنا سیکھ سکے۔
انتخابی منظر نامے میں جو تین چار پارٹیاں سر فہرست ہیں۔ یہ وہی ہیں جو برسوں سے آزمائی جاچکی ہیں۔ پی ٹی آئی کے پی میں اپنی اہلیت دکھا چکی۔پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے۔ زراعت میں بہتری ان میں سے کوئی پارٹی بھی نہیں لائی ۔ 250کلیدی عہدوں پر میرٹ پر تقرریاں ان میں سے کسی نے نہیں کیں۔ پاکستان کو صارفین کی منڈی بنادیا گیا ہے۔ دنیا بھر کی اشیائے صرف بک رہی ہیں۔ مینو فیکچرنگ ہمارے ہاں کم ہوتی جارہی ہے۔ برآمدات بھی نتیجے میں کم ہورہی ہے۔ درآمدات بڑھ رہی ہیں۔ ہزاروں مزدوروں محنت کشوں کو روزگار فراہم کرنیوالے کارخانے گراکر شاپنگ مال تعمیر کئے جارہے ہیں۔ خرچے والی چیزیں موبائل فون وغیرہ بڑھ رہے ہیں۔ آمدنی والی اپنی مصنوعات کم ہورہی ہیں۔
پارٹیوں کے پاس ماہرین ۔ٹیکنو کریٹس نہیں ہیں۔ کوئی کام نہ جاننے والے نہ کرنے والے صرف کلف لگے پھڑپھڑاتے لباس والے زیادہ ہیں۔ یہاں بھی مسائل کے حل کو ترجیح نہ دینے کے اشارے ملتے ہیں۔ اکیسویں صدی میں۔ ہر لحظہ قریب ہوتی عالمگیر دنیا میں۔ آبادی کے لحاظ سے بڑے ملک۔ انتہائی حساس جغرافیائی حیثیت رکھنے والی سر زمین کی سیاسی پارٹیاں بالکل مختلف ہونی چاہئیں۔ سوشل میڈیا۔ میڈیا۔ یونیورسٹیوں۔صنعت و تجارت کے ایوانوں کو دبائو بڑھانا چاہئے کہ مسائل اور شعبوں کو اہمیت دینے والے آگے آئیں۔ لیکن یہ سارے ذرائع بھی شخصیتوں کی جی حضوری میں لگ جاتے ہیں۔ بڑے بڑے ماہرین۔ پی ایچ ڈی چند ٹکوں کی نوکری کے لئے ان نان میٹرک سربراہوں کی خوشامد میں مصروف رہتے ہیں۔
سب کچھ اچانک ٹھیک نہیں ہوسکتا لیکن پہلے مرحلے کے طور پر سیاسی پارٹیوں کو چاہئے کہ اپنے ارکان اور وزرا کی مدد کے لئے مختلف شعبوں پر ماہرین کی کمیٹیاں تشکیل دیں۔جو پارٹی کو مسائل کے حل کے لئے رپورٹیں اور شیڈول بناکر دیں۔ طویل المیعادالگ، فوری لائحہ عمل الگ۔ صرف اس طریقے سے ٹیکنو کریٹس کی طویل عبوری حکومت سے بچایا جاسکتا ہے ورنہ مسائل کی شدت۔ پانی کی قلت ۔ قرضوں میں اضافہ۔ بے روزگاروں کے ہجوم۔ ہندوستان کی غاصبانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیاں امریکہ کے علاقے میں غلاموں کی سرپرستی۔ ہر الیکشن کو بے معنی بناتی رہے گی۔ اور پاکستان کے جذباتی 20کروڑ جمہوریت اور آمریت کے مناظرے میں منہ سے جھاگ نکالتے رہیں گے۔ ان کے پائوں کے نیچے سے زمین سرکتی رہے گی۔ نہروں دریائوں میں مٹی کی سطح بلند ہوتی رہے گی۔
آپ بھی جب پانی پیئیں۔ تو یہ سوچیں کہ آپ اپنے عزیز از جان پوتے پوتی۔ نواسے نواسی کو پیاسا رکھنے کی قیمت پر اپنا حلق تر کررہے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین