• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہتے ہیں کہ مصیبت کبھی تنہا نہیں آتی، یہ جب بھی آتی ہے مصائب کا جھرمٹ ساتھ لاتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی سپریم کورٹ میں یہ دکھ بیان کرتے ہوئے غالب کا ایک شعر پڑھا تھا
رنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں پڑیں مجھ پر اتنی کہ آساں ہو گئیں
بھٹو ادبی آدمی تو تھے نہیں شاید وہ غالب کا درست مفہوم سمجھنے سے قاصر رہے اس لیے اپنی کیفیت سے موازنہ کرتے ہوئے بولے لیکن مائی لارڈ مشکلیں تو مشکلیں ہی ہوتی ہیں وہ بھلا آسانیاں کہاں لاتی ہیں۔ بھٹو مرحوم پھر کبھی ان مشکلوں سے نکل نہیں سکے حتیٰ کہ انہیں اس ملک عدم پہنچا دیا گیا۔ ان دنوں کچھ ایسی ہی یا ان سے ملتی جلتی مشکلات کا سامنا سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو بھی ہے جنہوں نے اپنے مخالفین کے ساتھ اگرچہ وہ سلوک کبھی نہیں کیا جو بھٹو مرحوم کا خاصا تھا اس لیے نواز شریف کو پورا یقین اور اعتماد ہے کہ وہ بالآخر ان تمام تر مشکلات سے سرخرو ہو کر نکل آئیں گے۔ ان دنوں وہ اپنے اوپر عائد ہونے والے الزامات کا پوری پامردی کے ساتھ عدالتوں میں سامنا کر رہے ہیں اور نوے سے اوپر پیشیاں بھگت چکے ہیں۔ دوسری طرف ان کی شریک حیات محترمہ کلثوم نواز گلے کے کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا لندن کے ایک اسپتال میں وینٹی لیٹر پر ہیں۔ جب وہ ہوش میں تھیں تب میاں نواز شریف اور مریم نواز کو اسلام آباد کی عدالتوں سے چھٹی نہیں مل رہی تھی۔ الیکشن کو منصفانہ و غیر جانبدارانہ دکھانے کے لیے اس نوع کے تقاضے کیے جا رہے ہیں کہ بلدیاتی ادارے بھی ترقیاتی کام نہیں کروا سکتے اپنے نام کی تختیاں نہیں لگوا سکتے اسی طرح کسی بھی پارٹی قائد کے خلاف منافرت پھیلانے کی کارروائیوں کو بھی روک دیا جاناچاہیے۔ 25جولائی کے بعد بہت وقت پڑا ہے،اپنے ارمان پورے کر لیجئے گا۔
بہرحال یہ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں ہیں ہم تو یہ اظہارِ خیال کر رہے تھے کہ مشکلات کبھی تنہا نہیں آتیں۔ نواز شریف ان دنوں غیروں کے چلائے تیر ہی اپنے سینے پر نہیں سہہ رہے، ان اپنوں کے زہر میں بھیگے جملے بھی برداشت کر رہے ہیں جنہیں اپنی 35سالہ رفاقت یا اپنائیت کا دعویٰ یا زعم ہے۔ اپنے تازہ بیان میں موصوف نے فرمایا ہے کہ بیگم کلثوم نواز کی بیماری کا خیال ہے ورنہ باپ بیٹی کے متعلق بہت کچھ کہہ دیتا حالانکہ بھلے وقت میں انہوں نے بیگم صاحبہ کو بھی نہیں بخشا تھا۔ چکری کے جلسہ عام میں وہ کھلے بندوں فرما رہے تھے کہ نواز شریف کا مجھ پر نہیں بلکہ میرا ان پر اور شریف خاندان پر قرض ہے۔ وہ قرض کیا ہے؟ کتنا اچھا ہوتا اگر وہ اس کی وضاحت کر دیتے تاکہ نواز شریف اس قرض کی ادائیگی کا کچھ اہتمام کر پاتے البتہ جو بات قابلِ فہم ہے وہ واضح ہے کہ نواز شریف چوہدری نثار کی وجہ سے نہیں جیت رہے بلکہ چوہدری نثار ہمیشہ نواز شریف کے باعث کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں۔ اب کی بار اگر وہ نواز شریف کی ٹکٹ کے بغیر انتخابی معرکے میں اتر رہے ہیں تو ان کے پاؤں کیوں لڑکھڑا رہے ہیں کیوں یہ دہائی دینے پر مجبور ہیں کہ میں تو 85 سے جیت رہا ہوں ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ لگانے والے میرا بھی خیال کریں، مجھے کیوں نظر انداز کر رہے ہیں؟
اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہے جا رہے ہیں کہ میں نے 35سالوں سے نواز شریف کا بوجھ اٹھا رکھا ہے۔ کوئی پوچھے کہ جناب آپ نے اتنا بھاری بوجھ اتنے طویل عرصے سے کیوں اور کس مجبوری کے تحت اٹھائے رکھا؟اگر آپ کو نواز شریف اور ان کی ن لیگ میں سوخامیاں نظر آتی ہیں اور ان کی مخالف PTI میں محض دس،تو پھر PTI میں شمولیت کے اعلان سے کون سا امر مانع ہے ؟35سالہ رفاقت کا بھرم تو آپ نے بیچ چوراہے کب کا توڑ دیا، تو اب آپ کو آخر کس غیبی اشارے کا انتظار ہے ؟
خدا کا شکر ہے کہ نواز شریف نے انہیں ان کی خواہش اور مطالبے کے باوجود وزارت خارجہ کا قلمدان نہیں سونپا ورنہ جمہوری قوتوں کو کاٹنے کی طرح وہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے میں بھی کوئی کمی نہ چھوڑتے جسے شک ہے وہ اس دور کی اخباری فائلوں سے برادر ہمسایہ ملک افغانستان، بنگلہ دیش، بھارت اور امریکا سے متعلق ان کے بیانات اور تقاریر ملاحظہ کر سکتا ہے اس کے بعد فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ کون کس پر بوجھ تھا؟ وطنِ عزیز کے لبرل، روشن، سافٹ اور جمہوری تشخص کو داغدار کرنے میں کس کا کیا رول رہا ہے اس کا تحقیقی مطالعہ بھی کیا جا نا چاہیے۔ اس کے علاوہ نہ جانے کیوں ہر وہ شخص جو نواز شریف سے محبت میں جتنا خلوص رکھتا ہو وہ ان آنکھوں میں خار بن کر کھٹکتا رہا۔ وہ احسن اقبال ہوں، پرویز رشید یا مشاہد اللہ خاں کس کس کے خلاف کیا کیا بیان بازی نہیں کی گئی۔ محترمہ مریم بی بی کی مخالفت تو رہی ایک طرف کہ ایک بچی کے خلاف بولتے ہوئے بڑوں کو ویسے ہی لاج آتی ہے چھوٹے بھائی نے اگر اپنائیت کے ساتھ دلجوئی کی کوشش کی تو بخشا اُسے بھی نہیں گیا۔ وہ آپ کی خاطر بڑے بھائی سے مباحثہ برپا کیے ہوئے تھا اور آپ میڈیا کے سامنے اُسی کے لتے لے رہے تھے۔ رانا تنویر حسین جیسے سلجھے ہوئے اور منجھے ہوئے سیاستدان نے آپ سے ہمدردی کرنی چاہی تو آپ نے انہیں بھی ہمدردی کے قابل نہیں رہنے دیا۔
نواز شریف کو کمانڈو کا تحفہ کیا آپ ہی نے نہیں بخشا تھا؟ یہ تحفہ کتنا بھاری تھا؟ جس نے اس ہر دلعزیز لیڈر کو جیل ہتھکڑی اور جلا وطنی تک پہنچا دیا جبکہ تحفہ دینے والا اس کے ثمرات سے مستفید ہوتا رہا۔ دنیا میں ہمیشہ دو طرح کے مجنوں رہے ہیں ایک خون دینے والے اور دوسرے چوری کھانے والے۔ ہمیں وہ تلخ ایام یاد ہیں جب بیگم کلثوم کو آمریت نے گھنٹوں گاڑی میں محبوس رکھا اس وقت جاوید ہاشمی تھے جو وطنِ عزیز میں آمریت کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے رہے، پوری جدوجہد کی اور جیلوں کی صعوبتیں جھیلیں مگر جب حالات نے پلٹا کھاتے ہوئے بہتری دکھائی تو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے کون پیش پیش تھا؟ پرویز رشید صاحب درست کہتے ہیں کہ جیسے مرغابیاں گرم موسم یا خطے سے اڑ جاتی ہیں اسی طرح آپ سختی کے ماحول میں حیلوں بہانوں کے عادی رہے ہیں یہی چوری کھانے والے مجنوں اور خون دینے والے مجنوں میں فرق ہوتا ہے۔
ہم نے ایک پروگرام میں ساحر لدھیانوی کا لکھا اور مہندر کپور کا گایا ہوا گیت حضور کی نذر کیا تھا کہ ’’وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن، اسے ایک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا۔‘‘ آج پنجاب کے چوہدری ثنا نے بھی یہی مشورہ دیا ہے۔ لہٰذا آپ کو بھی یہ سوچنا چاہیے آپ اپنے بارے میں جو دعوے مرضی کرتے پھریں لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ آپ کا نواز شریف سے تقابل بنتا ہی نہیں ہے۔ آپ فقط ایک حلقے کی سیاست کے حامل وہ بھی پہلی مرتبہ بیسا کھیوں کے بغیر چلے ہیں تو کس قدر پریشانی محسوس ہو رہی ہے۔ سابق کھلاڑی کو چاہیے کہ وہ اپنی پرانی اور حقیقی دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے فوری طور پر بلے کا نشان پیش فرما دے۔ہمارے ممدوح کی البتہ ایک خوبی بہت بھاری ہے یہ کہ شاہی طبقے سے ان کی قربتیں بہت گہری ہیں جو دوستوں کیلئے اگرچہ خیر کی بجائے ہمیشہ شر ثابت ہوئی ہیں ایسی ہی صورتحال کے بارے غالب نے کیا خوب کہا تھا کہ
بنا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
پاکستانی عوام اینٹ سے اینٹ جوڑنے اور اینٹ بجانے والوں کے فرق کو بخوبی سمجھتے ہیں مت بھولیے اپنے آپ کو اکابرین میں کہنے سے کوئی بڑا نہیں ہو جاتا۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ جو ڈکٹیٹر اپنے بوجھ کے لیے نواز شریف کا کاندھا تلاش کیا کرتا تھا اُس نے یہ الفاظ بے وجہ نہیں کہے تھے کہ’’ میری عمر بھی نواز شریف کو لگ جائے‘‘ جبکہ انہی دنوں کی بات ہے خوشامد پر تین حروف بھیجنے کے دعویدار اسی ڈکٹیٹر کی دست بوسی کو اعزاز خیال کیا کرتے تھے۔ یہ حقیقت اس دور کے اخبارات میں باقاعدہ رپورٹ ہوئی تھی۔ ان کی خدمت میں محض یہ عرض ہے کہ
اتنی نہ بڑھا پاکئی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین